ڈاکٹر امیر علی
میر ببر علی انیسؔ کا شمار اُردو زبان و ادب کے نام آور شاعروں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں شاعری کی ہے ۔ انہوں نے زبان و بیان کے ایسے دریا بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے ۔ شہر لکھنو سے آپ کو خاص لگاؤ تھا جو آخری دم تک قائم رہا ۔ میر انیسؔ دلی روایات کے بے مثل امین اور لکھنو زبان و ادب اور تہذیب کے منفرد نمائندہ شاعر ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداء غزلوں سے کی تھی اور بعد میں اپنے والد کی فرمائش پر فن مرثیہ گوئی کی طرف راغب ہوئے اوراپنی خداداد صلاحیتوں سے اس فن کو کمال کی بلندیوں تک پہنچادیا ۔ میر انیسؔ کا اصل نام میر ببر علی ہے ، شاعری میں تخلص انیسؔ فرمایا ہے۔ آپ کی ولادت 1802 ء کو فیض آباد میں ہوئی ، آپ کا آبائی وطن دلی ہے اور آپ کی پرورش فیض آباد میں ہوئی اور نواب آصف الدولہ کے عہد میں لکھنو آگئے ۔ اُن کے مورث اعلیٰ میر امامی مغل شہنشاہ شاہجہاں کے عہد حکومت میں ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے ۔ امن پسند ، علم دوست اور رعایا پرور شہنشاہ نے میر امامی کی علمی قابلیت اور اعلیٰ اخلاق سے م تاثر ہوکر اعلیٰ عہدے اور منصب عطا کئے۔ یہاں اُن کی اولاد خوب پھلی پھولی اور ادب اور شاعری میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ہے ۔ میر انیس کے دادا کو کون نہیں جانتا جو اردو زبان و ادب کے مایہ ناز شاعر تھے ۔ ’’مثنوی سحر ا لبیان‘‘ اُن کا شاہکار ہے ۔ میر انیس کے والد میر خلیقؔ نے بھی شاعری اور فن مرثیہ گوئی میں بہت نام کمایا ۔ وہ مشہور مر ثیہ گو شاعر میر ضمیر کے ہم پلہ تھے ۔ اپنے پدر بزرگوار کی طرح میر انیس نے بھی بڑے ہی عمدہ اور موثر مرثیے تصنیف کئے ہیں اور اپنی شعری صلاحیتوں سے بڑے پرسوز اشعار کہے ہیں جس کا پوری اردو شاعری میں جواب نہیں ہے۔ بلا شبہ اردو مرثیہ نگاری کی تاریخ میر انیس کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی اور حق تو یہ ہے کہ نواسۂ رسول مقبولؐ حضرت امام حسین عالی مقام اور اُن کے جیالوں کی مداحی میر انیس پر خوب ججتی ہے ۔ میر انیسؔ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔ اُن کے کلام میں فصاحت، بلاغت ، خلوص و جذبہ ، جوش و ولولہ ، بلند پروازی اور ادب وا حترام ملتا ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں کیف و سرمستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ کبھی بے ادب ہوتے ہیں نہ گستاخ ، والہانہ جذبات ، زبان و بیان اور اعلیٰ تخیل اور بلند پروازی میر انیسؔ کا مخصوص رنگ ہے ۔ اُن کی شاعرانہ عظمت اور برتری کا اندازہ اُن کے ایک مشہور شعر سے لگایا جاسکتا ہے ۔
انیسؔ دم کا بھر وسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
میر انیس بڑے خوداداد اور خدا ترس انسان تھے ، ان کی شاعرانہ عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ بڑے نام آور شاعر ہونے کے باوجود سادگی پسند انسان تھے ، وہ امیروں کے سامنے جھکتے نہ تھے اور غریبوں سے اکڑتے نہ تھے ۔ انہوں نے کبھی کسی کے کلام پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی متعرض کو جواب دیا اور آپ کو خدا کی وحدانیت پر پورا بھروسہ تھا ا ور وہ اس راز سے اچھی طرح جانتے تھے کہ ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اس خیال کو اردو کے عظیم شاعر داغ دہلوی نے اس طرح پیش کیا تھا ۔
بے فائدہ انسان کا گھبرانا ہے
ہر طرح اسے رزق کو پہنچانا ہے
قارون کے خزانے سے بھی مل جائے گا
منظور جو اللہ کو دلوانا ہے
میر انیسؔ کو زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی ۔ انہوں نے ایک مرثیہ میں ایک روایت کو نظم کیا ہے کہ جب نواسۂ رسول مقبولؐ حضرت امام حسنؓ عالی مقام اور حضرت امام حسین عالی مقام عہد طفلی میں عید کے دن سواری نہ ہونے کی وجہ سے روٹھے ہوئے تھے ۔ مزاج شناس اور ناز بردار نانا اپنے ہردلعزیز نواسیوں کو روٹھا ہوا دیکھ کر سواری بن جاتے ہیں۔ میر انیس نے نہایت تعظیم و تکریم اور خلوص و وفا کے ساتھ اس واقعہ کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔
جب آپ روٹھتے ہیں تو مشکل سے منتے ہیں
اچھا سوار ہوجیئے ہم اونٹ بنتے ہیں
