ڈاکٹر آمنہ تحسین
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔حیدرآباد
محلہ آصف نگر میں واقع ’’ محمود باغ ‘‘ کے بڑے سے گیٹ میں داخل ہو تے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ حیدرآباد کی منفرد ثقافتی شناخت کے ضمن میں یہاں کی عمارتیں اور ان کے مکینوں کی طرزِ معاشرت و تہذیب بھی خاصی اہمیت کی حامل رہی ہے۔اگرچیکہ بدلتے وقت کے تقاضے یا اس کی ستم ظریفیوں نے کہیں کہیں ان عمارتوں کی رونقوں کو دھندلا کر رکھ دیا ہے یاان کی وسعتوں کو سمیٹ کرہیئت کو یکسر بدلنے پر مجبو ر بھی کردیا ہے۔تاہم چند ایک افرادآج بھی اپنے اجداد کے چھوڑے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی سعی کررہے ہیں۔ ’’ محمود باغ ‘‘ کا بھی ایک یادگار ماضی رہا ہے۔ ماضی میں اس کی رونقوںاور اس کے مکینوں کی طرزِ معاشرت کو جاننے کی خواہش مجھے پروفیسر لئیق صلاح صاحبہ کے خوبصورت ،کشادہ، قدیم طرز کے فرنیچر اور اشیاء سے سجے ڈرائنگ روم تک لے آئی۔ پروفیسر لئیق صلاح صاحبہ نے دکن بالخصوص حیدرآباد کی تاریخ و تہذیب کی بازیافت نیز زبان و ادب کے کارناموں کی دریافت میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ صرف کردیا اور اپنی عالمانہ تحریروںسے اردو زبان کے ذخیرے کو مالا مال کیا۔ پروفیسر لئیق صلاح صاحبہ ایک مشفق استاد ، بلند پایہ محقق،بالغ ِنظر ناقداور انشاپرداز کی حیثیت سے اردو دنیا میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ اگرچیکہ انھیں تدریسی خدمات کے لیے کئی برس گلبرگہ میں گذارنے پڑے لیکن حیدرآباد اور اس کی تہذیب سے کسی پل بھی دور نہ رہ سکیں۔ مختلف پہلو ئوں پران کے ساتھ ہو ئی گفتگو میں حیدرآباد کے ماضی کے متعلق کئی ایک پو شیدہ پہلو نیز لباس ، زیورات ،ظروف اور دیگرتہذیبی عناصر، کو مفصل جاننے اور دیکھنے کا بھی مو قع ملا۔ ان سے کی گئی طویل گفتگو کو اختصار کے ساتھ پیش کر نے کی یہ ایک کو شش ہے۔ ملاحظہ کیجیے، حیدرآباد سے محترمہ کے تعلق پر سوال پر انھوںنے بتایا کہ’’ اس شہر کے آباد ہو نے کے بعد سے دنیا بھر میں اس کی شان و شوکت اور اس کی تہذیب و تمدن کے چر چے رہے ہیں۔جس سے متاثر ہو کر مختلف مقامات کے افراد برسوںسے یہاں آکر بستے رہے ہیں۔ہمارے خاندان کو یہاں بسے صدیاں ہو گئیں۔اس شہر کو امیر امراء کے شہر کی حیثیت سے شہرت حا صل رہی ہے ۔ابتداء میں پرا نے شہر کے مختلف علاقوں میں حویلیاں، دیوڑھیاں یا کو ٹھیاں ہوا کرتی تھیں ۔ بعد میں شہر کی آبادی بڑھنے لگی تو نئے شہر میں بھی دیوڑھیاں بننے لگیں۔
