ایم اے حمید
جنوبی ہند میں 1970 ء دہے کے اوائل میں ریاست کیرالا کے ملی دردمند شخصیات نے مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور اس کو ملک گیر سطح پر وسعت دینے کیلئے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے برانچس مختلف ریاستوں اور شہروں میں قائم کی گئی سوسائٹی کے اغراض و مقاصد میں تعلیمی اداروں کا قیام اور تعلیمی شعبہ میں مسلمانوں کے حل طلب مسائل کی یکسوئی کیلئے حکومت کی مختلف سطحوں پر نمائندگیاں شامل ہیں اور ان مقاصد میں سوسائٹی کماحقہ کامیاب ہوئی ۔ سوسائٹی کی ایک اور منفرد خصوصیت رہی کہ اس کے کل ہند سطح کے کانفرنس مختلف شہروں میں منعقد ہوئی جو تاریخی رہی جس میں ملک کے اعلی سطح کے سیاسی قائدین صدرجمہوریہ ، وزیراعظم ، مرکزی وزراء اور ریاستی چیف منسٹرس کو مدعو کرنے اور ان کی شرکت اور حکومت کے اعلانات مثبت اور ثمرآور نتائج پیش کئے ۔ جن شہروں میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کی کل ہند کانفرنس ہوئی ان میں چینائی ، کوچین ، جئے پور ، دہلی ، ممبئی ، کولکتہ کے علاوہ حیدرآباد کی 1976 ء میں کنگ کوٹھی میں منعقد ہوئی ۔ کانفرنس تاریخی رہی جو حضرات اس کانفرنس میں شریک تھے اس کی یادیں ذہنوں میں نقوش ہیں ۔ جناب آصف پاشاہ صاحب جو ریاستی یونٹ کے مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر ہیں اس وقت نہ صرف اس سوسائٹی کے صدر تھے بلکہ ریاستی کابینہ میں وزیرقانون تھے اور انہوں نے اپنی ذاتی اور خصوصی دلچسپی سے تمام سرکاری سہولیات اور مراعات کا بھرپور استفادہ کرتے ہوئے تین روزہ عظیم الشان کانفرنس منعقد کی جو تاریخ کا حصہ بن گئی ۔ آج پھر جناب آصف پاشاہ صاحب کی زیرنگرانی اور شخصی دلچسپی سے ایک روزہ تعلیمی کانفرنس 18 اپریل 2015 ء کو رویندرا بھارتی حیدرآباد میں منعقد ہورہی ہے ۔ اس کو یادگار بنانے اور اس سے ثمرآور نتائج برآمد آنے کی تمام اراکین کمیٹی ، ماہرین بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ جو مسائل مسلمانوں کی تعلیم سے جڑے ہیں وہ حل ہوئے نہ صرف سرکاری سطح پر نمائندگی ہے بلکہ ارباب اقتدار کو مدعو کرتے ہوئے اپنے منچ سے ان کے سامنے مسائل کو پیش کرسکیں اور اس سے حکومت اعلانات کریں چنانچہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد اس کے پہلے ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی کے ساتھ ریاستی وزیرتعلیم و ڈپٹی چیف منسٹر کڈم سری ہری کو مدعو کیا گیا انہیں میمورنڈم پیش کیاجائے گا ۔ اور دیگر مسائل کی یکسوئی کیلئے توجہ مبذول کروائی جائے گی ۔
مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کو حیدرآباد میں قیام کے وقت ماہر تعلیم ڈاکٹر ایم اے احمد اور صدیق آرکیٹیکٹ جیسے متحرک شخصیات کی وابستگی تھی جس کی وجہ تعلیمی شعبہ میں بہ الفاظ دیگر ایک انقلاب برپا ہوا ۔ 1976 ء کے حیدرآباد کی کانفرنس کے بعد کئی تعلیمی ادارے ، پروفیشنل کالجس قائم ہوئے 1980 ء سے قبل 70 کے دہے میں حیدرآباد میں مسلمانوں کا کوئی انجینئرنگ یا پروفیشنل کالج نہیں تھا آج بے شمار کالجس ہیں اس طرح مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کو ملک کی ایک سرکردہ مایہ ناز Prestigious سوسائٹی مانا جاتا ہے ۔ مہاراشٹرا میں انجمن الاسلام ، ممبئی ، اعظم کیمپس ، پونہ مولانا آزاد کالجس اورنگ آباد ، دہلی کے ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی ، کرناٹک کی الامین ایجوکیشن سوسائٹی کی طرح کیرالا میں MES مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت بے شمار اسکولس ، کالجس ، پروفیشنل ، تعلیمی ادارے چلتے ہیں ۔ کیرالا کے MES مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر فضل غفور نے اپنے حالیہ نیوز لیٹر میں انکشاف کیا کہ اس سوسائٹی کے تحت کیرالا ریاست میں مختلف تعلیمی اداروں میں 60 ہزار طلبہ زیرتعلم ہیں اور 12 ہزار کا اسٹاف ہے اور 2 ہزار کروڑ روپئے لاگت کے سرمایہ ہے ۔ انہوں نے جئے پور ، راجستھان میں کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ MES سے 50 فیصد ڈونیشن دیتے ہوئے راجستھان میں تعلیمی ادارے قائم کریں گے یا کسی دوسرے کو 50 فیصد ڈونیشن دینے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی MES کے مکمل تعاون کا پیشکش کیا ۔
15 تعلیمی اداروں اور شخصیات کو باوقار ایوارڈس
آل انڈیا مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کی ایک روزہ تعلیمی کانفرنس کے موقع پر تلنگانہ ، حیدرآباد اور آندھراپردیش کے قدیم تعلیمی ادارے اور ایسے ادارے جو ایم ای ایس کے 1976 کے بعد قائم ہوئے جس کانفرنس کے انعقاد پر اخبار ’’ سیاست ‘‘ نے اداریہ کھا تھا ۔ ’’ اب برف پگھل رہی ہے ‘‘ برف پگھل گئی پانی زرخیز بن کر کئی تعلیمی اداروں کو وجود میں لایا ۔ آج ملک بھر میں حیدرآباد میں سب سے زیادہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ہیں ۔
پروفیشنل کالجس میں حیدرآباد تلنگانہ اے پی ریاست ملک بھر میں سرفہرست ہے ۔ جناب آصف پاشاہ جو 1976 ء کی تاریخی کانفرنس کی روح رواں تھے ۔ آج پھر ایک تاریخی کانفرنس کے موقع پر 15 مسلم تعلیمی اداروں شخصیات کو ایوارڈس دینے کا فیصلہ کئے ہیں ۔ ان میں سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی جامعہ نظامیہ ، دارالعلوم ایجوکیشن ٹرسٹ ، دارالعلوم حیدرآباد ، مدینہ ایجوکیشن ویلفیر سوسائٹی ، عثمانیہ کالجس کرنول ، بیگم انیس خان ( نصراسکول ) ، غیاث الدین بابو خان ، شاداں گروپ آف انسٹی ٹیوٹشن ، ڈاکٹر رحیم الدین کمال ، محمد علی شبیر ، پی پی یم حمید کیرالا ، ڈاکٹر فضل غفوروغیرہ ہے ۔ 18 اپریل 2015ء ہفتہ صبح 9 تا ایک بجے پہلا سشن ، وقفہ برائے ظہرانہ کے بعد دو بجے تا 5 بجے دوسرا سشن رویندر ا بھارتی میں ہوگا ۔ تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں ، اساتذہ ، علم دوست حضرات سے اراکین کمیٹی احمد بشیرالدین فاروقی ، نعیم اللہ شریف ، ایم ایس فاروق ، خلیل الرحمن ، محمد معید نے شرکت کی اپیل کی ۔