ونود کمار
موجودہ حکومت اور پارٹی صرف ایک عددی اور تین چوتھائی عوام پر مشتمل ہے ۔ ایک عدد امیت شاہ اور تین چوتھائی نریندر مودی ہیں ۔ ارون جیٹلی صرف بلاگنگ کے وزیر ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن عہد کرے کہ بی جے پی کے خلاف ان کا ہر امیدوار بی جے پی کی ایک ایک نشست پر انتخاب لڑے۔
سابقہ بی جے پی وزیر ارون شوری نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی 2019 ء میں انتخابات دوبارہ جیت جاتے ہیں تو وہ دن ہندوستانی جمہوریت اور جمہوری حقوق کا ایک تاریک دن ہوگا اور انہوں نے اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ بی جے پی کے ہر حلقہ انتخابمیں اپنا ایک ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کرے۔ ہفتہ کو وائر ڈائیلاگس کے ایک بڑے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے جن کا انٹرویو کرن تھاپر لے رہے تھے ۔ مسٹر شوری نے کہا کہ یہ صرف ایک وہم ہے کہ نریندر مودی اتنے مقبول لیڈر ہیں کہ اپوزیشن ان کا نعم البدل مہیا نہیں کرسکتی۔ چنانچہ عوام دریافت کرتے ہیںکہ راہول گاندھی ، ہوسکتے ہیں یا پھر ممتا بنرجی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیںکہ 1977 ء میں اندرا گاندھی کا کون نعم البدل تھا ؟ کیا جگجیون رام تھے ؟ ایچ این بہوگنا ، مرارجی دیسائی یا پھر چرن سنگھ ؟ اٹل بہاری واجپائی جن کا انتقال گزشتہ ماہ ہوا تھا ، بعض لوگ ان کا جواہر لال نہرو سے موازنہ کرتے ہیں۔ 2004 ء میں واجپائی کے متبادل کون تھے ؟ کیا سونیا گاندھی ؟ یا پھر منموہن سنگھ جو پردے کے پیچھے پوشیدہ تھے ؟ اس کے باوجود بی جے پی انتخابات ہارچکی تھی ۔ اس کے بعد وہ سابقہ وزیراعظم چندر شیکھر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اگر لیڈرس عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو عوام اس کا راستہ ڈھونڈ ہی نکال لیتے ہیں اور جب عوام کی ان کی مار پڑتی ہے تو وہ تھپڑ پورے جسم کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ کرن تھاپر کے اس سوال پر کہ وہ اپوزیشن کو کیا منشور دیں گے تو انہوں نے کہا کہ پہلے وہ اپنے قدم مباحث و اختلافات کے دستبردار ہوجائیں پھر بی جے پی کی ایک ایک نشست پر اپنا امیدوار ٹھہرائے۔
ماضی کو فراموش کردو اور یہ ایک نیا منظر نامہ ہے اور محسوس کرو کہ نہ صرف ملک خطرہ میں ہے بلکہ آپ خود شخصی طور پرخطرہ میں ہیں اور یاد رکھو کہ ان میں ایک اپوزیشن لیڈر کو مودی جی جیسے بھی استعمال کرلیں گے ، نکال کر پھینک دیں گے ۔ خاص طور پر نتیش کمار اور نوین پٹنائک کو ، لحاظ ماضی کو فراموش کردو اور رسومات پر ہی اکتفا نہ کرو۔ میرا مطلب مستقبل کو بھی بھول جاؤ اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں اس پارٹی کا کس طرح حلیف بنوں جس کے ساتھ مستقبل میں مجھے اسمبلی انتخابات لڑنا ہے ۔ شوری نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ یاد رکھو اگر آپ یہ انتخابات ہار جاتے ہیں تو پھر کوئی انتخاب دوبارہ ہونے والا نہیں ہے اور اس آنے والے سخت حملے کو روکنے کا آخری موقع ہے اور اگر ہم یہ موقع کھو دیتے ہیں تو دوستو سمجھو کہ اس کے بعد آنے والا کوئی بھی انتخاب منصفانہ نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کو صرف نمبر ذہن نشین کرلینا ہے ، 31-69 اور 60-90 ۔ مسٹر شوری نے کہا کہ 2014 ء کے انتخابات کے موقع پر جبکہ ان کی شہرت بلندی پر تھی تو وہ 31 فیصد ووٹس حاصل کئے تھے اور آج وہ اس وقت غیر مقبول ہیں چنانچہ اپوزیشن کا نمبر 69 فیصد سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں تک نمبرس کی دوسری جوڑی کا تعلق ہے، مسٹر مودی چونکہ ریاستوں کی نشستوں کی بدولت 90 فیصد ووٹس حاصل کے لئے جو لوک سبھا کی 60 فیصد قوت کے برابر ہوتے ہیں ، اگر اپوزیشن صرف تین ریاستوں اترپردیش ، بہار اور مہاراشٹرا ہی میں توجہ مرکوز کرتے ہیں تو مودی کیلئے دوبارہ 90 فیصد ووٹس حاصل کرنا ناممکن ہے۔
