حلیم بابر
اسلام میں رواداری کو بڑی اہمیت و فضیلت حاصل ہے ۔ اسلام ایک کھلا ذہن رکھتا ہے اور تنگ دلی ، فرقہ پرستی کا کٹر مخالف ہے ۔ اسلام وہ خوبیوں کا حامل مذہب ہے جس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں ۔ دیگر ممالک بالخصوص امریکہ جیسے ترقی پسند ملک میں انگریزوں نے اسلام سے متاثر ہوکر ایمان لے آئے اور ایک ایک سنت کو بڑے احترام و دلجوئی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ،انھیں دیکھ کر مسلمان کو اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے ۔ اسلام کی عظمت تو ان لوگوں سے پوچھئے جو نومسلم ہیں ۔ چونکہ مسلمانوں کو ورثہ میں اسلام ملا ہے اس لئے وہ اس کی اُتنی قدر نہیں کرتے جتنی کہ کرنی چاہئے ۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے شہنشاہ و گدا میں کوئی فرق نہیں سمجھا ۔ اس خصوص میں علامہ اقبال کا یہ شعر عقل و فہم کو ایک جنبش دیتا ہے اور دعوت فکر بھی دیتا ہے کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
ہندوستان میں مسلمانوں نے ہزاروں سال حکومت کی ہے اور اپنی عظمت و رواداری کیلئے نقوش چھوڑے ہیں جو کبھی مٹ نہیں سکتے اور رہتی دنیا تک ان کے صفات و کارناموں کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔ ہندوستان کا مغل دور حکومت ایک قابل یادگار وہ مایہ ناز دور ہے جس کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ اسی دور کے نامور حکمرانوں میں شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا نام آتا ہے جس نے مذہبی رواداری کی ایسی مثال قائم کی جس کی زمانہ مثال پیش نہیں کرسکتا ۔ اورنگ زیب نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو اپنی نظروں میں برابر کا سمجھا ۔ چونکہ اس نے جہاں مسلمانوں کو جاگیریں اور منصب عطا کئے وہیں ہندوؤں کو بھی اس سے نوازا ۔ تاریخ میں اورنگ زیب کے بارے میں اُلٹ پلٹ کر غلط انداز میں واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان واقعات کو ہندو مورخین نے بھی نامناسب کہا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب نے مندریں توڑیں یہ انتہائی غلط ہے چونکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اورنگ زیب نے رواداری کے پیش نظر ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر خصوصی توجہ دی ۔ مندروں کی مالی اعانت کی ۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کی طرح جاگیروں و عہدوں سے نوازا ۔ اسی طرح مسلم نظام دور حکومت میں بھی رواداری کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ۔ ہندوؤں کو مذہبی آزادی اور عہدوں سے نوازا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کی نوجوان نسل ان واقعات سے بے خبر ہے ۔ بزرگ اور ان کے اراکین خاندان اس بات کے معترف ہیں کہ انھیں مسلم دور حکومت میں کوئی اذیت نہیں دی گئی ۔ ہر معاملہ میں اُن کے ساتھ عدل و انصاف قائم رہا۔
تاریخ اور شواہد کی روشنی میں درج ذیل حقائق پیش کئے جاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر شہنشاہ ہند نے ہندوؤں کے ساتھ مذہبی رواداری کے پیش نظر مندروں کی تعمیر و اعانت کے سلسلہ میں جو اقدامات کئے ہیں اُس سے زمانہ انکار نہیں کرسکتا بلکہ یہ بات ماننے پر مجبور ہوجائیگا کہ ایک حکمراں کو اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف رواداری اور مذہبی آزادی کااسی طرح خیال کیا جانا چاہئے جس طرح کے اورنگ زیب نے کیا ہے۔