’’ ما ما جمیلہ ‘‘کی دیو ڑھی کے قریب محلہ مٹی کے شیر کے علاقے میں ہماری دیوڑھی واقع تھی۔ لیکن میرے دادا ‘ محمد بن صلاح شمشیر یا ور جنگ کے دو ر میں خاندان کے تمام افراد ’’ محمود باغ ‘‘ میں آبسے تھے۔ میرے اجداد کا تعلق عرب قوم سے ہے۔ جدّ ِ اعلیٰ محمد بن عوض پہلے پہل ہندوستان آئے تھے۔ دادا جن کی پیدائش عر بستان میں ہوئی تھی لیکن بعد میں وہ بھی حیدرآباد آ کر بس گئے تھے ۔والد صلا ح بن محمد شمشیر یا ور جنگ القعیطی ،حید رآباد میں ہی تو لد ہو ئے ۔ یہیں تعلیم پائی ۔والدہ کا تعلق حیدرآباد سے ہی تھا۔ہمارے خاندان کے افراد بشمول والد صاحب نے آصف جاہی حکومت میں اہم خدمات انجام دی ہیں۔بالخصوص نظام سر کار نے انھیںکئی ہزار عرب افراد پر مشتمل بے قاعدہ فوج اور’’ سو اروں‘‘ کی قیا دت عطا فر مائی تھی۔مشاہرہ کے علا وہ ان کی جانثاری و وفاداری کے لیے منا صب وجا گیرات اور خطابات سے بھی نوازا تھا۔ اس دور کے روسا اور امراء کی طرزِ معاشرت اور ان کی دیوڑھیوں کے متعلق محترمہ نے بتایا کہ’’ ان دیوڑھیوں میں،صدر دروازے ، جسے ’باب الداخلہ ‘‘ کہا جاتا تھا، اس پر ایک نقار خانہ ہو تا تھا جہاں سر کار کی جانب سے ان امراء کے مرا تب کو ملحوظ رکھتے ہو ئے نوبت اور نقا رے عطا ہوتے تھے ۔ان کے بجا نے کے اوقات بھی معین تھے۔’’باب الداخلہ ‘‘کے علاوہ ایک زنا نی پھاٹک بھی ہو تی تھی ۔کو ئی فرد بھی بغیر اجا زت دیو ڑھی میں جا نے کی جراء ت نہیں کر سکتا تھا ۔یہ دیوڑھیاں فانوس ،چاندنی اور قالین سے آراستہ وسیع دالان ، کئی کشادہ کمروں اور کھلے آنگن( پیڑ پودوں سے سجاچمن) پر مشتمل ہو تی تھیں۔ زنانہ و مردانہ حصہ علیحدہ ہوتا تھا۔ زنان خانہ میںچھوکریاں اور باندیاں دست بستہ بیگم صاحبہ کے حکم کی منتظر کھڑی رہتیں۔ بیگم صاحبہ گائو تکیہ سے لگی بیٹھتیں ۔ان کے ایک بازو پاندان، اگالدان، ناگردان جو نقروی ہوتے، بڑے سلیقے سے رکھے جاتے۔ پاندان کے ہر خانے میں چھوٹے چھوٹے کمخواب یا اطلس کے ٹکڑے بچھے ہوتے۔ بیچ کے حصے میں اسی کی مناسبت سے کپڑا بچھا دیا جاتا۔ چھالیہ وغیرہ لینے کے لیے چاندی کی چٹکیاں ہوتیں، پاندان میں ایک جھیلہ بھی رکھا ہوتا ۔جس میں چھوٹی چھوٹی زنجیروں سے لٹکتی ہوئی قینچی، چاقو، کان ڈوئی، مسّی وغیرہ کی ڈبیاں اور چھوٹا ساسروتا اور آئینہ ہوتا۔ ایک جھیلہ ایسا ہوتا جس میں چاندی کے لونگ لگے ہوتے جو دعوتوں میں مہمانوں کی گلوریاں سجانے کے کام آتا۔ چاندی کی بڑی ڈبیا میں لونگ الائچی اور چکنی سپاری رکھی جاتی تھی۔ ہم مرتبہ لوگ آتے تو بیگم صاحبہ اپنا پاندان آگے بڑھاتیں اور ملازمین وغیرہ کو پان پر سیدھی جانب کتھا چونا اور چھالیہ وغیرہ رکھ کر دوچار پان دیے جاتے تھے۔ بیگم صاحبہ کے نعمت خانہ کی طرح ایک بڑا ہال، مغلانی بوائیں، آتون اور انائوں کے بیٹھنے کے لیے مختص ہوتا۔
