ڈاکٹر مجید خان
اہل زبان سے میں درخواست کرتا ہوں کہ اوپر لکھے ہوئے عنوان کا ہم پلہ ترجمہ اردو میں پیش کریں ۔ میں سوچ سوچ کر تنگ آگیا اور ان دوستوں سے جن سے امید تھی کہ وہ ترجمہ کی اس مشکل کو حل کریں گے تو وہ لوگ سر کھجانے لگے ۔ اس کے مقصد کو سمجھانے لگے مگر جو زور اور وزن انگریزی محاورے میں ہے وہ ترجمے میں مل نہیں رہا ہے ۔ اگر اردو کے اساتذہ اس مشکل کو دور کرسکیں تو میں ان کا ممنون رہوں گا ۔ چونکہ مجھے موزوں ترجمہ نہیں ملا اس لئے بحالت مجبوری میں انگریزی زبان کے محاورے ہی کو آج کا عنوان بناتا ہوں ۔
میں نے کمپیوٹر کی ڈیجیٹل لغت بھی چھان ڈالی مگر یہ محنت بھی رائیگاں گئی ۔ پرانی اردو لغات تو سب خاموش ہوچکی ہیں ۔ ارے یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ اردو زبان میں ایک سے بڑا ایک عالم گذرا ہے اور اس محاورے کے مطلب کو کسی نہ کسی طرح اردو میں استعمال کیا ہوگا ۔ قارئین میری لاعلمی میں میری مدد کرسکتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ شعراء اس کا اظہار ضرور کئے ہوں گے مگر یہ ایک 4 الفاظ کا محاورہ ہے جو بہت ہی مفید ہے ۔
اب میں اپنے طور پر اس کو سمجھانے کی کوشش کروں گا ۔ مجھے یقین ہے کہ ہر شخص واقف ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے اور اس پر عمل بھی کرتے ہوں گے مگر میں مناسب و موزوں ترجمے کی تلاش میں ہوں ۔
میری اپنی دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کسی بھی چیز کو قبول مت کیجئے ۔ مگر اس میں معقولیت نہیں آتی ۔ انگریزی کے محاورہ میں بہت سادگی بھی ہے اور نصیحت بھی ۔ کاش ہماری یونیورسٹیوں کے پروفیسرس اس موضوع پر اپنے درمیان ایک Seminar منعقد کریں ۔
صرف اوپر کے محاورے کے اردو ترجمے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اردو زبان کی وسعت پر غور کرنا ہے ۔ بڑا موضوع تو غور و فکر کا ہے ۔
انگریزی زبان میں بھی میرے اوپر لکھے ہوئے مطلب کو صحیح نہیں مانا جائے گا ۔ یہ میری غلط فہمی آج مجھ پر عیاں ہوئی ۔ انگریزی زبان نئی غور و فکر کو اپنے دامن میں سمانے کی انتھک کوشش کررہی ہے ۔ پرانے اصطلاحات اور محاوروں میں نئی جان ڈالی جارہی ہے ۔
Yahoo Answers میں جب میں نے تلاش کیا تو پھر معاملہ سمجھ میں آیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب ہمارے اطراف جتنی بھی نعمتیں اور سہولتیں ہیں ان کو بغیر اللہ تعالی کا شکر ادا کئے قبول کرلیتے ہیں جیسے کے وہ ہمارا حق ہے ۔ مثلاً آپ کے والدین آپ کو ہر قسم کی سہولتیں پہنچاتے ہیں مثلاً والدہ اور بہنیں دن میں تین وقت گرم گرم طعام کا انتظام کرتی ہیں ۔ اگراس میں کمی یا دیر ہوجائے تو آپ خفا ہوجاتے ہیں ۔ اپنے آپ کا مقابلہ اس لڑکے سے کیجئے جو یتیم ہوگیا ہے ۔ ماں کے مرنے کے بعد اس کو ان رحمتوں و نعمتوں کا احساس ہوتا ہے ۔ جن سے وہ محروم ہوگیا ہے ۔ ماں کے مرنے سے پہلے وہ کبھی غور نہیں کیا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے یعنی اپنے خوشگوار حالات کو وہ Took Things for Granted لیا تھا ۔ ایسی بے شمار مثالیں آپ کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ملیں گی ۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اگر اردو زبان میں ایسے تبصرے نہ ہوں تو زبان میں وسعت کیسے آئے گی ۔ جہاں ہم کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں مشکلات محسوس ہوتی ہیں تو ہم انگریزی زبان کا سہارا لیتے ہیں ۔
اب میں اپنی بحث کو اور آگے بڑھانا چاہوں گا ۔ اس انگریزی محاورے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی موجودہ زندگی کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے اس پر غور ہی نہیں کرتے مثلاً آفات سماوی ۔
