All India Combined Entrance Test (AICET) 2016 اے آئی سی ای ٹی

ایم اے حمید

فیشن ٹکنالوجی ، اڈوٹائزنگ ، میڈیا اینڈ ماس کیمونیکیشن اور بزنس مینجمنٹ کورسز میں داخلے کیلئے WLC کالج ( لاء آل انڈیا کمبائیڈ انٹرنس ٹسٹ AICET کا اعلان کیا ہے اور اس کے امتحانی مراکز ملک کے 31 اہم شہروں میں ہے جن میں ایک حیدرآباد بھی ہے ۔ مذکورہ بالا شعبہ جات میں گریجویشن انڈر گریجویشن سطح کے کورسس ہیں۔ جن کیلئے یہ انٹرنس امتحان رکھا گیا ہے ۔

فیشن ٹکنالوجی Fashion Technology
فیشن ٹکنالوجی میں بی اے ( آنرس ) فیشن ٹکنالوجی ، بیاچلر آف ڈئزائن ( فیشن ڈائزنگ ) پروفیشنل ڈپلوما ان فیشن ٹکنالوجی، اڈوانس ڈپلوما ان فیشن ٹکنالوجی BTEC – HND آرٹ اینڈ ڈیزائن اینڈ ماسٹر آف ڈیزائن ( ویژول کیمونیکیشن ) فیشن اینڈ ٹکسٹائیل اینڈ ماسٹر آف ڈئزائن ( فیشن ٹکنالوجی ) ہیں ۔
اڈورٹائزنگ اینڈ گرافک ڈئزائن
اڈوائزنگ اینڈ گرافک ڈیزائن شعبہ میں بی اے ( آنرس ) آرٹس ، ڈیزائن Animation بیاچلر آف ڈیزائن ( کیمونیکیشن ڈئزائن ) پروفیشنل ڈپلوما ان ویژول کیمونیکشن ، اڈوانس ڈپلوما ان اڈورٹائزنگ اینڈ گرافک ڈیزائن BTEC-HND ان آرٹ اینڈ ڈائزائن اور ماسٹر آف ڈیزائن کورسس ہیں ۔
میڈیا اینڈ ماس کیمونیکیشن
میڈیا اینڈ ماس کیمونیکیشن میں بی اے ( آنرس ) میڈیا پڑدوکشن ، ماس کیمونیکیشن ، بی اے ان ماس کیمونیکیشن ، کرئیٹو ، میڈیا پروڈکشن ، پروفیشنل ڈپلوما ان ماس کیمونیکیشن اڈوانس ڈپلوما ان میڈیا پروڈکشن BTEC – HND in Creative Media Production ایم اے ان ماس کیمونیکیشن ہیں ۔
بزنس مینجمنٹ Business Mgmt
BBA ۔ انٹرنیشنل بزنس ، پروفیشنل ڈپلوما ان بزنس مینجمنٹ اڈوانس ڈپلوما ان بزنس مینجمنٹ ایم بی اے اور BTEC-HND in Business & MBA اور Strategic Mgmt  ہے ۔ اس طرح سب سے اہم بزنس مینجمنٹ کورسس کے ڈپلوما اور پی جی سطح کے کورسس ہیں ۔
فارمس کے ادخال کی آخری تاریخ
AICET آل انڈیا کمبائیڈ انٹرنس ٹسٹ میں شرکت کیلئے فارمس کے ادخال کی آخری تاریخ 8 مئی کو مقرر ہے ۔ فارمس کے آن لائن داخل کرنے اور تفصیلات کیلئے ویب سائیٹ apply@admission.wlci.in پر ملاحظہ کریں ۔ حیدرآباد میں امتحانی مرکز کے علاوہ کالج کیمپس بھی ہے ۔ ای میل اور ویب سائیٹ ہے ۔
www.wlci.in
E-mail:aicet@wlci.in
Mob:No.+91 8527489991
ہندوستان کی دس ٹاپ یونیورسٹیاں HCU کو چوتھا مقام اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا دسواں مقام
حکومت ہند کے وزارت فروغ انسانی وسائل نے ملک کے ٹاپ یونیورسٹیز کے رینک کی فہرست جاری کی ہے اس میں بنگلور کی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کو پہلا رینک اور حیدرآباد کے سنٹرل یونیورسٹی HCU کو چوتھا مقام ملا ۔ سرفہرست یونیورسٹیاں ہیں ۔

