حیدرآباد جو کل تھا سید شاہ حسین نہری

عابد صدیقی
جناب سید شاہ حسین نہری اورنگ آباد کی ایک نامور شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے علمی اور ادبی کارناموں کے ذریعہ نہ صرف اردو دنیا میں بلکہ مسلم معاشرہ میں اپنی پہچان بنائی ہے ۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر ، ادیب ، نقاد اور مقبول ترین استاد رہے ۔ ادارہ سیاست کے لئے جب میں نے ان سے اورنگ آباد میں انٹرویو لینے کی خواہش ظاہر کی تو وہ بخوشی آمادہ ہوئے اور سیاست کی صحافتی اور ادبی خدمات کی بھرپور ستائش کی ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست ہندوستان کا وہ واحد اخبار ہے جس نے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں رول ادا  کیا ہے  ۔نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان کے کئی شعراء اور ادیبوں کو متعارف کروانے میں سیاست کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

جناب سید شاہ حسین نہری 12 فبروری 1941 ء کو اورنگ آباد کے تکیہ شاہ علی میں پیدا ہوئے ۔ محرم میں پیدائش کے باعث ان کا نام حسین رکھا گیا ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے والد کا نام سید شاہ حسین شہید اور والدہ کا نام سیدہ فاطمہ بیگم تھا ۔ اس نسبت سے ان کا نام حسین رکھا گیا ۔ نہری کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ان کے جد اعلی نے 12ویں صدی ہجری میں تین نہریں بنائی تھیں ۔ اس طرح یہ خاندان نہری خاندان کے نام سے موسوم ہوگیا ۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ چونا بازار ، سٹی ہائی اسکول اورنگ آباد میں ہوئی اور اس کے بعد عثمانیہ کالج سے انہوں نے انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کی ۔ حیدرآباد کی تقسیم کے بعد جب مرہٹواڑہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو وہاں سے انہوں نے بی اے  و ایم اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے کامیاب کیا جس پر یونیورسٹی نے انھیں گولڈ میڈل سے نوازا ۔ ان کے نانا نواب ضیاء یار جنگ اس زمانہ کے مشہور شاعر تھے ، وہ ریاست حیدرآباد کے مفتی بھی تھے ، شاہ حسین نہری کا سسرال حیدرآباد ہی کا ہے ۔ محلہ دبیر پورہ میں ان کے نانا کا مکان تھا ،ٹولی چوکی اور دیگر محلہ جات میں بھی کئی رشتہ دار اب بھی مقیم ہیں ۔ اس طرح حیدرآباد سے ان کی نسبت کئی اعتبار سے قائم رہی ۔ طالبعلمی کے زمانے سے ہی شعر و ادب کے ماحول نے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سنوارنے میں مدد کی ۔ وہ مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ سے بڑی حد تک متاثر رہے ۔ ڈاکٹر زور کی کتاب ’’روح ادب‘‘ کو بنیاد بنا کر انہوں نے ایک ٹیٹوریل تحریر کیا تھا جسے کافی پسند کیا گیا ۔ کامریڈ مخدوم محی الدین ان کے پسندیدہ شاعروں میں تھے ، خاص طور پر مخدوم کے پڑھنے کے انداز سے وہ بہت متاثر رہے۔ مخدوم کی شاعری دل کو چھولینے والی تھی ۔ محبت اور محنت کے امتزاج سے بھرپور ان کے شعروں نے انھیں عوامی شاعر بنادیا تھا ۔

