LEARNABILITY

ڈاکٹر مجید خان
میں مسلسل کوشش کرتا رہتا ہوں کہ میرے ہر مضمون میں ایک نئی فکر، جہت اور انوکھا پن ہو۔ اکثر میں ایک معمولی سے واقعے کی ممکنہ عمیق پہلوؤں پر غور کرتا رہتا ہوں۔ آج کے مضمون کا عنوان انگریزی میں ہے۔ کیا آپ نے اس اصطلاح کو کبھی پڑھا یا سنا ہے۔ بہت ممکن ہو کالج کے ہونہار طلباء یا طالبات نے کہیں سنا ہے۔

مگر ذرا غور کیجئے اس لفظ پر سیدھا سادھا ، انتہائی سہانا ہے۔ Learn تو ایک عام لفظ ہے یعنی سیکھنا مگر سیکھنے کی صلاحیت کو Learnability کہا جانے لگا ہے۔ یعنی کسی بھی شخص میں اور خاص طور سے نوجوانوں میں کسی بھی علم سیکھنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے اُس کا صحیح اندازہ لگانا۔ اس کی ذہنی افادیت کو ناپنا اور اُس ا صحیح استعمال کرنا یہ عمل آج کل کی دنیا میں ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔ ڈگری یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو لاکھوں کی ماہانہ یافت پر ملٹی نیشنل کمپنیاں ملازمت دیتی ہیں۔ ان میں معدودے چند ہی ایسے نوجوان نکلتے ہیں جو دوسروں سے بہت زیادہ قابل ہوا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے سب سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔

ان کی وقتیہ پہچان اور ان کی قابلیت کا احترام و اعتراف کرنا مشہور اداروں کیلئے ناگزیر ہوجاتا ہے۔ بڑی کمپنیوں میں اُن کے ملازموں کی مسلسل اندرونی جانچ ہوا کرتی ہے۔ پرانی جانچ کے طریقے اب بدل چکے ہیں۔ ایک ہی بہترین کالج سے کئی طلباء درج اول میں کامیاب ہوتے ہیں مگر عملی طور پر نوکری اور کام پر اُن کا معیار مساوی نہیں ہوا کرتا ہے۔ یہیں پر اب Learnability کے نئے نفسیاتی اوزار کا استعمال ہورہا ہے۔ اساتذہ کی جانچ وقفے وقفے سے ضروری ہے۔ میں تو رہا نفسیاتی امراض کا معالج۔ میں کیسے اس جھمیلے میں پھنس گیا، اس کی بھی وجہ ہے۔ میری یہ خواہش رہا کرتی ہے کہ ہمارے طلباء نئے طریقوں سے واقف ہوں جو عام طور پر کالج کے نصاب میں نہیں ہوا کرتے ہیں۔ مستقبل میں اگر آپ ترقیوں کے زینوں پر چڑھنا چاہتے ہیں تو یاد رکھئے آپ کی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے حاصل کردہ اعلیٰ نشان ڈگریاں کام میں نہیں آئیں گی۔ آپ کو شروع میں تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پہلی نوکری تو مل جائے گی مگر اُس کمپنی میں آپ کی افادیت کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے لئے Learnability بھی ایک عصری پیمانہ ہے۔ آپ میں آگے بڑھنے اور نئے ہنر سیکھن کی صلاحیت اگر کارکرد ہو تو پھر آپ اپنے پیشے میں کامیاب ہوگئے۔

اب ذرا اپنے اطراف ہی غور کیجئے، اگر آپ کے ہاں ہنر یافتہ لوگ کام کرتے ہیں چاہے وہ ڈاکٹرس ہوں یا انجینئرس تو اُن کی کارکردگی یکساں ہو نہیں سکتی۔ مگر ڈگریاں یکساں ہوسکتی ہیں۔ ملٹی نیشنل ادارے اُن لوگوں کی تلاش میں ہی جن کے پاس انوکھے جوہر ہوں۔ کامیاب صنعتی اور کاروباری ادارے اِن لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
ایک ہفتہ پہلے میں اس اصطلاح سے واقف نہیں تھا۔ اتفاق سے میں نارائن مورتی جو Infosys کے مالک ہیں اُن کی وداعی تقریر سنا۔ نارائن مورتی کی کامیابی کے تعلق سے ایک علیحدہ مضمون لکھا جاسکتا ہے مگر اُن کی ہر تقریر دعوت فکر دیتی ہے۔
چند سال پہلے مورتی صاحب جب اُن کی کمپنی عروج پر تھی یہ طے کیاکہ اب کسی نوجوان کو باگ ڈور دینا چاہئے جس طرح سے ٹاٹا نے بھی کیا۔

