محمد ریاض احمد
وزیر اعظم نریندر مودی کا گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے کسی وقت صدر کانگریس سونیا گاندھی نے ہٹلر کے ساتھ تقابل کیا تھا۔ گجرات میں ہی مسلمانوں کے قتل عام اور پھر ملک بھر میں اقلیتوں، ادیبوں، شاعروں، آرٹسٹوں اور دانشوروں پر مظالم اور بعض مقامات پر ان کے قتل پر مودی جی کا تقابل روم کے بادشاہ نیرو سے کیاگیا۔ آپ کو نیرو کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب روم آگ کی لپیٹ میں آیا تھا دور دور سے آگ کے شعلے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں روم اور رومیوں کو جلنے سے بچانے کے اقدامات کرنے کی بجائے نیرو ایک بلند پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجارہا تھا اور تباہی و بربادی کے مناظر کو دیکھ کر بڑا محظوظ ہورہا تھا جس کے باعث ہی تاریخ میں ان حکمرانوں کیلئے یہ محاورہ ’’ جب روم جل رہا تھا نیرو بانسری بجارہا تھا ۔‘‘ مشہور ہوگیا جو عوام کے مسائل ان کے دکھ درد سے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرکے اپنا سیاسی الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ مظلوم و کمزوروں کی نعشوں کے ڈھیر پر اقتدار کی کرسی سجاکر اس پر براجمان ہوتے ہیں۔ بہر حال نیرو کی مثال ظالم و جابر اور مجرمانہ تساہل برتنے کے عادی اور جذبہ انسانیت کی دولت سے محروم حکمرانوں کیلئے مسلسل استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس معاملہ میں مودی جی کی ستائش کی جانی چاہیئے کہ انہوں نے مخالفین کی جانب سے ہٹلر اور نیرو سے ان کا تقابل کئے جانے کا کچھ برا نہیں مانا۔ مودی جی نے ملک میں بلیک منی، دہشت گردوں کو مالیہ کی فراہمی اور جعلی کرنسی کے سنگین مسائل کو حل کرنے کے بہانے500 اور 1000 روپئے کے کرنسی نوٹوں کا چلن 8نومبر کی شب سے اچانک بند کیا تب سے بعض گوشوں میں تغلق سلطنت کے بادشاہ محمد بن تغلق سے ان کا تقابل کیا جارہا ہے کیونکہ محمد بن تغلق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دشمنوں کے بار بار حملوں اور بغاوتوں سے بچنے کیلئے ہندوستان کا دارالحکومت دہلی سے دولت آباد منتقل کیا تھا اور یہ منتقلی دہلی کے تمام شہریوں کیلئے لازمی قرار دی گئی تھی۔ تاریخ میں آیا ہے کہ محمد بن تغلق کے حکم پر عمل میں آئی اس منتقلی کے بعد دہلی میں کتے اور بلی بھی باقی نہیں رہے اور ایک خوبصورت اور بسا بسایا شہر اس طرح اچانک ویران ہوگیا جس طرح مودی جی کے ایک حکم پر اچانک 500 اور 1000 کی نوٹوں کا چلن بند ہونے کے ساتھ ملک کے طول و عرض کے بازاروں میں ویرانی چھاگئی۔ بڑے بڑے آؤٹ لیٹس سے لیکر چھوٹی چھوٹی دکانات والے بھی پریشان ہوگئے۔ شاید محمد بن تغلق کے دور حکومت میں جب دارالحکومت دہلی کی دولت آباد منتقلی عمل میں آئی تھی اس وقت بھی دہلی کے عوام خاص کر چھوٹے بڑے تاجرین اور رعایاپر ایسی ہی مایوسی چھائی ہوئی تھی جس طرح پچھلے چند دنوں سے ہمارے ملک میں چھائی ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عجیب و غریب فیصلے کیلئے اس وقت عوام نے محمد بن تغلق کو اپنی نجی محفلوں میں ڈھیر ساری گالیاں دیں، نجی محفلوں میں اس لئے کہ شاہی دور حکومت میں عوام کو آزادی اظہار خیال کا حق حاصل نہیں رہتا۔ اس وقت عوام کے امیر غریب اور متوسط طبقہ تاجر برادری اور شاہی ارکان خاندان و درباریوں نے اپنے بادشاہ کے بارے میں کس قسم کے خیالات ظاہر کئے یہ الگ بحث ہے لیکن جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں عوام حکمرانوں کوان کی حیثیت اور اصلیت ماضی ، حال اور مستقبل یاد دلاتے رہتے ہیں۔ 500اور 1000 کے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے بعد سے نریندر مودی کے خلاف عوامی برہمی دیکھی جارہی ہے۔ بی جے پی کو اقتدار دلانے والے مودی کو ہندوستان کے کونے کونے میں گالیوں سے نوازا جارہا ہے۔ مودی کے زیر قیادت بی جے پی اقتدار سنبھالنے کے بعد ساری ہندوستانی قوم ، مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بڑی تیزی کے ساتھ تقسیم ہورہی تھی تاہم 500 اور 1000 کی کرنسی نوٹوں کا چلن اچانک بند کئے جانے کے بعد ساری ہندوستانی قوم نے ایک جٹ ہوکر مودی کے اس اقدام کی شدت سے مخالفت کی ہے جس میں غریب آدمی سے لیکر دولت مند سبھی شامل ہیں۔ مودی حکومت کے اس اقدام سے گھریلو خواتین، سرکاری و خانگی ملازمین ، آٹو رکشہ والے، پھیری لگاکر اپنے بیوی بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے والے ، غریب کاروباری، غرض زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ مردو خواتین شامل ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی جی کے اس اقدام سے ہندوستانی قوم متحد ہوگئی ہے۔ محمد بن تغلق کے دور میں ایسا نہیں ہوسکا تھا کیونکہ بادشاہ وقت کا حکم ہی اس دور میں پتھر کی لکیر ہوتا تھا۔ محمد بن تغلق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کی کرنسی میں بار بار تبدیلیاں کی جس کے باعث سونے، چاندی، پیتل اور تانبے کے سکے لین دین میں استعمال ہونے لگے اور سناروں وغیرہ نے خود دھاتوں کو سکوں میں ڈھالنا شروع کیا اس طرح جعلی سکوں کا رواج عام ہوگیا۔ مودی جی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں جعلی کرنسی کے پھیلاؤ کو روکنے 500 اور 2000 روپئے کی نئی کرنسی نوٹ متعارف کروائی گئی ہیں۔ بہر حال ہمارے عزت مآب وزیر اعظم کا ماضی میں ہٹلر اور نیرو سے جو تقابل کیا گیا وہ حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں اس بارے میں ہمیں اپنی رائے دینے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ ہندوستانی عوام سیاستدانوں کو ان کی پالیسیوں، نیتوں اور ارادوں اور عزائم کے بارے میں خوب جانتی ہے۔ ہاں جہاں تک مودی جی کا محمد بن تغلق سے تقابل کا معاملہ ہے ان کا محمد بن تغلق سے کسی بھی طرح تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ محمد بن تغلق ایک بادشاہ تھے اور نریندر مودی ہندوستان میں جمہوریت کی کامیابی کی ایک بہترین مثال ہے۔