خادمائیں بھی پان کی شوقین ہوتیں۔ ہر ایک اپنے پاندان اور اُگالدان سے لیس ہوتا ان کے پاندان اور اگالدان تانبے کے ہوتے تھے۔ پکوان کے لیے دوتین مامائوں کے ساتھ کاماٹن کا ہونا ضروری تھا۔لڑکوں کو مدرسہ یا مکتب بھیجا جاتا تھا،لیکن عرصہ تک لڑکیوں کی تعلیم گھر پر دی جاتی تھی۔ یوں تو میر محبوب علی خاں کے دور سے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کو ششوں کی شروعات ہو ئی تھی لیکن کا میابی میر عثمان علی خاں کے دور میں نظر آتی ہے۔اس دور میں لڑکیوں کی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی تھی ۔ایک استانی کو خاص طور پر ملازم رکھا جاتا ۔وہ دن رات دیوڑھی ہی میں رہتی تھیں ۔لڑکیوں کو قرآن ،نمازسکھانے،احادیث ازبر کر وانے کے علاوہ اردو ،فارسی زبان وادب سے بھی واقف کروایا جاتا۔گھر کے بزرگ اخبار یا کتابیں پڑھواکر تلفظ درست کرتے تھے۔ دادی ، نانی اور دیگر بزرگ بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ گھر کی انائوں اور مامائوں کو بھی داستانیں جیسے باغ و بہار ،آرائشِ محفل ،ہزار داستانیں پوری طرح ازبر تھیں ۔وہ بھی روزانہ کہانیاں اور داستانیں سناتی تھیں۔لڑکیوں کو گڑیوں کا بیاہ رچاکر پکوان،رسم و رواج ،سلائی کڑھائی سے واقف کروایا جاتا تھا۔ حیدرآباد میں مختلف مو قعوں پر ادا کیے جانے والے رسومات رائج تھے ان کی مناسبت سے لباس اور زیورات کا خیال رکھا جاتا تھا۔ تقاریب کا اہتمام ہو تا تو اس میں تمام رشتہ داروں اور دوست احباب کی شرکت لازمی ہو تی تھی یہ تقاریب کئی دنوں تک چلتی تھیں باوجود اسکے مختلف عمر کے مرد و خواتین اور بچے بخوشی شرکت کر تے ۔دراصل اس طرح کی تقریبات و رسومات رشتوں کے استحکام اور پائداری کا با عث ہو تی تھیں۔ آج ماحول یکسر بدل گیا ہے۔ عربوں کی تہذیب و تمدن کے متعلق سوال پر محترمہ نے بہ تفصیل بتایا کہ’’ چونکہ میرے والد عرب تھے اور والدہ حیدرآبادی تھیںتو ہمیں دو تہذیبوں کی پاسداری کر نی پڑتی تھی۔اس کی ایک جھلک آپ کو بتاتی ہوں۔صبح جا گتے ہی سب بچے ،منہ ہاتھ دھو کر والد کے یہا ںسلام کو حاضـر ہوتے۔یہ سلام حید رآباد ی انداز کا ’’آداب عرض‘‘ کی صورت میں ہو تا اور نہ ’’السلام علیکم ‘‘کی شکل میں ۔یہ خاص عربی طرز کا سلام ہو تا ،ممکن ہے سن کر آپ سب متعجب ہوں گے ۔والد صاحب قالین پر گائو تکیہ سے لگے ہو ئے قہوہ پینے کے بعد تشریف فر ما ہوتے ۔
او رہم سب یکے بعد دیگرے’’یا حیٰ ‘‘کہہ کر مصافحہ کر تے اور والد کے گھٹنے کو بوسہ دیتے ،اور جواباً وہ ہماری پیشانی یاسر کو چومتے ،روز آنہ کا ہمارا یہ معمو ل تھا ۔ لیکن والد صاحب اپنی والدہ سے’’ آداب عرض‘‘ کہہ کر ملتے تھے۔البتہ عید، بقر عید پر عربوں کا روایتی سلام ہوتا۔اسی طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی دونوں تہذیبوں کا ایک خوبصورت سنگم ہوتاتھا۔ آج بھی حیدرآباد کے مخصوص علاقوں میں عربوں کے مختلف قبیلوں کے لوگ آباد ہیں۔چنانچہ ان کی تہذیب مختلف انداز میں یہاںکے تہذ یبی عناصر کو بھی متاثر کر تی رہی ہے۔ عربوں کے پکوان، باجے اور رقص آج بھی شادیو ں کی بارات میں رونق کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ حید رآبا دی خواتین نے بھی ان تہذیبی اثرات کو قبول کیا اور اپنی معاشرت کا حصہ بنالیا۔ ’’بے قاعدہ افواج‘‘ میںعرب رجمنٹ کے سپاہیوں کو ’’ چائوش ‘‘ کہا جاتا تھا۔ پندرہ تا بیس افراد پر مشتمل اس رجمنٹ کو مختلف مقامات نیز محلات و دیوڑھیوں پر حفاظتی دستے کی طرح خدمات انجام دینی ہو تی تھی۔یا حسبِ ضرورت انھیں دیگر فوجی خدمات کے لیے بھی تیار رہنا ہو تا تھا۔ان کا لباس الگ طرح کا ہوتا ۔ وہ لنگی کو ٹخنوں سے اونچی باندھتے اور اوپر کرتا یاشرٹ پہنتے تھے۔ ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس ہو تے۔ان کی فوجی تربیت بھی دوسری افواج کی طرح ہی انجام دی جاتی تھی ۔ دیوڑھیوں میں’’باب الداخلہ‘‘ کے ساتھ ہی ان کے لیے ایک کشادہ دالان ہوتا، جس میں یہ چائوش فروکش ہوتے۔ اسے عرف عام میں ’’گہواخانہ‘‘(قہوہ خانہ) کہا جاتا تھا ۔ قہوہ دینے والے ’’ مر فاشی ‘‘ کا انتظام سرکار کی جانب سے ہی ہو تا تھا۔عیدین کے مو قع کا اہتمام بھی ملاحظہ کیجیے۔ رمضان کی عید کے موقع پر عرب جمعدار ایک دیوڑھی سے دوسری دیوڑھی کی طرف مبارکباد کے لیے جاتے تھے۔ دور ہی سے ان کی بندوقوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ دف اور گمبو س(بانسری نما) بجاتے اور عربی زبان میں ترانہ گاتے جاتے تھے۔ بقرعید کا لطف کچھ اور ہی ہوتا عید سے ایک آدھ ہفتے قبل بکرے منگوا لیے جاتے تھے۔ تین دن تک بڑے تزک واحتشام اور مختلف پکوانوں و میٹھوں کے ساتھ عید منائی جاتی تھی۔ بے قاعدہ فوج کے سردار کے پاس دو علم ہوتے تھے ۔
عید کے موقع پر ان علموںکو جلوس کی شکل میں نکالا جاتا۔ لیکن یہ جلوس دیوڑھی کے اندر ہی گھومتا تھا۔اس موقع پر بندوقیں چھوڑی جاتیں ۔اس روز سپاہیوں کو بلا کسی عذر کے حاضر رہنا ضروری تھا۔ سال میں ایک مرتبہ ان کی تعداد کا جائزہ بھی لیاجاتا تھا ۔ محرم کے دس دنوں کا اہتمام، گیارہویںاور رجب کی نیازیں ،میلاد کی محفلیںبھی ضروری سمجھی جاتی تھیں۔ہر ماہ کی پہلی جمعرات کو عشاء کی نمازکے بعد مردان خانے اور زنان خانے میں محفلِ میلاد کا اہتمام ہوتا تھا۔ ماضی کے علمی و ادبی پس منظر کے متعلق پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ ’’ اس دور میں رائج نصابِ تعلیم اور طریقہ تعلیم کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔میری ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکو ل نامپلی میں ہو ئی ۔ہماری صدر معلمہ اور اساتذہ تمام کے تمام تربیت یافتہ اور اپنے متعلقہ مضامین میں مہارت کے حامل تھے۔اردو،ہندی ،تلنگی اور انگریزی کے علاوہ تمام اہم مضامین شاملِ نصاب تھے ۔یوں تو اسکول اردو میڈیم تھا لیکن انگریزی زبان کی مہارت پر خاص توجہ دی جاتی تھی ۔ Ren & Martin کی لکھی انگریزی قواعد کی کتاب آٹھویں جماعت سے پڑھائی جاتی تھی۔اہم مضامین کے علاوہ ڈرائنگ،پکوان ،سیون بھی سکھایا جاتا تھا۔اردوکے اساتذہ ،نصاب کی تکمیل کے بعد غالب، جو ش ؔ،اقبال ؔ وغیرہ کے کلام سے متعارف کروا تے جس سے ہمارے ادبی ذوق میں اضافہ ہوا ۔قابل ذکر اساتذہ میںمحترمہ غوثیہ بیگم ( ہمشیرہ فیض محمد صدیقی ) محترمہ عمدۃ النساء بیگم، محتر مہ نجمہ عبدالخالق،مسز آئنگر،مسز سوما سندرم،اور مسز ہیامنڈ تھیں۔1953-54 کے ایک اہم واقعہ کا ذکر کرو ں گی۔اُ س دو ر میں دسویں جماعت کی لڑکیوں میں سے Head Girl بنا نے کے لیے ایسی لڑ کی کا انتخاب کیا جا تا تھاجو پڑھنے میں اچھی رہنے کے علا وہ انتظامی صلاحیت رکھتی ہو۔ رواں سال دسویں جماعت کی صفیہ شریف منتخب ہو ئیں۔یہ وہی صفیہ شریف ہیںجو بعد میں حید رآباد کے مشہو ر ومعروف رسالے ’’صبا‘‘کے مدیر سلیمان اریب کی شریکِ حیات بنیں ۔تقریر وتحریر کے لحاظ سے وہ یگانہ روز گار تھیں ۔اس دور کے اساتذہ کی ایک بے مثال خدمت کا ذکر بھی کر نا چا ہونگی۔ا نھوں نے اسکول کی غریب طالبات کی فیس ادا ئیگی اور ان کے لیے دوپہر کے کھانے کا انتظام کے لیے متمول گھرانے کی لڑکیوں سے مدد و تعاون کی درخواست کی تھی ۔ طالبات نے جوش درجوش اس کاز میں حصہ لینا شروع کیا۔وصول ہونے والے پیسوں سے فیس ادا کی جاتی۔اسکول کے ایک کمرہ کو باورچی خانہ میں تبدیل کیا گیا اورپکوان کے لیے ایک باورچن کا انتظام بھی کیا گیا ۔ باورچن کی غیر حاضری میں اساتذہ خود کھانا تیار کر تے تھے۔ آج ’’مڈ ڈے میل‘‘ کے عنوان سے مدارس میں یہ سہولت دی جارہی ہے۔
لیکن گورنمنٹ ہائی اسکول نامپلی نے بغیر کسی حکو مت کے تعاون کے جو پہل کی وہ نا قابل فرا مو ش کار نامہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے عثمانیہ یو نیورسٹی کا قیام بالخصوص ’’ ریذ یڈنسی ویمنس کالج‘‘ کی شروعات اہم موڑ ثابت ہوئی ۔اکثر گھرانوں کی لڑکیاں وہیں تعلیم حاصل کر تی تھیں۔ جہاں تک ادبی ماحول کی بات ہے تو میں یہ کہو نگی کہ جب آصف جا ہی فر مانِ روا،نواب میرنظام علی خاں آصف جاہ ثانی نے عنانِ حکو مت اپنے ہاتھ میں لی تو انہو ں نے آصفیہ سلطنت کے پائے تخت کو بجائے اورنگ آباد کے ۱۷۶۷ء میں حید رآباد منتقل کیا تب دوسری علمی وادبی سر گر میوں کا آغاز ہوا۔حیدرآباد کی داد و دہش نے مختلف مقامات کے فکر و فن کے لحاظ سے ’’یکتائے روز گار ‘‘ شعراء و اد باء کوحیدرآباد آنے پر مجبو ر کیا۔ مختلف سرکاری شعبوںو تعلیمی اداروں نیز اسپتال وغیرہ کی شروعات، بے شمار اداروں اور انجمنوں کا قیام، اخبارات و رسائل کی اشاعت ،خواتین کی تعلیم و ترقی پر خاص توجہ، اور مشترکہ تہذیب نے حیدرآباد کو ایسی انفرادیت بخش دی تھی جس پر سارے جہاں کی نظریں ٹھہر جاتی تھیں۔ ’’حیدرآباد میںقومی یکجہتی‘‘ کے متعلق سوال پر محترمہ نے بتایا کہ آصف جاہی حکمراں مطلق العنان ہونے کے باوجود وسیع المشرب تھے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ صدیوں سے ہندوستان میں ذات پات کا نظام رائج رہاہے۔
