’’ لڑکی کا خط، سماج کے نام‘‘

فریدہ راج

’’ لڑکی کا خط، سماج کے نام ! ‘‘
’’ … مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے؟ اور یہ سمجھنا ہے کہ تمہیں مجھ سے اس قدر نفرت کیوں ہے کہ اس خوبصورت دنیا اور اپنی زندگی میں قدم رکھنے سے قبل ہی میرا نام و نشان مٹا دینا چاہتے ہو۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟ تم نے میری ماں کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ بادل نخواستہ ایک ایسے عمل کی مرتکب ہوئی جو مذہب و قانون دونوں ہی جانب سے ناقابلِ معافی ہے۔ میں تو ان کے پیار کی نشانی تھی، اْن کے وجود کی گہرائیوں میں بسا ایک احساس تھی، اْن کے خوابوں کی تعبیر تھی جو اْنہوں نے اپنے رفیقِ حیات کے ساتھ دیکھے تھے۔ دھیرے دھیرے میں نے اْن کے دل کی دھڑکن کے ساتھ دھڑکنا سیکھ لیا تھا۔ لیکن تمہیں شاید یہ گوارہ نہ تھا۔ تم نے میری سانسوں کو سمیٹ کر مجھے خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور کامیاب رہے۔ جب کبھی ایسا نہ ہوسکا تو تم نے اْس وقت جب میں نے ایک چیخ کے ساتھ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تمہاری دنیا میں قدم رکھا تو تم سے برداشت نہ ہوسکا۔ میری چیخ شاید تمہارے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ بن کر اْتر گئی تھی۔ مجھے خاموش کرنے کیلئے کبھی مْٹھی بھر ریت تو کبھی زہرآلود دودھ کے چند قطرے میرے حلق میں ڈال دیئے،

کبھی بس یونہی میری سانس کو روک دیا۔ کیا تمہیں میری معصومیت پر ترس نہیں آیا؟ ایسا گھناؤنا عمل کرتے وقت تمہارے ہاتھ کیوں نہیں کپکپائے۔ تم نے کس بے رحمی سے مجھے اْس عورت سے چھین لیا جس نے مجھے نو ماہ اپنے خون سے سینچا تھا ! اور جب میں ڈھٹائی سے اس دنیا میں آہی گئی تو تم نے میرا اور میری ماں کا جینا دوبھر کردیا۔ تمہاری دانست میں میرا وجود میری ماں کا قصور تھا، جس کی سزا اْسے ملنی چاہئے تھی۔ تم اس سے کولہو کے بیل کی طرح کام لیتے، یہاں تک کہ وہ تھکن سے چور ہوکر ڈھیر ہوجاتی۔ ایسی حالت میں وہ بے چاری مجھے دودھ تک نہیں پلاسکتی، لیکن میں سخت جاں تھی جو کچھ تھوڑا بہت ملتا اْسی کو آبِ حیات سمجھ کر پی جاتی۔ تم نے نہ صرف مجھے غذائیت سے بھرپور خوراک سے محروم رکھا بلکہ پیار و شفقت کے دائرے سے بھی خارج کردیا، کبھی پلٹ کر میرا حال نہیں پوچھا۔

میں خود تو ایک لاوارث کی طرح پلتی رہی لیکن بہت سی بیماریوں کو اپنے وجود میں پناہ دی ،اور ایک دن جب ان پناہ گزینوں نے میرے وجود پر ہمیشہ کیلئے قبضہ کرلیا تو میں اس خاموشی سے تمہاری دنیا سے چلی گئی گویا میرا وجود کبھی تھا ہی نہیں۔ لیکن میں تم سے ناراض نہیں، گِلہ ہے تو تمہاری اس سوچ سے، شِکوہ ہے تو تمہاری اس ذہنیت سے جو مجھے ایک بوجھ مانتی ہے، جو میرے والدین کو یہ احساس دلاتی ہے کہ میرا وجود ان کے جیون کو اَجیرن کردے گا، جو انہیں مجبور کرتی ہے کہ میرے وجود کو مٹادیں۔ کبھی قبل از پیدائش تو کبھی تمہاری اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد۔ لیکن کیا تم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ اگر اسی طرح مجھے خاموش کرتے رہے تو تمہارا کیا ہوگا۔ تم جو خود کو تہذیب و تمدن کا رکھوالا مانتے ہو، تم نے عزت و ناموس کا جو لبادہ پہن رکھا ہے

وہ تار تار ہوجائے گا۔ تم دشتِ گردان میں ایک جنونی کی طرح مارے مارے پھرتے رہو گے۔ قدرت نے میرے وجود سے تمہاری دنیا میں ایک مخصوص توازن برقرار رکھا ہے، اور جب یہ توازن بگڑ جائے گا تو تمہاری دنیا میں بدکاری و تباہی کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا۔ اَب بھی وقت ہے اپنی سوچ، اپنی ذہنیت کو بدل ڈالو۔ میری تم سے صرف ایک گذارش ہے کہ مجھے وہ تمام مواقع فراہم کرو جو تم نے میرے بھائیوں کیلئے مخصوص کررکھے ہیں اور پھر دیکھو کرشمہ۔ میں ایک ایسی ہستی بن کر دکھاؤں گی جس پر تمہیں ناز ہوگا، جو تمہارے لئے باعث فخر ہوگی۔ میں تمہیں بغیر مانگے مشورہ دینا چاہتی ہوں، اگر تم واقعی چاہتے ہو کہ مجھے میرا صحیح مقام ملے تو تمہیں تین سطحوں پر کام کرنا ہوگا۔٭ حکومت نے میرے تحفظ کیلئے جو قانون بنائے ہیں انہیں صحیح معنوں میں نافذ کیا جائے۔٭ مجھ میں اور لڑکوں میں فرق نہ کریں کیونکہ ہم دونوں ہی قدرت کی دین ہیں۔٭ اپنے دامن میں جو تم ڈھیر ساری فرسودہ رسومات کو سمیٹے بیٹھے ہو انہیں جھٹک ڈالو اور مجھے مساویانہ حقوق کا حقدار بناؤ اور مجھے جینے کا ایک موقع دو۔ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ تمہیں مجھ پر ناز ہوگا…‘‘

تھکن دور کرنے کیلئے
ٹماٹر کا جوس بہترین
ماہرین کا کہنا ہے تھکاوٹ دور کرنے کیلئے انرجی ڈرنک کے بجائے ٹماٹر کا جوس استعمال کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق صبح کی ورزش کے بعد ٹماٹر کا جوس دوران خون کو بہتر بناتا ہے۔ ٹماٹر کا جوس کینسر اور دل کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ دو ماہ تک مسلسل یہ جوس پینے سے جسم میں پروٹین کی کمی بھی دور ہوجاتی ہے۔