ویڈیو ۔بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل میں بھی تھرڈ گری کا سامنا ۔بیگم پیٹ ٹاسک فور س آفس بم دھماکہ میں بری نوجوان کی داستان

حیدرآباد۔بیگم پیٹ ٹاسک فورس افس بم دھماکہ کے الزامات میں ایک روز قبل عدالت سے بری ہونے والے محمد عبدالزاہد نے بتایا کہ بے قصور ہونے کے بعد بھی ہمیں بارہ سال قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پڑی‘زیر تحویل انہیں ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ‘ معاشرے میں ہمیں دہشت گرد کی نظر سے دیکھا گیا‘ جیل حکام نے عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ہمیں مجرم مقرر کیااور ہمارا نام ائی ایس ائی ایجنٹ رکھ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2006میں موسی رام باغ کی مسجد کے قریب میں پیش ائے ایک معمولی واقعہ کے بعد میرے خلاف سازشیں کی گئی۔ پہلے تو اندرسین ریڈی( بی جے پی لیڈر) سابق رکن اسمبلی ملک پیٹ پر حملے کی سازش کے الزام میں میری گرفتار ی عمل میں لائی گئی۔پولیس مجھ پر اندرسین ریڈی کے خلاف حملے کی سازش کا الزام ثابت نہیں کرسکے ‘ پھر اس کے بعد بیگم پیٹ ٹاسک فورس آفس بم دھماکہ پیش آیا ‘ جس کے فوری بعد مجھے پولیس نے طلب کیا اور مجھ پر مذکورہ بم دھماکے کو انجام دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔

زاہد نے کہاکہ بے قصور ہونے کے باوجود مجھے بارہ سال تک قید میں رکھا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ ٹاسک فورس نے جب مجھے اور میرے ساتھیو ں کو گرفتار کیاتب ہم سے اقبال جرم کے لئے تھرڈ ڈگری کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں بے تحاشہ پیٹا ۔ ہمارے ساتھ مجرموں جیساسلوک کیاگیا ۔ زاہد نے کہاکہ سزاء دینا اور مجرم مقررکرنا عدالت کا کام ہوتا ہے مگر پولیس نے ہمیں حراست میں لیتے ہی مجرم قراردیکر ہمارے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا۔انہو ں نے کہاکہ نوے دنوں میں ہمیں ضمانت ملنی تھی مگر پولیس نے چارچ شیٹ داخل کرنے میں تاخیر کی اور ہمیں خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ضمانت سے محروم رکھنے کاکام کیاگیا ہے۔ زاہد نے کہاکہ پولیس نے ہر ممکن طریقے سے ہمیں دہشت گرد قراردینے کاکام کیا۔زاہد نے سوالیہ انداز میں کہاکہ جب ہم خطرناک دہشت گرد تھے تو پولیس نے ہمیں ریاست کی مختلف جیلوں کو منتقل کیسے کیا۔

انہوں نے بتایاکہ چیرالہ پلی سے لیکر وشاکھاپٹنم کی جیلوں تک میں ہمیں رکھا گیا ۔ زاہد نے بتایا کہ جیل کے اندر بھی ہمارے ساتھ تعصب برتا گیا اور ہمیں دہشت گرد قراردیتے ہوئے ہمارے جیل بیرک کو ائی ایس ائی ایجنٹوں کا بیرک نام رکھ دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ہمیں اسپتال لے جایاجاتا تھا تب ہمارے اسکاٹ کے پولیس والے ڈاکٹرس سے کہتے تھے یہ ائی ایس ائی ایجنٹ ہیں جس کے بعد ڈاکٹرس کا رویہ یکسر بدل جاتا۔ انہوں نے کہاکہ معزز پیشے سے وابستہ ڈاکٹرس بھی ہمارے ساتھ امتیاز ی سلوک کرتے ہوئے ہمیں دہشت گرد وں کی طرح دیکھتے۔زاہد نے مکہ مسجد بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس واقعہ میں بھی سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں مجرم مقرر کیاگیا مگر پولیس کا الزام غلط ثابت ہوا اور وہ بری کردئے گئے۔