ہندوستان کے 33فیصد عوام نے بی جے پی کو کامیابی دلاکر دنیا کو یہ بتادیا کہ ہندوستان میں جمہوریت اس قدر مستحکم ہے کہ ایک چائے والا عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوسکتا ہے۔ محمد بن تغلق اور مودی جی کا تقابل اس لئے بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ محمد بن تغلق کی بیوی راجہ آف دبیل پور کی بیٹی تھیں اور انہوں نے اپنی بیوی کو بڑے ہی عزت و احترام سے اپنی ملکہ بناکر رکھا لیکن مودی جی اس معاملہ میں محمد بن تغلق سے بالکل متضاد ہیں ان کی اہلیہ شادی کے تقریباً پانچ دہوں بعد بھی اپنے شوہر کا انتظار کررہی ہیں۔ مودی جی نے ہندوستان میں ایک معاشی انقلاب برپا کرنے بلیک منی کو ختم کرنے اور جعلی کرنسی نوٹوں کے چلن کو ختم کرنے 500اور 1000 کی کرنسی نوٹوں کو تبدیل کردیا۔ ان کے اس اقدام پر شاید جیشودا بین ضرور سوچتی ہوں گی کہ کاش مودی جی کرنسی نوٹ بدلنے کے بجائے اپنے آپ میں تبدیلی لاتے ، ملک کی معیشت پر فکر مند ہونے کی بجائے ان ( جیشودا بین) کے تئیں اپنا رویہ تبدیل کرلیتے۔ محمد بن تغلق اور مودی کا تقابل اس لئے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ محمد بن تغلق فن حربی کے ماہر ایک اسکالر، فلسفہ طب ، علم نجوم، علم ادیان اور ہندی شاعری میں غیر معمولی دلچسپی رکھنے والے تھے۔ اس کے برعکس چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال جیسے لوگ ہمارے وزیر اعظم کی تعلیمی قابلیت ان کی ڈگری وغیرہ پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ مودی نے عوام کو اچھے دنوں کا خواب دکھاکر ان سے اچھے خواب دیکھنے کا حق بھی چھین لیا اب اپنی پھیلائی ہوئی افراتفری کے ذریعہ انہوں نے عوام سے ان کی خوشیاں اور سکون و چین بھی چھین لیا۔
گستاخی معاف !!
ملک کے سلگتے مسائل
مرکزی حکومت کا آسان حل
مسئلہ : ایک نوجوان بیٹا پچھلے 28 یوم سے لاپتہ ہے ، مرکز میں زیر اقتدار پارٹی کی طالبہ ونک نے مبینہ طور پر اس کا اغواء کیا ہے۔
مسلہ کا حل : ماں کی گرفتاری
مسئلہ : ایک طالب علم کی خودکشی۔
مسئلہ کا حل : اس بات کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیجئے کہ آیا وہ طالب علم دلت تھا یا نہیں۔
مسئلہ : گائے کا گوشت رکھنے کی افواہ پر ایک شخص کا قتل۔
مسئلہ کا حل : گوشت کا نمونہ جانچ کیلئے فارنسک لیاب روانہ کریں۔
مسئلہ : ایک سابق سپاہی ایک مرتبہ ایک وظیفہ مسئلہ پر خودکشی کرتا ہے۔
مسئلہ کا حل : اس بات کا اعلان کردینا کہ وہ ذہنی طور پر غیر مستحکم اور اپوزیشن کا حامی تھا ۔
مسئلہ : ہر سال ہزاروں کسان مایوسی کے عالم میں خودکشی کرتے ہیں۔
مسئلہ کا حل : اعلان کردیں کہ وہ لوگ محبت میں ناکام ہوگئے تھے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان مسائل کی آپ کو کوئی پرواہ نہیں یا یہ مسائل آپ کیلئے باعث تشویش نہیں ہیں تو پھر اس وقت تک انتظار کیجئے جب ان مسائل (ظلم و جبر اور زیادتیوں) کی لہریں آپ کے گھر کی دہلیز تک نہ پہنچیں۔ یہ جمہوریت اپنے آپ نہیں ڈگمگاتی بلکہ آپ کی خاموشی اور مجرمانہ غفلت سے جمہوریت کی بنیادیں لڑکھڑانے لگتی ہیں۔ آپ کی مجرمانہ و مطلبی خاموشی اور جانبدارانہ سیاست جمہوریت کے زوال میں ممد معاون ثابت ہورہی ہے۔
لگے گی آگ تو اُس کے گھر کی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
mriyaz2002@yahoo.com