19 سالہ قدیم مقدمہ کیا یوگی آدتیہ ناتھ کے گلے کی ہڈی بن جائے گا؟

سید غلام ربانی
اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ جن کے ناک تلے جرائم کی کئی وارداتیں ہوئی ہیں لیکن انکے حالیہ ایک بیان کا ہی خلاصہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بڑے ہی فخریہ انداز میں کہا ہے کہ اترپردیش میں جرائم کی روک تھام میں ان کی حکومت کو کامیابی ملی ہے جبکہ ہندوستان کے سارے عوام جانتے ہیں کہ خود چیف منسٹر پر کئی ایک مقدمات درج ہیں جس میں رواں ہفتہ یوگی جی او ران کی پارٹی بی جے پی کیلئے ایک بری خبر آئی۔ تقریبا 19 سال قبل کے ایک مقدمہ میں ان کے خلاف عدالتی نوٹس جاری ہوا ہے۔ جس کی اگلی سماعت 27 اکٹوبر کو ہوگی۔ یہ نوٹس ضلع عدالت نے جاری کی ہے۔ یہ مقدمہ کانگریس لیڈر عزیز طلعت کے شخصی محافظ پرکاش یادو کے قتل کے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ یادو کو فروری 1999میں ایک ہنگامہ کے دوران قتل کردیاگیا تھا جس کا الزام یوگی او ران کے حامیو ں پر لگایا گیا ہے۔ یوگی جی کے خلاف عدالتی نوٹس جاری ہونے پر طلعت عزیز نے اطمینان کی سانس لی اور کہا کہ انہیں انصاف کی امید ہے۔ یہ معاملہ مہراج گنج ضلع کے صدر کوتوالی میں دائر کیا گیا تھا۔ فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد دفعات کے تحت نامزد مقدمہ درج کروایا تھا۔ یہ واقعہ 10 فروری 1999 کو دھرم پور چوراہا کے پاس پیش آیا تھا جب اس وقت یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کے حامیو ں نے مبینہ طور پر کانگریس کی جیل بھرو تحریک کے دوران ان پر حملہ کردیا تھا جس میں فائرنگ ہوئی تھی۔اسی دوران طلعت عزیز کے شخصی گارڈ پرکاش یادو کی موت واقع ہوگئی۔ اس معاملہ میں پہلے سیشن کورٹ نے 13 مارچ 2018ء کویوگی او ران کے ساتھیوں کو بری کرتے ہوئے مقدمہ کو ہی خارج کردیا تھا لیکن طلعت عزیز نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی۔ ہائی کورٹ نے ضلع جج کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی ازسرنوسماعت کرے۔اب دیکھنا ہے کہ اس مقدمہ میں پیش رفت کیا ہوتی ہے کیونکہ آدیتہ ناتھ اس وقت ریاست کے چیف منسٹر ہیں اور وہ ریاست میں جرائم کے کم ہونے کے متعلق بڑے ہی فخریہ بیانات دے رہے ہیں۔ اْترپردیش کے چیف منسٹر یوگی جی نے ایوان میں مخالف ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اترپردیش میں قانون کا راج ہوگا ۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پہلے کے مقابلہ میں جرائم میں بہت کمی آئی ہے۔ مجرموں کو اب سیاسی تحفظ نہیں دیا جائے گا اور ان کے ساتھ مجرموں جیسا ہی سلوک کیا جائے گا۔یوگی کا ماننا ہے کہ اب ریاست میں لوگ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور چاہیں تو 19 مارچ سے 19 مئی تک دو مہینے کا ریکارڈ آپ کو بھیج دوں ؟۔تو کیا 3 مہینے کے اعداد وشمار سے ہی ریاست کے امن وامان اور جرائم سے پاک علاقہ کا تعین ہوجاتا ہے؟ کسی چیف منسٹر کا ایسا بیان کوئی نیا نہیں ہے۔