شاہ حسین نہری نے اردو شاعری کے تقریباً تمام اصناف میں نہایت کامیاب تجربے کئے ، غزل ، نظم ، رباعی اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی ۔ اپنی شریک حیات کے انتقال پر انہوں نے رباعی کی صنف میں ’’گلبدن کی یاد میں‘‘ ایک مرثیہ لکھا جسے کافی شہرت ملی ۔ شاہ حسین نہری نے بتایا کہ حیدرآباد ہمیشہ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے ، قطب شاہی سلطنت سے لے کر مملکت آصفجاہی تک اردو زبان کو پھلنے پھولنے کا کافی موقع ملا ۔ شاہوں نے اردو زبان و ادب کی سرپرستی کی ۔ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے شاعری کو عوامی بنادیا تھا اس کے بعد آصفیہ خاندان کے حکمرانوں نے بھی اردو شعراء اور تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی ۔ حیدرآباد میں اس دور کے کئی نامور شعراء نے ملک گیر شہرت حاصل کی جن میں ولی ، سراج ، جلیل مانکپوری ، صفی اورنگ آبادی ، کامل شطاری کے علاوہ خورشید احمد جامی ، خیرات ندیم ، مخدوم ، شاذ تمکنت ، سلیمان اریب ، علی احمد جلیلی ، قاضی سلیم ، بشر نواز ، سلیمان خطیب اور بے شمار شعراء تھے جنہوں نے نہ صرف اردو کی کلاسیکی شاعری کی بلکہ جدید ادبی رجحانات کو قبول کرتے ہوئے اپنی شاعری میں نئے تجربے کئے ۔ اس دور میں مارکسٹ رجحانات کے عروج کے باعث ادب میں ترقی پسندی کو اہمیت حاصل ہوئی چنانچہ حیدرآباد میں کئی شعراء اور ادیب ، ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے ۔ آزاد نظم لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ مخدوم محی الدین کی رہنمائی میں ترقی پسند ادیبوں اور شعراء کا ایک کارواں تیار ہوا ۔ نثر نگاروں میں ابراہیم جلیس ، جیلانی بانو ، رفیعہ منظور الامین ، اکرام جاوید ، رضا الجبار اور کئی نامور افسانہ نگار پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ، عبدالقادر سروری ، ڈاکٹر حفیظ قتیل جیسے کئی محققین ،نقاد اور اردو کے اساتذہ نے اپنے ادبی کارناموں سے زبان و ادب کے سرمایہ کو مالا مال کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ترقی پسندی کے بعد ادب میں جدیدیت کا رجحان پیدا ہوا ، جدیدیت نے ترقی پسندی کی وجہ سے جو جمود پیدا ہوا تھا اس کو توڑنے کی کوشش کی ۔ کئی شعراء شعوری و غیر شعوری طور پر اس رجحان سے وابستہ ہوئے ۔ راست تعلق نہ ہوتے ہوئے خود ان کی تخلیقات میں ترقی پسند اور جدیدیت کے رجحانات کا عکس محسوس ہوتا ہے ۔ مرہٹواڑہ میں بھی کئی شعراء ترقی پسند تحریک کے زیر اثر رہے جن میں احسن یوسف زئی  اور اطہر بابر قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان بھر میں سب سے زیادہ مشاعرے ریاست حیدرآباد میں ہوا کرتے تھے ، اس قدر خیر سگالی تھی کہ بیرونی ریاست کے کئی شعراء خاص طور پر شمالی ہند کے شعراء کو ان مشاعروں میں کلام سنانے کی دعوت دی جاتی ۔ ممبئی ، دہلی ، لکھنؤ اور بھوپال کے شعراء حیدرآباد آتے اور دکن کے باذوق سامعین سے داد و تحسین کی دولت لوٹ کر جاتے ۔ حیدرآباد کے مشاعروں کا معیار کافی بلند تھا ،ان مشاعروں میں پاکستان کے شعراء بھی شرکت کیا کرتے تھے جن میں جوش ملیح آبادی ، ماہر القادری ، احمد فراز قابل ذکر ہیں ۔ جناب شاہ حسین نہری نے بتایاکہ آصف سابع عثمان علی خان کو شعر و ادب کے ساتھ ساتھ مذہبی امور سے بھی بڑی دلچسپی رہی ۔ انہوں نے محکمہ مذہبی امور قائم کیا تھا جس کے ذریعے دینی مدرسوں کا قیام ، دارالفتاوی ، مسجدوں ، درگاہوں ، عاشور خانوں و دیگر مذہبی مراکز کے انتظام و انصرام کا کام انجام دیا جاتا ۔ علماء کرام و مواعظین کو مملکت کی جانب سے وظیفے مقرر تھے۔ منصب داری کا نظام تھا ۔ جامعہ نظامیہ سب سے بڑی دینی درسگاہ تھی جس میں مہاراشٹرا ، کرناٹک اور تلنگانہ علاقوں کے طلباء  دینی علوم کے حصول کے لئے شریک ہوا کرتے  ۔ جامعہ نظامیہ نے علوم قرآنی ، حدیث ، فقہ اور دیگر دینی شعبوں کے جید عالم پیدا کئے جن کے علمی کارناموں سے نہ صرف طلبا بلکہ مسلم دنیا کے کئی اسکالرس نے بھی استفادہ کیا ۔ اس دور میں مدارس میں ذریعہ تعلیم اردو تھا اور دینیات و اخلاقیات کو نصاب میں لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی تھی ۔ جامعہ نظامیہ نے طلباء و طالبات کے لئے دینی نصاب تدوین کیا تھا جس کے تحت رسالہ دینیات کی اشاعت عمل میں آئی جو تمام سرکاری اسکولس میں پڑھایا جاتا ۔ موجودہ حالات میں ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مدارس میں مذہبی و اخلاقی تعلیم رائج کرنا چاہئے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حیدرآباد کے حکمران کس قدر دور اندیش تھے ۔ انہوں نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دینی و اخلاقی تعلیم کونصاب میں لازمی مضمون کی حیثیت دی تھی ۔ حیدرآباد کے بعض خانگی مدارس میں دینی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ، شاہ حسین نہری ایک ماہر تعلیم بھی ہیں اور درس و تدریس کے شعبہ میں تقریباً 35 سالہ تجربہ رکھتے ہیں انہوں نے بتایا کہ اس دور میں معیار تعلیم نہایت اعلی تھا جس کی سب سے بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم دی جاتی تھی ۔ چادر گھاٹ ہائی اسکول ، سٹی کالج ، گوشہ محل اسکول ، دارالعلوم ، اردو شریف ، دارالشفاء ہائی اسکول اردو میڈیم کے مشہور اسکول تھے جہاں اساتذہ بڑی محنت سے پڑھاتے اور طالبعلموں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دیا کرتے ، اعلی تعلیم کے سلسلہ میں عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام سے حیدرآباد میں تعلیمی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا ۔ آرٹس سائنس و کامرس میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے امکانات پیدا ہوئے ۔ اس دور میں تعلیمی اخراجات برائے نام تھے ۔ اسکولوں میں آٹھ آنے یا بارہ آنے ماہانہ فیس ہوتی ۔ خانگی اسکول بہت کم تھے اسی طرح کتابوں و کاپیوں پر بھی معمولی اخراجات ہوا کرتے تھے ، یونیفارم کی شرط نہیں تھی ۔ طلباء کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی پر زیادہ زور دیا جاتا ۔