زاہد نے کہاکہ پولیس کو اس بات کاعلم تھا کہ مکہ مسجد ہو یاپھر بیگم پیٹ بم دھماکہ واقعہ ہو اس میں گرفتار تمام مسلم نوجوان بے قصور ہیں مگر پھر بھی انہیں جیل میں محروس رکھ کر‘ ہمیں ذہنی اذیتیں دی گئی ۔انہوں نے کہاکہ سادھو پرگیہ سنگھ ٹھاکر‘ کرنل پروہت ‘ آسیما نند جیسے مجرمین کوضمانت مل سکتی ہے ‘ مگرہماری ضمانت میں پولیس رکاوٹیں کھڑا کرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مکہ مسجد بم دھماکے میں ماخوذ کئے گئے بے قصور نوجوانوں کو حکومت نے معاوضہ دیا اور کیریکٹر سرٹیفکیٹ سے نوازا مگر کیاحکومت ہمارے وہ بارہ سال لوٹا سکتی ہے جس میں ہم نے معاشرے‘ جیل اور ہر شعبہ حیات میں ذہنی اذیتوں کا سامنا کیا ہے۔ ہمیں کسی کیریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔

بارہ سال دہشت گردی کے الزام میں سزا کاٹنے کے بعد عدالت سے بری ہونے والے بیگم پیٹ بم بلاسٹ واقعہ کے ایک او ر بے قصورملزم کلیم نے جذباتی انداز میں کہاکہ پولیس کا کام صرف ہم پر الزام لگانا او رہمیں جیل میں بند کرنا ہے۔ کلیم نے بھی دوران حراست ان پر کی گئی زیادتیوں کاتذکرہ کیا او رکہاکہ مچھلی پکڑنے کے دوران گرفتار ہوئے بنگلہ دیشیوں کا لاکر دہشت گرد قراردیا گیا اور انہیں فرضی مقدمات میں پھنسانے کی کوشش کی گئی۔

کلیم نے بتایا کہ دوران قید جب ان کی صحت بگڑ گئی تب وہ پولیس کے ساتھ وہ اسپتال گئے جہاں پر پولیس نے انہیں ائی ایس ائی ایجنٹ قراردیکر ڈاکٹرس کے سامنے پیش کیاجس کے بعدڈاکٹرس نے علاج کرنے سے انکار کردیا۔انہو ں نے بتایا کہ اگر کوئی ڈاکٹر ہمارا علاج کرنے کی رضامندی ظاہر کرتا تب ہمارے اسکاٹ میں موجود پولیس جوان انہیں کہتے تھے کہ کس طرح تم ایک ائی ایس ائی ایجنٹ کاعلاج کرسکتے ہو۔کلیم نے بتایا کے جب علاج میں تاخیر کی وجہہ سے میری طبعیت زیادہ خراب ہوگئی تھی جس کے بعد میں مجبوراً عدالت سے رجوع ہوا ۔

انہو ں نے بتایا کے عدالتی احکامات کے بعد میرا علاج کیاگیا ہے ۔ کلیم نے پھیپڑوں کے اپریشن کے نشان بھی بتائے اور کہاکہ اگر صحیح وقت پر علاج ہوجاتا تو بہت حد تک ممکن تھا کہ میرے اپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کلیم نے کہاکہ اپریشن کی وجہہ سے میں دیڑھ سال تک پیشی میں حاضری نہیں دے سکا۔ کلیم نے کہاکہ ہمیں اللہ کی ذات پر کامل یقین ہے ‘ ہم بے قصور ہیں اور ہمارے ساتھ انصاف ضرورہوگا۔ انہوں نے کہاکہ بالآخر عدالت نے ہمیں بری کردیا‘ مگر جس دور سے ہم گذرے ہیں جن الزامات کا ہم نے سامنا کیا ہے کیا وہ وقت پولیس ہمیں واپس دے سکتی ہے۔اگر ہم بے قصور ہی تھے تو ہمیں جھوٹے الزامات میں کیوں پھنسایاگیا اس کا جواب پولیس کو دینا چاہئے۔