جب صحابۂ کرام سوار اور سواری کا منظر دیکھا تو مسرت سے کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلعم شہزادوں کے لئے سبحان اللہ سواری خوب ہے اور اس پر حضور انور صلعم نے مسکراکر صحابۂ کرام کو جواب دیا کہ ہاں ہاں سواری اچھی ہے مگر سوار بھی تو اچھے ہیں۔
حیدرآباد (دکن) فرخندہ بنیاد عہد قدیم ہی سے علم و ادب ، شاعری ، اعلیٰ تہذیب ، رواداری ، مروت اور ہمدردی ، مہمان نوازی کا مرکز رہا ہے ۔ بڑے بڑے شاعر اوراہل کمال یہاں پیدا ہوئے اور اپنی گراں بہا خدمات سے اپنے عہد کو متاثر کیا اور اپنے کارناموں سے دکن کو دلہن بنادیا ۔ اور یہی نہیں بلکہ یہاںکے علم دوست اور رعایا پرور حکمرانوں نے بھی دکن کی ترقی میں گراں قدر کارنامے انجام دیئے جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں، جس کا ذکر میر انیس نے اپنے اشعار میں اپنے قیام حیدرآباد میں کہا تھا اور آپ نے حیدرآباد کی ترقی کیلئے دعا کی تھی ۔
اللہ والو ! حق کی امداد رہے
سرسبز شہر فیض بنیاد رہے
نواب ایسا رئیس اعظم ایسے
یا رب آباد حیدرآباد رہے
دنیا کی ناپائیداری اور فانی کا تذکرہ اردو کے سبھی شعراء کے ہاں ملتا ہے۔ میر انیس نے بھی اس خیال کو اپنے اشعار میں بڑے حکیمانہ اور موثر انداز میں پیش کیا ہے جس کا پوری اردو شاعری میں جواب نہیں ہے ۔ چنانچہ میر انیس فرماتے ہیں۔
گر لاکھ برس جیئے تو پھر مرنا ہے
پیمانہ عمر اک دن بھرنا ہے
ہاں توشۂ آخرت مہیا کرلے
غافل تجھے دنیا سے سفر کرنا ہے
کیا کیا دنیا سے صاحبِ مال گئے
دولت نہ گئی ساتھ نہ اطفال گئے
پہنچا کے لحد تلک پھر آئے احباب
ہمراہ اگر گئے تو اعمال گئے
کربلائے معلیٰ (عراق) دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے اور یہیں پر انسانیت اور انسان کے دشمن اور بدنام زمانہ یزید اور اس کے کارندوں نے اپنی ناپاک سازشوں سے ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا تھا اور نام و نہاد حکمراں بن بیٹھا تھا ۔ یہیں پر حق و صداقت کے چند جیالوں نے اپنے خون سے تاریخ انسانی کا روشن ترین باب لکھا تھا جسے دنیا واقعات کربلا کے نام سے جانتی ہے اور شہدائے کربلائے معلیٰ و نواسۂ رسول مقبولؐ ، حضرت امام حسنؓ عالی مقام اور حضرت امام حسینؓ عالی مقام اور اُن کے گھر والوں نے دنیا میں انسانیت کی بقاء اور ظلم اور ظالم کے خلاف ٹکراتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کردیں اور جام شہادت نوش فرمایا اور ان جیالوں نے دنیا کو دکھادیا کہ ظلم اور ظالموں کے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہا بھی درس دیا کہ باطل طاقت کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ حق پر فتح حاصل نہیں کرسکتی اور دنیا سے اس کا خاتمہ یقینی ہے ۔ میر انیس نے اپنے اشعار میں حضرت امام حسینؓ عالی مقام اور ان کے جیالوں کی جواں مردی ، بہادری ، دلیری ، اصول پسندی اور صبر و قناعت کا تذکرہ بڑے ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
برہم ہوئے یہ سنتے ہی عباس ؓ خوش خصال
غازی کو شیر حق کی طرح آگیا جلال
قبضے پہ ہاتھ رکھ کے یہ بولا علیؓ کا لال
اب یاں سے ہم کو کوئی ہٹادے یہ کیا مجال
حملہ کریں چڑھا کے اگر آستین کو
ہم آسماں سمیت اُلٹ دیں زمین کو
میر انیسؔ کا کلام پانچ (5) جلدوں میں نول کشور پریس لکھنو سے شائع ہوا ۔ میر انیسؔ نے طویل عمر پائی اور زندگی کو قریب سے دیکھا اور زمانے کی گرم ہواؤں کے چرکے بھی سہے۔ دلی اور لکھنو کی بہاریں بھی دیکھیں اور زمانے کے عروج و زوال بھی دیکھے مگر اللہ رے پرہیز گاری کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اور نہ ہی پیروں میں لغزش آئی اور وہ آخری دم تک ادبی سرگرمیوں سے وابستہ رہے ۔ جب تک لکھنو آباد تھا وہیں رہے اور غدر 1857 ء کے ہنگاموں سے دلی اور لکھنو اُجڑ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے علاقوں کی سیاحت بھی کی مگر جس چین و سکون کے انیسؔ متلاشی تھے ، انہیں نصیب نہ ہوا ۔ (72) سال کی عمر میں 10ڈسمبر 1874 ء کو آپ نے اس دنیائے فانی کو خیر باد کہا اور اپنے ما لک حقیقی سے جا ملے اور آپ کی آخری آرام گاہ لکھنو ہی میں واقع ہے۔
خاکساری نے دکھائی رفعتوں پہ رفعتیں
اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے