اپوزیشن کو متحد ہوکر بی جے پی سے مقابلے کی کنہیاکمار کی وکالت کی۔

نئی دہلی‘:جاریہ سال کے اوائل میں ملک سے غداری کا الزامات کے تحت17دنوں تک جیل میں رہ کر ضمانت پر رہا ہونے والے جی این یو اسٹوڈنٹ یونین صدر کنہیاکمار نے بی جے پی سے مقابلے کے لئے تمام اپوزیشن جماعتوں کوایک پلیٹ فارم جمع ہونے کی وکالت کی۔کنہیاکمار کی کتاب ’’بہار سے تہاڑ تک‘‘ جومارکٹ میں کافی مقبول ہے میں لکھا ہے کہ

کانگریس ‘ بائیں بازو جماعتوں او رعآپ کو مسائل پر بات کرنی چاہئے۔’’ آئی اے این ایس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں بائیں بازو نظریات کے حامل جہدکار نے کہاکہ ’’ کیوں ارویندر کجریوال‘ کانگریس ‘بائیں بازو کی جماعتیں اور مایاوتی ایک ساتھ نہیںآتے؟‘‘۔’’انہیں متحد ہونا چاہئے‘‘یہ جماعتیں’’ بی جے پی ( بھارتیہ جنتا پارٹی کوشکست فاش کرنے کے لئے متحد ہونی کی ضرورت ہے‘‘۔


کنہیا کمار‘ جو لفٹ ۔ بہوجن اتحاد کی بڑی وکالت کرتے ہیں نے کہاکہ مخالف بی جے پی اتحاد کامن منیمم پروگرام کے تحت ہوناچاہئے جو یوپی اے اول کے دوران ہوا تھا۔مذکورہ سیاسی جماعتوں کے نظریاتی تضاد پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کنہیاکمار ساوتھ افریقہ کی مثال پیش کی جہاں پر افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) اور ساوتھ افریقن کمیونسٹ پارٹی ( ایس اے سی پی) متحد ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ’’ اے این سی اور ایس اے سی پی میں اختلافات ضرور ہیں مگر وہ ساتھ میں کام بھی کررہی ہیں۔کنہیاکمار جن کی عمر اب29سال ہے وہ اب جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر ہیں اور فبروری 2016میں ملک سے غداری کے الزام میں گرفتار کئے گئے تھے۔جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں چند طلبہ او رباہر کے لوگوں کی جانب سے اس اجلاس کے دوران مخالف ملک نعرہ لگانے کے واقعہ کے بعد ڈرامائی انداز میں کنہیا کمار کو گرفتار کیاگیا تھا مگر آج تک نعرے لگانے والوں میں سے اکثر گرفتار نہیں ہوئے۔کہنیا کمار کا 9فبروری کی میٹنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ جس کااپنی کتاب ’’ بہار سے تہاڑ تک‘‘ میں تذکر ہ کیاہے کہ جس واقعہ میں پولیس کو انہیں فوری رہا کرنا چاہئے تھا اس میں کنہیا کو ماخود کردیاگیا۔

رہائی کے فوری بعد کنہیا کمار نے جے این یو میں ایک گھنٹہ طویل تقریر کی جس کو لاکھوں لوگوں راست دیکھا اور اس کے بعد کنہیا کمار ایک اسٹار کے موقف پر پہنچ گئے۔کنہیا کمار نے ائی اے این سے بات چیت میں کہاکہ وہ اپنی شہر ت سے خوش نہیں ہیں۔ سی پی ائی کی طلبہ تنظیم اے ائی ایس ایف کے ایک رکن نے کہاکہ کنہیا کمار سرگرم سیاست کا حصہ ضروری ہیں مگر انہیں انتخابی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔بحث اور مذاکرات جمہوری کا حصہ ہیں ‘ انہوں نے کہاکہ اگر کوئی اکثریت کی مخالفت کرتا ہے تو انہیں نظریاتی اختلافات کو بلائے طاق رکھ کر متحد ہوجاناچاہئے۔

اور کہاکہ ’’ آج اگر آپ حکومت کے خلاف بات کرتاہے تو آپ پر ملک کا غدار قراردیاجائے گا‘‘۔اپنی کتاب میں کنہیاکمار نے اپنے غریب بچپن کی جدوجہد کی تفصیلات پیش کی‘ جس کے والد بائیں بازو جماعت سے وابستہ تھے اور ماں تین ہزار روپئے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی تھیں جن کے گھر میں بیت الخلاء او رہمام تک ندارد تھا‘ اور ہینڈ پمپ کے پاس وہ نہاتے تھے‘ صرف ایک لائٹ او رپنکھا استعمال کرتے تھے تاکہ برقی بل کم آسکے اور رات کا کھانے کادوسرے صبح کے ناشتے میں استعمال کرتے تھے۔

ایک وقت کنہیاکمار نے پچاس روپیہ یومیہ کی نوکری کی جس میں گھر گھر جاکر بچوں کوپولیو ڈراپس پلاتا تھا۔جب وہ پٹنہ منتقل ہوا تو ان کی ماں نے پرانے کپڑے کے تکڑوں کو جوڑ کر سلائی کی گئی ایک چادر دی ۔ پیسے کی کمی کے سبب وہ اکثر پٹنہ میں پیدل چلتاتھا کیونکہ اٹو یا پھر رکشہ کی سواری کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔اپنے معاشی مسائل سے لڑنے کے لئے پندرہ روپیہ فی گھنٹہ کے حسا ب سے اس نے تاریخ ‘ جغرافیہ او رسماجیات ٹیوشن دینا شروع کیا۔پٹنہ کالج میں منعقدہ اسکلس پر بحث نے کنہیا کمار کو سب سے بہترین طلب علم کی شناخت دی جس کے بعد وہ دہلی منتقل ہوا اور یہاں پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