سومیشور ناتھ مہاویر : الہ آباد میں اس مندر کی عظمت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اس مندر کے مہنت کے انتقال کے بعد جو یہ مسئلہ عدالت میں پیش ہوا تب اورنگ زیب نے بڑی وسیع النظری و رواداری کے پیش نظر ایک فرمان کے ذریعہ اس کا تیقن دیا کہ پوجا پاٹ کیلئے جاگیر عطا کی جارہی ہے تاکہ اس سے پوجا پاٹ کے اخراجات کی تکمیل ہوسکے ۔ اس کے علاوہ دیگر منادر مہا کالیشور ، اجین ، چتراکوٹ ، اومانند گوہاٹی اور جین مندر کو بھی 1659 ء سے لیکر 1689 ء تک کی جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی ۔ اس سے اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ اوراگ زیب ہندوؤں کے مسائل میں سنجیدہ ذہن رکھتا تھا ۔ اسی طرح ایک اور معاملہ میں جہاں ایک برہمن نے اورنگ زیب سے شکایت کی کہ کچھ لوگ نئے مندر کی تعمیر کا مسئلہ اُٹھاتے ہوئے اس کو پریشان کررہے ہیں ۔ اس تعلق سے ایک فرمان جاری کیا گیا کہ اس میں کوئی مخالفت نہ کی جائے ۔ ایک اور شکایت دھرج رام سنگھ نے کی کہ اس کی والدہ کی تعمیر کردہ گنگا کے کنارے مہادھورام میں رہائش کو قبضہ کررہا ہے۔ تب اورنگ زیب نے اپنے فرمان سے بھگوت کوسین کو وہیں قیام کرنے اور پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیدی ۔ اسی طرح جنگمباری مٹ کے مٹھ والوں نے شکایت کی کہ نذیر بیگ نامی ایک شخص نے انھیں بے دخل کردیا ہے ۔ چنانچہ اورنگ زیب نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ نذیر بیگ کے خلاف کارروائی کی جائے اور مٹھ میں رہنے والوں کو کشادہ اراضی عطا کی گئی ۔
رام جیون کو جاگیر : اورنگ زیب عالمگیر نے برہمنوں اور فقیروں کی رہائش کیلئے مکانات بنائے جہاں پر وہ آزادی کے ساتھ پوجا پاٹ کرسکیں۔ یہ مقام بنارس میں گنگا کے کنارے بیٹی گھاٹ پر واقع ہے جو جیون کوسین کے مکان کے روبرو اور مسجد کے پیچھے ہے چونکہ یہ بیت المال کی ملکیت میں شامل ہے ۔ لہذا بلا لحاظ مذہب و ملت صرف ہندوؤں کیلئے یہ اراضی عطا کی گئیںجو ا ورنگ زیب کی ایک مثالی روارادی ہے ۔
گوہاٹی مندر : اورنگ زیب نے گوہاٹی مندر کے پجاری کو ایک فرمان کے ذریعہ ایک خطہّ زمین عطا کی جس سے وہ جنگلوں کی آمدنی وغیرہ سے پوجا پاٹ و پجاری اپنے رہن و سہن کا انتظام کرسکے ۔ ایسا اقدام بھی ہندوؤں کے ذریعہ بڑی قدر و منزلت کا حامل بنا۔
مہاکالیشور مندر اوجین : اس کو ایک بڑا مندر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہاں پر ایک دیپ جلایا جاتا ہے جس کیلئے ہر وقت چار سیر گھی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہ قدیم طرز عمل تھا جس کو اورنگ زیب نے بھی جاری رکھا جس کے ذریعہ کوتوالی کے تحصیلدار کو حکم دیا گیا کہ روزانہ 4 سیر گھی فراہم کیا جائے ۔ اس حکمنامہ کی ایک نقل ترانوے سال بعد 1153 ھ میں محمد سعداﷲ نے جاری کیا ۔اس کے علاوہ اورنگ زیب کے زمانے کے کئی دستاویزات مندر کے مہانگ لکشمی نارائن نے افسروں کو پیش کئے جو اس بات کا متعرف ہے کہ اورنگ زیب کس طرح کا عظیم روادار شہنشاہ تھا جس کے ہاں کوئی مذہبی دشمنی نہیں تھی ۔
شترنجایا اور ابومندر : اپنی دور حکومت میں اورنگ زیب نے ایک جوہری کو مندر کیلئے ایک بڑی زمین عطا کی۔ صوبہ احمدآباد میں واقع زیرسورت سرکار کو بھی دو ایکڑ زمین بطور انعام دیا گیا ۔ اس طرح چنتامنی مندر کے معمار نگریش کو بھی گرتا اور ابو میں واقع مندروں کیلئے اراضی فراہم کی ۔
گرنا اور ابوجی : جوناگڑھ میں واقع گرنال نامی میں شانتی داس جوہری کو ایک فرمان کے ذریعہ شہنشاہ اورنگ زیب پہاڑی و اراضی کے احکام جاری کئے اور اس فرمان شاہی کے مطابق کسی بھی راجہ کو دخل اندازی کا دخل نہ ہوگا ۔ بعض مقامات پر اورنگ زیب نے مندروں میں غیراخلاقی و مجرمانہ کاموں کو دیکھ کر اس کی مسدودی کا حکم دیا۔ ایک واقعہ کے ذریعہ اس کا علم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب کس قدر بلند و اعلیٰ رواداری کے حامل تھے ۔
وشواناتھ مندر کا انہدام : ایک واقعہ یوں بھی ہوا کہ ایک مندر میں ایک رانی لاپتہ ہوگئی ۔ چنانچہ اطلاع ملنے پر اورنگ زیب نے تلاشی کے احکام جاری کئے ۔ تلاش میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ مندر کی ایک دیوار میں نصب شدہ گنیش جی کا مجسمہ دراصل تھا ہی نہیں ۔ بلکہ اُس جگہ سے مورتی کے ہٹانے سے نیچے سیڑھیاں نظر آنے لگیں۔ وہاں جاکر دیکھا گیا کہ رانی روتی ہوئی چلا رہی تھی جب اس ظالمانہ حرکت کا پتہ شہنشاہ کو چلا تو ایک فرمان کے ذریعہ سزا کا حکم دیا اور مندر کو بھی مسمار کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ اقدام مندر کی بے حرمتی اور انسانی گراوٹ کے پیش نظر کیا گیا تھا ۔ ڈاکٹر سیتا رامیا نے اپنی کتاب فیچرس اینڈ دی اسٹونس میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے اورپٹنہ میوزیم کے سابق کیوریٹر بی ایل گپتا نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے ۔
گولکنڈہ کی جامع مسجد : جب اورنگ زیب کو اطلاع ملی کہ گورنر گولکنڈہ تاناشاہ نے محصول وصول کردہ کو مرکزی حکومت تک روانہ نہیں کیا اور اس رقم کو زمین میں دفن کرکے جامع مسجد تیار کی ہے ۔ چنانچہ اورنگ زیب نے متذکرہ مسجد چونکہ مسجد کی غرض سے تعمیر نہیں کی ہے چنانچہ شہنشاہ نے حکم دیا کہ اس کو مسمار کردیا جائے اور محصول کی رقم تحویل میں لیکر دلی روانہ کیا جائے ۔
بہرحال اورنگ زیب عالمگیر جیسے عظیم ، نیک ، انصاف پسند روادار اور شہنشاہ کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا ۔ یہ ایک ولی صفت شہنشاہ تھے ۔ یہ وہ شہنشاہ ہے جنھیں قرآن مجید اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا جو یقینا ایک بڑی سعادت کی بات ہے ۔ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی کتاب ’’تزک عالمگیری ‘‘ میں اپنے حالات و حکومتی نظم کے پیچ و خم کو بہت دلنشیں انداز میں لکھے ہیں جس کا مطالعہ دلوں کو مغموم کردیتا ہے ۔ وقتاً فوقتاً بڑے کرب سے اس حقیقت کے اظہار کے ساتھ مضمون کو ختم کیا جاتا ہے کہ جہاں مسلمانوں نے آزادی ہند میں اپنی قربانیاں دیں ، ہندوستان کے چمن کو سنوارنے میں اپنا خون جگر دیا ، فرقہ پرستی کچلنے اور رواداری کیلئے اپنا سب کچھ قربانکیا ایسے حالات میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ
’’پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘
والی بات پر انسانیت آنسو بہانے لگتی ہے ۔