میڈیا کی اس رپورٹ پر کہ راجیہ سبھا ڈپٹی چیرمین کے امیدوار کیلئے چونکہ راہول گاندھی نے اروند کجریوال کو ٹیلیفون نہیں کیا تھا اس لئے وہ کانگریس امید کو اپنی تائید نہیں دیئے تھے۔ شوری نے کہاکہ اپوزیشن کو صرف رسمیات پر ہی اکتفاء نہیں کرنا چاہئے ۔ کیا آپ کہیں گے کہ ملک خطرہ میں ہے ، آپ نے مجھے فون نہیں کیا۔ سامعین کے اس سوال پر کہ جس طرح کہ ایک مقبول عام خوف ہے کہ اگر مودی ہار جاتے ہیں تو پھر وہی داغدار قائدین اقتدار کی کرسی پر دوبارہ براجمان ہوجائیں گے تو شوری نے ایک اردو شعراء کا حوالہ دیا کہ ’’دوران سفر اگر ہم کو طوفان کا خطرہ ہو تو ہم ملا سے کہہ دیں گے کہ کشتی کو ساحل سمندر پر ہی ڈبو دیں‘‘۔
ایک نئی حکومت نئے مسائل لیکر آئے گی جس کا آپ کو سامنا کرنا پڑے گا ا ور انہوں نے ملک میں ایک نئی قیادت کے طلوع ہونے کا بھی ذکر کیا جو بڑی تیزی سے ابھر رہی ہے جس میں جگنیش میوانی، کنہیا کمار ، الہیش ٹھاکر اور ہاردک پٹیل ہیں جوایک نئی قیادت والی امید کی کرن بن کر ابھر رہے ہیں۔ جب کرن تھاپر نے مودی حکومت کے اسکام فری دور حکومت کے تصور کے بارے میں شوری سے دریافت کیا تو شوری نے نہایت تفصیل سے اس موضوع بشمول سودے بازی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ حکومت اس دھبہ کو مٹانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور میڈیا پر تمام الزامات کے حقائق و تحقیقات میں ناکام ہونے کا الزام لگایا اور ایک چیز یاد رکھی جائے کہ کسی بھی کیس میں صرف رشوت ہی ایک غیر قانونی تبادلہ زر کا نام ہے بلکہ اس کی دوسری اور اشکال ہیں جیسے انصاف میں بدعنوانی ، نظریاتی ، تاریخ اور سماجی بدعنوانی وغیرہ شامل ہیں۔
کرن تھاپر کے ایک سوال پر کہ راہول گاندھی اور امیت شاہ دونوں اپنی اپنی پارٹیوں کے صدور ہیں تو مسٹر شوری نے کہا کہ مودی کابینہ میں امیت شاہ سب سے اہم فیصلہ ساز طاقت رکھنے والی شخصیت ہیں۔ میں ایک معمولی سا شخص بھی اٹل جی کی کابینہ کے ایل کے اڈوانی جیسے وزیر کو چیلنج کرنے میں پس و پیش نہیں کرتا تھا کیونکہ اٹل جی اظہار خیال کی بے پناہ آزادی میں یقین رکھتے تھے لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے اور شوری نے اشارہ دیا کہ حکومت اور زعفرانی پارٹی دونوں مودی ۔ شاہ جوڑی کو شدید مرتکز حیثیت دے دی ہے اور کہا کہ بی جے پی نام کی اب کوئی پارٹی نہیں رہی کیونکہ ہر ممبر شاہ اور مودی کے بارے میں اظہار خیال کرنے بے خوف ہیں۔ ایک طرف ایک حکومت دوسری جانب تین چوتھائی پارٹی افراد ، وہ ایک حکومت امیت شاہ ہے نہ کہ مودی ۔ مودی تقاریر ، تقریبات اور شخصیت مینجمنٹ ہیں ، مصروف رہتے ہیں تو دوسری جانب شاہ مختلف ایجنسیوں کے ذریعہ سے ریاستی اختیارات کو اپنے قابو میں رکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ارون جیٹلی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وزیر فینانس سے گھٹ کر مودی اور شاہ کے بلاگنگ وزیر کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ۔
مودی حکومت میں کس طرح سے حکومتی ادارہ جات کو تہہ و بالا کردیا گیا ۔ مسٹر شوری نے کہا کہ اس کی سب سے بہترین مثال اترپردیش ہے، پولیس کی جانب سے فرضی ان کاؤنٹرس اور منحرفین کی گرفتاری ہے۔ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس کے گواہ اپنے بیان سے مکر گئے ۔ کیا یہ بدعنوانی نہیں ہے ؟ مودی ۔ شاہ جوڑی نے قانون کے طریقہ کار کو بھی سبوتاج کردیا ۔ انہوں نے بھیما۔گورے گاؤں واقعہ پر جہد کاروں کی گرفتاری پر جسمیں پولیس نے ان کے ہاں سے ایسے من گھڑت مسودوں کو برآمد کیا ہے جس کا تعلق مودی کے قتل سازش کیس سے جڑے ہوئے ہیں، تاسف کا اظہار کیا ہے۔
شوری نے کہا کہ مودی شاہ جوڑی 2019 ء انتخابات میں عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے ۔ انہوں نے حالیہ پانچ جہد کاروں کی مثال دی جن کو گرفتاری کرلیا تھا اوران گرفتاریوں کو گجرات ماڈل کا نام دیا گیا کیونکہ 20-02-2014 گجرات میں بھی پولیس نے کئی بار دعویٰ کیا تھا ہ وہ مودی قتل سازش کو بے نقاب کرچکی ہے اور یہ جوڑی اس طرح کی انتخابی حربوں کی ماہر ہے۔ اسکے علاوہ وہ ہندو۔ مسلم تقسیم و پھوٹ کے فروغ پر بھی بھرپور یقین رکھتے ہیں۔