شاہ حسین نہری نے حیدرآبادی معاشرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمام طبقات میں باہمی میل جول ، ہمدردی اور حسن سلوک کی اعلی روایات کے باعث وہ ایک صحت مند معاشرہ تھا ۔ جس میں امتیازات ، بھید بھاؤ اور مذہبی تعصب کو کبھی بھی جگہ نہیں دی گئی ۔ دولت کی کمی کے باوجود حیدرآبادی مہمان نوازی کا جواب نہیں تھا ۔ مہمانوں کی ضیافت کو ایک فریضہ سمجھا جاتا ۔ عام طور پر گھر بڑے ہوا کرتے ، مکانات کے چھت کویلو یا پھر گچی کے بنے ہوتے ۔ دالان ، پیش دالان ، برآمدہ ، دیوان خانہ اور بڑے بڑے صحن ہوا کرتے ۔ حیدرآبادیوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں ، کھانے کے ساتھ ساتھ انھیں کھلانے کا بھی شوق تھا ۔ ناشتہ میں کھچڑی ، قیمہ ، چٹنی ، اچار اور پاپڑ شامل کئے جاتے ۔ اس دور میں ہم نے بزرگوں سے یہ شعر سنا تھا کہ
کھچڑی تیرے چار یار ، قیمہ ، پاپڑ ،گھی ، اچار
حیدرآباد کے سالنوں میں بگھارے بیگن ، مرچ کا سالن ، دم کا قیمہ ، شامی وشکمپور اور آلو کا قورمہ کافی مشہور تھے ۔ ملک کے شاید ہی کسی شہر میں یہ ڈشس تیار ہوتی ہوں گی ۔ اسی طرح حیدرآباد کے میٹھے بھی اپنی انفرادی شان رکھتے تھے ۔ خوبانی کا میٹھا ، گل فردوس ، ڈبل کا میٹھا لاجواب تھے ۔ شمالی ہند کے لوگ تو خوبانی کے میٹھے اور گل فردوس سے واقف بھی نہ تھے ۔ حیدرآبادی بریانی کا عالمگیر شہرہ ہے ، آج بھی اس بریانی کے شیدائی دنیا بھر میں ہیں ۔

حیدرآبادی معاشرہ ، ادب اخلاق اور اعلی انسانی اقدار  اور مذہبی طرز فکر سے تشکیل پایا تھا ۔ ہندو ہوں کہ مسلمان سب سے ایکدوسرے کا احترام کرتے ۔ عقائد اور مذہبی رسومات و تعلیمات کے تقدس کو سمجھتے اور ان کا احترام کرتے ۔ لڑکیوں کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ۔ ناظرہ قرآن کے علاوہ گھر کی بزرگ عورتیں انھیں قصص الانبیا سے پیغمبروں کے واقعات اور دیگر مذہبی و اخلاقی کہانیاں سنا کر ان کی ذہن سازی کا کام کرتیں ۔ گھروں میں لڑکیاں اور عورتیں سر پر اوڑھنی ڈالے رہتیں ۔ پردہ کی خاص پابندی تھی ۔ لڑکیاں سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو انھیں پکوان اور سلوائی کے طریقے سکھائے جاتے ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے کھیل کود الگ ہوتے ۔ مثال کے طورپر لڑکے گلی ڈنڈا ، چرکن ، کبڈی ، فٹ بال کھیلتے اور لڑکیاں گڑیوں کے کھیل ، رسی ، لون پارٹ ، اندھا بادشاہ اور طرح طرح کے کھیل کھیلتیں ۔ اسکولوں میں مخلوط تعلیم کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔ ماں باپ اور گھر کے بزرگوں کے علاوہ اساتذہ کا ادب واحترام ضروری رہتا ۔ آمدنی کم لیکن برکت زیادہ تھی ۔ لوگوں کے دل صاف تھے۔ امراء اور نواب اقتدار کی راہداریوں کے قریب تھے تاہم اپنے رکھ رکھاؤ کے ساتھ ساتھ ان میں وضعداری ، انسانی ہمدردی اور اعلی اخلاقی اوصاف موجود تھے اسلئے معاشرہ میں ان کی عزت تھی ۔ امراء نے ادب اور شاعری کی سرپرستی کی ، بعض دیوڑھیوں اور حویلیوں میں مشاعروں کا اہتمام ہوتا ۔ آصف سابع نواب عثمان علی خان خود شاعر تھے ان کے فرزند معظم جاہ شجیع بھی بڑے باکمال شاعر تھے ۔ شعراء کی قدر افزائی اور ان کی اعانت نظام حیدرآباد کی ادب دوستی کا ثبوت تھا ۔ حیدرآباد میں ان دنوں کئی اردو اخبارات شائع ہوتے غیر مسلم حضرات بھی اردو اخبارات کے مالکین تھے ۔ لیتھو طباعت کا طریقہ عام تھا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی ریاست کی واحد یونیورسٹی تھی جس کی دنیا بھر میں شہرت تھی ۔ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل کو عثمانین کہا جاتا ۔