Nelankari Nandni اُن کے ماتحتین میں سے تھے۔ اُنھوں نے ہی آدھار کارڈ کی کامیاب اسکیم شروع کی تھی۔ یہ سب پرانے لوگ طے کئے کہ غالباً وہ کامیابی کی ایک منزل پر آنکے بعد سستانا چاہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہلکان کی کیفیت محسوس کرنے لگے اور سب مل کر طے کئے کہ علیحدہ ہونا چاہئے اور ہوگئے۔
نارائن مورتی کچھ عرصہ کے بعد یہ محسوس کئے کہ اُن کو کمپنی کی تزئین نو کیلئے واپس آنا چاہئے اور آگئے۔ اُس کے بعد حال حال میں وہ او راُن کے تقریباً ہم رتبہ لوگ سب یہ طے کئے کہ کمپنی میں نئی جان ڈالنا ہے تو تھکے ماندے لوگ مستعفی ہوجانا چاہئے اور یہ تقریر اس وداعی تقریب کی ہے۔
میرے ذہن میں یہ تقریر اس لئے سما گئی کیونکہ اُنھوں نے یہ اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے "Meri Tocracy” کی اصطلاح کو بھی معنی خیز انداز میں استعمال کیا۔

Meritocracy کا اُردو ترجمہ کیا ہوسکتا ہے۔ انگریزی زبان میں بھی یہ لفظ 1958 ء ہی میں پہلی مرتبہ استعمال ہوا تھا۔ اس کا قریبی مفہوم ’’دانشوری‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ مگر دانشور اور دانشوری سے ہم لوگ واقف ہیں۔ یہ جدید عملی دانشوری ہے جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم ، عملی قابلیت اور کارکردگی کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اپنے مخصوص پیشے میں ایسے قابل ترین لوگوں کو پیدا کرتی ہے جو آرام کرسی پر بیٹھ کر دانشوری کے ہنر نہیں دکھاتے ہیں بلکہ اپنے پیشے میں کچھ قابل قدر کام کرکے دکھاتے ہیں۔
یہ ہنر مند لوگ ہوتے ہیں اور فلسفی نہیں۔ اگر فلسفی ہوں تو بھی اپنے پیشے کی حد تک جس طرح سے نارائن مورتی رہے ہیں۔ Microsoft کے اعلیٰ ترین عہدے پر حیدرآباد پبلک اسکول کا طالب ہے۔ Satya Nadella جو حیدرآباد کیلئے فخر کی بات ہے۔ ظاہر ہے نارائن مورتی ایسے چمکدار ستارے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نامور انجینئرنگ کالجوں اور دوسرے MBA کے کورسیس میں ذمہ دار حضرات اور اساتذہ صرف نارائن مورتی کی تقاریر پر طلباء کا سمینار منعقد کرنا چاہئے تاکہ اُن کی غور و فکر میں وسعت ہو۔
حیدرآباد کے بے شمار ذہین طلباء امریکہ میں سافٹ ویر انڈسٹری میں ہیں اور Satya Nadella تو ایک استثنائی اور غیرمعمولی مثال ہے مگر بے حساب ایسے نوجوان ہیں جو روشن فکر کے حامل، تیز طبع اور جن کی صحیح قابلیت اور صلاحیتوں کا اُن کی کمپنیوں میں ابھی سکہ منوا نہ سکے اُن کو اِن عصری نفسیاتی ہتھیار سے واقف ہونا ضروری ہے۔ یہ زمانہ خاموش مسابقت کا ہوگیا ہے۔ غیر معمولی قابلیت رکھنے کے باوجود یہ لوگ اوسط درجے کے ہی سمجھے جائیں گے۔

ہم لوگوں کی اداسی اور پُرانی ذہنیت ہے۔ ایک بار ملازمت میں مستقل ہوجانے کے بعد سیکھنے کیلئے کوئی ترقی یا مالی محرک نہیں ہوتی۔ سرکاری ملازمت میں سالوں کے تجربے پر ترقی دی جاتی ہے جو اب فضول سسٹم سمجھا جارہا ہے۔ نارائن مورتی یہ بھی کہتا ہے کہ جتنا ہوسکے نئی ٹیکنالوجی کا استفادہ کیجئے۔ سافٹ ویر کی طاقت سے واقف ہوجائے۔ Learnability اصطلاح سافٹ ویر میں استعمال ہوتی ہے اور عام سیکھنے اور اس میں فرق ہو۔ یہاں پر سافٹ ویر جتنا آپ کو سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کی گہرائیوں کو سمجھنا Learnability کا اہم جز ہے۔

سیکھنا تمام انسانی کردار کی بنیاد ہے۔ اس کو نفسیات میں اکتساب کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلسل فطری عمل ہونا چاہئے۔ اپنے ماحول کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے وہ انفرادی طور پر نئے طریقے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اکثر لوگ صرف نقل ہی کیا کرتے ہیں اور ذاتی انفرادیت کے جواہر سے نابلد ہوا کرتے ہیں۔
انسانی معلم میں کچھ فطری محدودیاں (Limitation) ہوا کرتی ہیں اس لئے کمپیوٹر کی دنیا کی بے پناہ مصنوعی نقل کی صلاحیتوں کو اپنے طور پر سیکھنا کامیاب نوجوانوں کیلئے ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔ جس کو بڑی تفصیل سے اپنی Infosys کے اُتار چڑھاؤ کو سمجھتے ہوئے مورتی نے بہت ہی مؤثر انداز میں بیان کیا ہو جو بھی اس کو پڑھے گا مزید کچھ نہ کچھ پائے گا۔
٭٭