مشرق وسطی کے حالات پرجب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دل دہل جاتا ہے ۔ جو لوگ انتہائی متمول تھے اور عیش و آرام کی زندگی گذارتے تھے وہ بیچارے آج پناہ گزینوں کے ڈیروں میں مفلسی کے دن گذار رہے ہیں ۔
ان تمام پہلوؤں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو غور و فکر میں زبان کی بہت زیادہ اہمیت اور رول نظر آتا ہے ۔ ہم اس زبان میں سوچتے ہیں جو ہماری مادری زبان ہے اور اگر مادری زبان صرف اردو ہو تو لازماً ہماری غور و فکر زبان کی طرح محدود رہے گی ۔ انگریزی زبان کے معمولی سے محاورے کی میں نے مثال دی جو روزمرہ کی زبان میں استعمال ہوتا ہے اور اس پھر تفصیلات پیش کیں اور مجھے یقین ہے کہ لوگ جب یہ مضمون پڑھیں گے تو ان کو بے ساختہ کئی بہترین اور برجستہ اشعار یاد آجائیں گے ۔
اب اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کیلئے میں ایک اور حالیہ مثال پیش کرتا ہوں ۔ دہلی کے انتخابات ۔ کس نے سوچا تھا کہ بی جے پی کا اتنا بُرا حشر ہوگا ۔ کانگریس کو تو بھول جایئے اس کے جنازے پر جنازے نکل رہے ہیں مگر بی جے پی کے فخر کا منہ کالا ہوا ۔ وہ پریقین تھے کہ دہلی میں اگلی بار مودی سرکار اور منہ کی کھائے ۔ They Took it for Granted ۔ اس تہلکے سے بھی ہم کو سبق سیکھنا چاہئے ۔ بی جے پی 282 سیٹیں لوک سبھا میں حاصل کی ، تعجب نہیں کہ اگلے لوک سبھا انتخابات میں انکا وہی حشر ہوگا جو کانگریس کا ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کو تبدیلی حالات کیلئے ہمیشہ کمربستہ رہنا چاہئے۔ اب ایک اور غور طلب مسئلہ ہے ۔سوشیل میڈیا اور سوشیل نیٹ ورک کا بڑھتا ہوا رول ۔ حکومت کی ساری انتہائی طاقتور سرکاری مشنری اروند کجریوال کے خلاف انتخابی میدان میں جھونک دی گئی تھی اور آر ایس ایس کے والنٹیرس گھر گھر پہنچنا شروع کئے اور اس کے علاوہ مودی جی کی دھواں دار تقاریر سب بے سود ثابت ہوئے ۔ یہ سب آزمائے ہوئے ہتھکنڈے اب کام میں آنے والے نہیں ہیں ۔ سیاسی ریالیاں آپ کو ووٹ نہیں دلائیں گی ۔ نیک نیتی اور خلوص سے اگر عوام کی خدمت کریں تو وہ آپ کو اقتدار دے سکتے ہیں ورنہ آپ ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے ۔
اس پس منظر میں میرا پہلا ترجمہ غلط ثابت ہوگا ۔ اس محاورے کے معنی بدلتے جارہے ہیں ۔ یہ دنیا کے غیر یقینی حالات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔ ماضی کے واقعات اور تاریخ اپنی جگہ ہے اور اس سے واقفیت ضروری ہے مگر یہ اب میوزیم ہی میں محفوظ رہے گی ۔ ایک ہی خطرناک انسانی پہلو ابھر کر آرہا ہے اور وہ ہے ایک فرد کی سوچ اور اس کی کارستانیاں ۔ اب ان بدلتے حالات میں ہم کو چاہئے کہ آگاہ رہیں اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہیں ۔ بدلتے حالات کے ایک اور پہلو پر غور کیجئے ۔ لوگ تنہائی پسند ہوتے جارہے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے سکون کو پارٹی کے کارکن مسلسل گھر پر آکر خلل اندازی کریں ۔اب لوگ اپنی خانگی زندگی میں ان فضول مشغلوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔ وہ اپنے اپنے سوشیل نٹ ورک سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔
عوامی ریالیوں میں سب جاننے لگے ہیں کہ زیادہ تر کرائے کے ٹٹو ہی لائے جاتے ہیں ۔مگر حالیہ انتخابات میں نتیجہ کچھ اور ہی نکلا لہذا خاموش عوام کو
Do not take them for granted. They may be having something else up their SLEEVE
یہ مضمون پڑھنے کے بعد آپ اپنے کالج میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے یہی سوال کیجئے اور دیکھئے ان کی غور وفکر کتنی عمیق ہے ۔