TOP 10 Universities
-1 انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس بنگلور
-2 انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹکنالوجی ممبئی
-3 جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی
-4 یونیورسٹی آف حیدرآباد HCU
-5 Tezpur یونیورسٹی آسام
-6 یونیورسٹی آف دہلی ، دہلی
-7 بنارس ہندو یونیورسٹی ، وارناسی
-8 انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ترونڈرم
-9 BTS پلانی
-10 AMU علیگڈھ مسلم یونیورسٹی

NBA نیشنل بیورو آف اکریڈمیشن جو خود مختار اور آزاد ادارہ ہے اس نے یہ سروے کیا اور جو چار پیمانے Paremeter بنائے اس کو 90 فیصد ویٹج دیا گیا اور اس بنیاد پر یہ رینک دیئے گئے ۔ملک کے 230 یونیورسٹیاں میں یہ سروے کیا گیا اور ان تمام 230 یونیورسٹیز ٹاپ رینک دیئے گئے اور ذیل کے پانچ اہم نکات دیکھے گئے ۔
i) Teaching, Learning and Resources
ii) Research, Professinal Practice
iii) Graduation out Comes
iv) Outreach
v) Perception
TET کیلئے بچے کے نشو و نما اور Pedagcgy پر اردو میں نہایت معلوماتی کتاب شائع
ٹیچرس کے اہلیتی امتحان TET یکم مئی کو مقرر ہے اس کے ہال ٹکٹ 20 اپریل سے ڈاؤن لوڈ کرنا ہے ۔ ٹیٹ میں شریک ہونے والے اردو میڈیم کے امیدواروں کیلئے بچے کی نشو و نما اور علم تدرسیات پر نہایت معلوماتی کتاب جناب انصار احمد ساحل نے بڑی عراق ریزی سے مرتب کیاہے ۔ اس میں CCE نصاب کے لحاظ سے نئے تعلیمی اصلاحات اور تمام امور جو TET اور CTETکے امتحانات میں پوچھے جاتے ہیں ان سوالات کے مطابق تیار کیا گیا یہ کتاب جو Paper – I اور Paper – II کیلئے مشترکہ ہے یہ کتاب دفتر سیاست کے محبوب حسین جگر ہال روبرو رام کرشنا تھیٹر عابڈس پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔
کچھ دنوں سے میں ایک عجیب طرح کی اِضطرابی کیفیت سے گذر رہی ہوں، وہ یہ کہ میری پڑوسن ، میری سہیلی کا چہرہ نظروں کے سامنے آتا ہے اور یہ احساس کہ اَب میں کبھی اِس کو دیکھ نہ سکوں گی، کبھی اس سے گفتگو نہ کر پاؤں گی، انتہائی کرب آمیز ہے۔ 55 برس کی میری دوست اَچلا صحتمند اور جسمانی طور پر فٹ تھی، ہر صبح45منٹ کے لئے سُبک رفتاری سے چلنا اور یوگا اُس کا روز مرہ کا معمول تھا، اسکول کی پرنسپل تھی وہ اس لئے اکثر مصروف رہتی لیکن گوناگوں مصروفیات کے باوجود کالونی کی تمام خواتین سے ملنا، اُن کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونا اُس کی فطرت کا حصہ تھا۔ ضرورتمندوں کی مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتی۔ زندگی کو بھرپور انداز سے جینے والی اَچلا نے ایک دن اپنے شوہر سے کہا کہ اُسے کچھ بے چینی سی محسوس ہورہی ہے، ہلکا سا بخار بھی تھا۔ شوہر نے کروسین کی گولی دی، لیکن پھر اُس نے سانس لینے میں دِقت ہونے کی شکایت کی۔ ہاسپٹل میں آکسیجن دینے کے بعد بھی افاقہ نہ ہوا تو ایکسرے اور پھر ایم آر آئی کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ پاتا اُس کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا۔ اُس کے پھیپھڑوں میں زبردست انفیکشن تھا۔ علاج شروع ہوا لیکن فوراً ہی ڈاکٹرس نے بتایا کہ اُس کو سیکنڈری انفیکشن ہوگیا ہے۔  