ڈپٹی نصراللہ خاں نے اپنی تصنیف ’’ تاریخ، دکن‘‘ میں لکھا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو حتیٰ کہ ،درزی ،سنار،تیلی،موچی اور ہریجن کو شادی بیاہ کے مو قع پربھی گھوڑے کے استعمال سے روکتے تھے۔بات نہ ماننے پر سزا دی جاتی تھی۔لیکن نظام علی خاں آصف جاہ ثانی نے احکام جاری کیے تھے کہ جو بھی چھوٹی ذات والوں کو گھوڑے پر بیٹھنے سے منع کرے گا وہ سزا کا موجب ہو گا۔ان کے جا نشینوں نے بھی اس روایت کو قائم رکھنے کے لیے غیر مسلم اور ادنیٰ ذات سمجھے جانے والے افراد سے بھی حسنِ سلوک کیا۔نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کے دور میں ایک مرتبہ ’’یومِ شہادت‘‘ اور ’’ہولی کاتہوار‘‘ ایک ہی دن واقع ہو ئے تھے۔حکمرانِ وقت نے پہلے ہولی کے جلوس میں شرکت کی پھر محرم کے جلوس میں شامل ہوئے۔ اس طرح کی مثالوں سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ان حکمرانوں کے قول و فعل میں کہیںتضاد نہیں تھا۔ ان لوگوں نے مذہب و ذات پات، اعلیٰ و ادنیٰ کے فرق کو مٹا کر کئی غیر مسلم افراد کو نہایت اہم عہدوں پر فا ئز کیا اور قومی یکجہتی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال قائم کی تھی۔مہاراجہ چندولال کے علاوہ سرینواس رائو،راجا شیو راج بہادر،راجا ساگر مل اور مہاراجہ کشن پرشاد وغیرہ،ایسے بے شمار نام ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جو آصف جاہی سلطنت میں مختلف اور اہم عہدوں پر فائز تھے۔دراصل آپسی بھائی چارگی و رواداری شاہوں سے لے کر عام افراد کی زندگی کا اہم حصہ تھی۔مہاراجہ کشن پرشاد سے ہمارے خاندان کے اچھے مراسم تھے ۔جب وہ مدارالمہام کے عہدے پر فائز ہو ئے تو میرے دادا نواب شمشیر یاور جنگ نے عربی زبان میں ایک قطعہ معہ نذرانہ کے روانہ کیا ۔صحت کی نا سازی کی وجہ سے شخصی طور پر وہ ملنے سے قاصر تھے۔مہاراجہ نے اس کا جواب بھی بڑے خلوص سے عنایت فر مایا تھا۔ہمارے پڑوسی راجا ترمبک لال جو ڈاکٹر رام چندر ماہرِ امراضِ چشم کے برادر ِ نسبتی تھے۔ ان کے خاندان سے ہمارے تعلقات ہمیشہ نہایت مخلصانہ رہے۔
ہمارے مکانوں کے درمیان ایک مشترکہ دیوار تھی۔اس میں ہمارے بزرگوں نے ایک دروازہ لگا دیا تھا۔صرف اس لیے کہ شادی و بیاہ یا کسی تقریب کے دوراں اگر موسم خراب ہو جائے تو شرکت کرنے والے مہمانوں کو زحمت نہ ہو نے پائے۔اور مہمان ایک دوسرے کے گھر پر با آسانی قیام کر سکیں۔آج بھی اس خاندان سے ہمارے ویسے ہی روابط ہیں۔ قومی یک جہتی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تعلق سے آج اجلاسوں اور مختلف طرح کے پروگراموںکا اہتمام کیا جاتا ہے ۔خوب بیان بازیاں ہو تی ہیں۔لیکن فرقہ واریت کا جو زہر دلوں میں اس شدت سے بس گیا ہے کہ وہ نکل ہی نہیں پا رہا ہے۔ایسے دور میں حیدرآباد کے ماضی کی شاندار روایتوں کا احیاء اور مشترکہ تہذیب و قومی یکجہتی کی مثالوں کو نئی نسل سے متعارف کرنے کی کو ششیں قابلِ تعریف ہیں ۔
amtahseen123@yahoo.com