آدتیہ ناتھ کو شاید خیال نہیں تھا کہ وہ کہاں بول رہے ہیں ؟ یہ مجمع ان کے ماننے اور چاہنے والے عوام کا نہیں تھا بلکہ یہ سب وہ لوگ تھے جو لاکھوں ووٹروں کے نمائندے ہیں اور جن کے پاس معلومات کا ذرائع اس سے بھی زیادہ ہے جتنا وزیروں کے پاس ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنے خراب یہ دو مہینے گذرے ہیں اتنے دوسرے مشکل سے ملیں گے۔ اتفاق کی بات ہے کہ 28 مارچ کو سنبھل میں عزیزوں نے مطلع کیا کہ سنبھل میں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ سنبھل میں چار دن میں یہی خبریں آتی رہیں کہ فلاں محلہ میں پولیس سے ٹکرائو ہوگیا۔ اور آج فلاں محلہ میں پولیس کی عورتوں سے جھڑپ ہوگئی اور واپس آئے تو سہارن پور، پھر بہرائچ اور اب بلرام پور جو کبھی بھی مسلم اکثریت کا قصبہ نہیں رہا ہے وہاں مسلم بستیوں میں پولیس نے غریبوں کی زندگی اتنی مشکل کردی ہے کہ وہاں سے غریب مسلمان گھر چھوڑ چھوڑکر دوسرے شہروں میں جارہے ہیں۔ یوگی جی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب وہ چیف منسٹر ہیں۔ ان کو جو سنائی دے گا یا دکھائی دے گا وہ اپنی آنکھوں اور کانوں سے نہیں بلکہ پولیس کے کان اور آنکھ سے سنائی اور دکھائی دے گا۔ وہ جب معلوم کریں گے کہ بلرام پور سے مسلمان کیوں گھر چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں اور وہاں کے مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کو جیل میں کیوں بند کردیا ؟ تو وہ صوبہ کے ڈائرکٹر جنرل پولیس سے معلوم کریں گے، وہ آئی جی گونڈہ سے معلوم کریں گے، جو بلرام پور کے ایس پی سے جواب طلب کریں گے اور ایس پی جواب میں وہ پریس ریلیز کی کاپی بھیج دیں گے جس میں پولیس پر مسلمانوں کے حملہ کی کہانی ہوگی اور گائے کا دو کنٹل گوشت گاڑی کی ڈگی سے برآمد ہونے اور چند ملزموں کے فرار کی کہانی ہوگی۔ جو سراسر جھوٹ پرمبنی ہوگی لیکن چیف منسٹر اسے گیتا اور رامائن سے زیادہ سچا مانیں گے اور اسی کی بنیاد پر اپنا بیان عوام کو سنائیں گے، اس لئے کہ حکومت کا یہی طریقہ ہے اور دہشت یہ ہے کہ پولیس سنبھل کی ہو، سہارن پور کی ہو یا بلرام پور کی ہو اس میں سب ہندو ہوتے ہیں اور اب وہ صوبہ میں ہندو راج مان کر وہ کررہے ہیں جو غنڈہ راج سے کہیں زیادہ بدتر ہوتا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ ملک کی ہر خرابی کی ذمہ دار پولیس ہے اور ہر وہ صوبہ اور زیادہ برباد ہوگا جس میں چیف منسٹر آنکھ بند کرکے پولیس کی جھوٹی کہانی پر یقین کرے گا۔ صوبہ میں ایسے چیف منسٹر ہوئے ہیں جن کے سامنے پولیس کے عہدیدار کانپتے تھے اور ایسے بھی ہوئے ہیں جو پولیس کے اشاروں پر چلنے کو ہی حکومت سمجھتے تھے۔ یوگی جی کو تو خود تجربہ ہے کہ بات کیا ہوتی ہے اور پولیس اسے بتنگڑ کیسے بناتی ہے؟ وہ یاد کریں جب اسی پولیس نے انہیں اتنا تنگ کیا تھا کہ وہ رو دیئے تھے؟ وہ اگر ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ منتر اب بھی گلے میں ڈالے ہوں تو یہ دیکھیںکہ پولیس بلرام پور کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہی ہے؟ آدتیہ ناتھ کوئی عام چیف منسٹر نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کی ہر خوشی کو لات مارکر سنیاس لیا ہے اور پہچان کے لئے وہ لباس پہنا ہے جو دنیا کو ٹھوکر مارنے والے پہن لیتے ہیں۔ اب اگر وہ دوسرے وزیروں کی طرح اپنے راج میں پولیس کو چھوٹ دیں گے کہ وہ من مانی کرے تو اس زعفرانی پوشاک کے دھاگے کانٹوں کی طرح ان کی آتما میں چبھیں گے اور ان کی پوجا اور تپسیا سب دھری کی دھری رہ جائے گی۔ مسلمانوں میں بھی وہ لوگ ہوئے ہیں جو دنیا چھوڑکر کہیں بیٹھ جاتے تھے یہ جو اجمیر، کلیئر، آگرہ، دیویٰ، سرہند وغیرہ میں سینکڑوں برس پہلے آئے تھے یہ دنیا چھوڑکر ہی آئے تھے اور انہوں نے ہر کسی کی مدد کی اور مدد کرتے وقت نہ یہ دیکھا کہ مسلمان ہے یا ہندو اور نہ کسی سے کہا کہ تم اپنا دھرم بدل دو۔ جس نے دیکھا کہ ان کے چاروں طرف اچھا ہی اچھا ہے ان میں سے کسی نے چاہا تو اپنا دھرم بدل دیا۔