ہاسپٹلس میں سانس لینے میں آسودگی کے لئے جو مشینس لگائی جاتی ہیں بیکٹیریا وہیں سے آتا ہے، یہ ایک ایسا بھیانک بیکٹیریا تھا جس پر اینٹی بائیوٹک دواؤں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اُس دن سے اَچلا کی آنکھیں جو بند ہوئیں تو پھر کبھی نہ کھلیں۔ مشینوں کے ذریعہ اُس کی سانس تو ضرور چل رہی تھی لیکن ICU کے کمرہ میں تنہا وہ اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ گھر کا ہر فرد کس بے چینی سے اس کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کررہا تھا۔سب کی چاہ اور مانگ صرف یہی تھی کہ ایک بار، صرف ایک بار اُس سے نظر ملاپائیں۔ زبان سے نہ سہی آنکھوں سے تو اپنے جذبات کا اظہار کرپائیں لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ وہ بے ہوش ، بدحواس مشینوں اور نالیوں سے گھری بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ کاش! صرف ایک بار بیٹی کو سینہ سے لگاکر دلاسہ دیتی، بیٹے کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتی جس کا لَمس زندگی بھر اس کے ساتھ رہتا۔ کاش! وہ شریک حیات کاہاتھ تھام کر اپنی غلطیوں پر نادِم ہوتی اور اُس کی زیادتیوں کو معاف کرتی، لیکن وہ تو ایک ایسی دنیا میں جاچکی تھی جہاں یہ تمام احساسات بے معنی تھے۔ریاست کے بہتر سے بہترین ڈاکٹروں کو دکھلایا گیا لیکن کچھ نہ ہوا، اور پھر پورے ایک ماہ اور 20دن بعد صبح کی اولین ساعتوں میں اُس کے دِل سے جسمانی اذیت برداشت نہ ہوپائی اور اُس نے دھڑکنا بند کردیا۔ اُف! وہ منظر میں کبھی نہ بھو ل پاؤں گی جب ایمبولنس سے میری دوست نہیں بلکہ سفید رنگ کا ایک تھیلا اُتارا گیا جس میں اُس کا جسدِ خاکی محفوظ تھا، ہم اُس کا آخری دیدار تک نہ کرپائے۔ڈاکٹروں نے سختی سے منع کیا تھا کہ تھیلے کو کھولا نہ جائے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انفیکشن سے دوسرے متاثر ہوں۔ میں سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ زندگی آخر ہے کیا، ہم نہ جانے کتنے پلان بناتے ہیں اور اپنی من مانی کی خاطرکسی سے جھگڑا کرتے ہیں تو کسی کو دُکھ دیتے ہیں۔ چھوٹی موٹی رنجشوں کو بھُلانے کی بجائے انھیں طول دیتے ہیں۔ اپنوں سے قطع تعلق کرلیتے ہیں اور بعض اوقات کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ خود ہی نظریں چُراتے ہیں اور ایک دن اس دنیا کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہتے ہوئے اپنوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ زندگی اتنا موقع بھی نہیں دیتی کہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرسکیں ، کسی سے معافی مانگ سکیں یا کسی کو معاف کرسکیں۔  بس اُس دن میں نے ٹھان لیا کہ رشتوں کو نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑوں گی۔ تمام رنجشوں اور عداوتوں کو بُھلا کر سب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤں گی۔ برسوں قبل کہیں پڑھا تھا جس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔ ’’ دنیا میں بھلے لوگ بہت نہیں ہوتے، لیکن جتنے بھی ہوتے ہیں اُن کا دھیان رکھتے ہوئے کسی کو بُرا نہ کہنا۔ ایک شخص بھی اگر تمہیں اچھا لگتا ہو تو اُس کی خاطر ان سب کو معاف کردینا جنہوں نے تمہاری توہین کی ہو۔ آخر اُن ’’ بُروں ‘‘ کی دنیا ہی نے تو تمہیں ایک ’’ اچھا ‘‘ دیا ہے۔