حیدرآباد میں مشترکہ خاندان کا رواج رہا ۔ عام طور پر ایک ایک گھر 9 تا 12 ارکان خاندان پر مشتمل ہوتا ۔ مہمان نوازی اس حد تک تھی کہ کسی بھی بہانے گھر پر کوئی نہ کوئی تقریب ہوا کرتی اس کا مقصد رشتہ داروں سے تعلقات کو استوار کرنا اور باہمی محبت کو بڑھاوا دینا تھا ۔ بچہ یا بچی کی عمر چار سال چار ماہ یا چار دن ہوجائے تو قرآن خوانی کا آغاز ہوتا اور یہ آغاز تقریب بسم اللہ کے اہتمام سے کیا جاتا ۔ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہوں کے زمانہ میں بھی بسم اللہ کی تقریب منعقد ہوتی تھی ۔ ناظرہ قرآن کی تعلیم گھر پر ہوتی یا مساجد کے صباحی مدرسہ میں ہوا کرتی ۔ بزرگوں کے سامنے چھوٹے مودبانہ سلام کرتے ، ہاتھ اٹھا کر مخصوص انداز میں سلام کیا جاتا ۔ آداب عرض یا پھر قدم بوسی جیسے الفاظ زبان سے ادا کئے جاتے ، بعض خاندانوں میں دست بوسی اور قدم بوسی کا رواج تھا ۔

حیدرآباد کی ملی جلی تہذیب کے نتیجہ میں مسلمانوں نے شادی بیاہ کے موقع پر غیر مسلموں کے رسم و رواج کو اختیار کیا ، نکاح کے بعد جلوہ کی رسم ، آرسی مصحف ، وداعی کے پھول ،دلہے کا دلہن کو گود میں اٹھا کر لے جانا یہ ساری رسومات تہذیب کا حصہ بن گئیں ۔ شاہ حسین نہری نے بتایا کہ جاگیردارانہ نظام کے باعث سماج کا ایک بڑا طبقہ تجارت صنعت و حرفت اور زراعت سے دور رہا ، تعلیم یافتہ لوگ ملازمت کو ترجیح دیتے ۔ محنت کشوں اور مزدور طبقہ میں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ تھی ۔ آجر اور مزدوروں کے درمیان بہتر تعلقات تھے ۔ شاہ حسین نہری نے کہا کہ حضور نظام کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد زندگی کے تمام شعبوں میں بھاری تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ تعلیمی معیار کو انگریزی ذریعہ تعلیم نے شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ اعلی سطح پر شکست خوردگی کا احساس بڑھ گیا ۔ حجاب اور شرم و حیا اب ایک قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے حیدرآباد میں علماء کا معاشرہ پر گہرا اثر تھا ، تمام دینی امور میں علماء سے رہنمائی حاصل کی جاتی ، جامعہ نظامیہ کا دارالافتاء اپنی مثال آپ تھا ، فقہی امور میں مفتیان جامعہ نظامیہ مسلمانوں کی رہنمائی کیا کرتے اور اصلاح معاشرہ کا کام کرتے ۔ آج اکثر علماء مصلحت بینی کا شکار ہیں اور زوال پذیر معاشرہ کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے حیدرآبادی تہذیب اور اقدار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ان تہذیبی اقدار کے احیاء کرنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ بانی شہر قلی قطب شاہ کی دعا سے یہ شہر لوگوں سے معمور تو ہوگیا لیکن وہ تہذیبی عظمت جو حیدرآباد کی پہچان تھی وہ اب ماند پڑتی جارہی ہے ۔