2014میں بی جے پی کئے ہوئے جھوٹے وعدے اور امروہہ مسلم امیدوار دانش علی کے چند سوالات

دانش علی پچھلے دنوں کرناٹک کانگریس جے ڈی ایس پارٹی کے سرگرم کارکن رہ چکے ہیں اورانھوں نے خود دیوے گوڑا کے کہنے پر پارٹی کو الوداع کہا تھا ،کہا جا رہا ہے کہ جے ڈی ایس کے قومی صدر نے ہی خود انہیں وہا ں سے لڑنے کے لیے بھیجا ہے ۔
امروہہ جسے آم کو پیدا کرنے والی زمین کہا جاتا ہے ، مگر اس زمین کے لئے دانش علی خاص مانے جا تے ہیں یہ انکاصرف آبائی وطن نہیں ہے بلکہ اس زمین کی ترقی میں ان کے اہل خانہ نے اپنا خون پسینہ ایک کیا اوران کے خاندان میں اس ضلع کو بہت کچھ دیا ہے اوران کی کامیابی کی بڑی امیدیں بھی لگائی جا رہی ہیں ۔
دانش علی نے بی ایس پی میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور وہ اب گٹھ بندھن کے امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔
انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور مودی عوام کو صرف سنہرے خواب دکھایا تھا، مگر ان سے کیے کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا گیا ،چاہے وہ پندرہ لاکھ روپیے لوگوں کے بینک اکاونٹ میں جمع کروانے کا وعدہ ہو یا نوکریاں دینے کا وعدہ ہو ، آج نوجوان مایوس ہو چکا ہے اور کسان بھی مایوس ہیں ۔حکومت نہ ا ن کے قرضے معاف کر رہی اور نہ ہی ا ن کی فصلوں کے دام بڑھا رہی ہے ، ہر محاذ پر بی جے پی ناکام ثابت ہوئی ۔
انہوں نے مزیدکہا کہ یہاں ابھی جو رکن پارلیمان ہیں نہ وہ کبھی پارلیمنٹ میں گئے اور نہ یہاں کی عوام کے متعلق کبھی سوال اٹھایا اور نا کبھی پانچ برسوں کے دوران اپنے حلقے کا دورہ کیا ۔
دانش علی ہر روز صبح اٹھ کر اپنے حلقے میں انتخابی تشہیر کے لیے روانہ ہوتے ہیں ،اور اپنے حلقے کے ساتھ ملک بھر کی صورت حال پر انکی نگاہ ہے ، امروہہ کبھی کسی پارٹی کا گھڑ نہیں رہا ہے وہاں پر انکا راست مقابلہ بی جے پی سے ہے ۔ اور وہ سب سے مل کر سب کی باتیں سن رہے ہیں ،اور اس بار بدلاو کا من بنا رہی ہے ۔
اور ان کا کہنا ہے کہ بھاجپا اسلیے ان سے جلتی ہے کہ انہوں نے کرناٹک میں کانگریس جے ڈی ایس کی حکومت بنانے میں اور کرناٹک سے بی جے پی کو روکنے میں اپنی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ۔ اور بی جے پی اسی لئے الزام لگا رہی ہے کہ کرناٹک سے ایا ہے جبکہ صحیح صورت حال یہ ہے کہ میں کرناٹک کا ہوں ہی نہیں میرا ووٹ بھی یہیں ہے اور میرا مکان اور سب کچھ یہی ہے میں نے صرف وہاں ایک کارکن کی حیثیت سے کام کیا تھا ۔

https://youtu.be/Taif8p7Xqlw