نئی دہلی ۔ 4 ۔ فروری (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آدھار کارڈ کی دستوری افادیت کو چیلنج کرتے ہوئے پیش کردہ درخواستوں پر اپنی قطعی سماعت کا آج آغاز کیا۔ درخواست گزار اس میگا پراجکٹ کی شدید مخالفت کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے قومی سلامتی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہونے یا موقف میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ مزید یہ کہ جسٹس بی ایس چوہان کی زیر قیادت تین رکنی بنچ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پراجکٹ نہ صرف عوام کی رازداری کے حق کے مغائر ہے بلکہ پراجکٹ کے بنیادی اصول بائیو میٹرکس کا اصول بھی ناقابل بھروسہ اور ناتجربہ کاری کی ٹکنالوجی سے مربوط ہے۔ اس سے عوامی فنڈس کو ضائع کیا جارہا ہے۔
کارآمد وجوہات کے بغیر خانگی کمپنیوں کو پیسہ دیا جارہا ہے ۔ سینئر ایڈوکیٹ شام دیوان نے بنچ کے سامنے بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس پراجکٹ کو عجلت میں اور غیر قانونی طور پر شروع کیا گیا ہے۔ اس پر سرکاری کنٹرول کے بغیر خانگی غلبہ والی کمپنیوں کو عوام کے بنیادی شواہد کا اکھٹا کرنا ہے ۔ حکومت اس طرح کی غلطی کرتے ہوئے ذاتی سلامتی اور قومی سلامتی سے سمجھوتہ کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ میں جسٹس جے چلمیشور اور ایم وی اقبال بھی شامل ہیں۔ بنچ اس بات کو معلوم کرنا چاہتی ہے کہ آیا قومی شناختی نمبر اور آدھار کے درمیان کیا فرق ہے۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی قطعی سماعت کا آغاز عدالت عالیہ کے عبوری احکام کے پس منظر میں ہوا ہے ۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آدھار کارڈ کو حکومت کی کوئی بھی خدمات اور اسکیمات سے استفادہ کیلئے عوام الناس کو لازمی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
صرف کارڈ کی وجہ سے کسی بھی شہری کو سرکاری سہولیات سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ مرکزی حکومت یونک آڈینٹی فیکیشن اتھاریٹی آف انڈیا (یو اے آئی ڈی اے آئی) اور دیگر تین تیل کی کمپنیوں پبلک سیکٹر یونٹس، آئی او سی ایل، بی پی سی ایل اور ایچ پی سی ایل نے بعد ازاں سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے اس کے قبل ازیں دیئے گئے احکام کے آدھار کارڈ کو لازمی قرار نہ دیا جائے اور نہ ہی کسی بھی فرد کو سرکاری اسکیمات کے ثمرات سے محروم کیا جائے، میں ترمیم کی درخواست کی گئی ہے۔ درخواست گزاروں میں سابق ہائی کورٹ جج جسٹس کے پٹا سوامی اور میجر جنرل ایس سی اومبیڈکرے بھی شامل ہیں۔