’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے زیر اہتمام کامیاب اردو کانفرنس و مشاعرہ

شفیع اقبال
ریاست تلنگانہ ، خصوصاً شہر حیدرآباد میں مختلف اداروں اور انجمنوں کی جانب سے اردو زبان و ادب کی بقاء ، ترویج و ترقی کیلئے نمایاں خدمات انجام دی جارہی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ سنجیدگی اور اہتمام کے ساتھ اردو خدمات شہر حیدرآباد میں انجام دی جارہی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ سنجیدگی اور اہتمام کے ساتھ اردو خدمات شہر حیدرآباد میں انجام دی جارہی ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ حیدرآباد کی ایسی نمائندہ اور کارکرد اردو انجمنوں کا تذکرہ ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے بغیر مکمل نہ ہوگا ۔ گزشتہ 18 سال سے شہر حیدرآباد میں وقفہ وقفہ سے اردو کانفرنسوں ، ادبی اجلاسوں اور کل ہند ، بین ریاستی اور مقامی مشاعروں کے انعقاد کے ذریعہ اس تنظیم نے ملک گیر شہرت حاصل کرلی ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ بانی و صدر ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ جناب عارف الدین احمد ، جو حرکیاتی شخصیت کے حامل ہیں ، کالجوں ، اسکولوں کے مسائل کی حکومت کے اداروں میں ہمیشہ نمائندگی کرتے رہے ہیں اور کئی ایسے مسائل ہیں جس میں انہوں نے کامیابی حاصل کی جس سے اسکولوں اور کالجوں نے بھرپور استادہ کیا ہے ۔

27 ڈسمبر کو ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کے زیر اہتمام 18 ویں ریاستی و دوسری کل ہند کانفرنس کا ’’ایسٹرن بلاک لیکچر ہال‘‘ سالار جنگ میوزیم میں انعقاد عمل میں آیا جس میں ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی ، پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی ، جناب محمد مرتضی علی فاروقی ، ڈپٹی کمشنر محکمہ آبکاری اور دیگر مہمانوں نے شرکت کی ۔ اس کامیاب کانفرنس میں ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی اور پروفیسر ایس اے شکور نے ریاست اور اردو کے مسائل پر سیر حاصل تقاریر کیں ۔ جناب شفیع اقبال چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’’پروانہ دکن‘‘ نے ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ اس کانفرنس کی صدارت جناب محمد مرتضی علی فاروقی نے کی ۔
شام 5 تا 9 بجے شب بمقام تراب علی بھون ، ویسٹرن بلاک ، سالار جنگ میوزیم میں جناب محمد مرتضی علی فاروقی کی صدارت میں دوسرے قومی یکجہتی کل ہند مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا ۔ اس مشاعرے کی نگرانی جناب عارف الدین احمد ، بانی و صدر ’’تنظیم تحفظ اردو‘‘ نے کی ۔ جناب شفیع اقبال نے مشاعرہ کی بحسن و خوبی نظامت کے فرائض انجام دئے ۔
مشاعرہ کا آغاز کرتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے حیدرآباد کے ابھرتے ہوئے شاعر جناب تشکیل احمد رزاقی کو دعوت سخن دی ۔ انکے شعر ملاحظہ فرمائیں۔

یاد آئے تو فرقت میں مچل جاؤں گا
اشک بن کر ترے رخسار سے ڈھل جاؤں گا
میں محبت ہوں قید نہ کر مجھ کو حدوں میں
توڑ کر پاؤں کی زنجیر نکل جاؤں گا
ان کے بعد ممتاز شاعر سلطان بن سعید کو مائک پر آنے کی دعوت دی گئی ۔
جب سے قریب ہو کے چلے ہیں کسی سے ہم
ہم سے ملی ہے زندگی اور زندگی سے ہم
دل کے بڑے ہیں اور ہیں ٹھنڈے دماغ کے
ملتے ہیں ہر کسی سے کشادہ دلی سے ہم
ان کے بعد ابھرتی ہوئی شاعری محترمہ ارجمند بانو کو زحمت کلام دی گئی ۔
دل کی روداد میں الفت سے مہک پائی ہے
اس کے ہر لفظ سے خوشبو وفا آئی ہے
اب کیسے غیر کہیں ، کون ہے اپنا بانوؔ
ہم جسے کہتے تھے اپنا وہی ہرجائی ہے
حیدرآباد کی محفلوں میں شرکت کرنے والے شاعر جناب قابل حیدرآبادی کو دعوت سخن دی گئی ۔ انہوں نے یہ اشعار سنائے ۔
ملت کے جواں سن کر ہوجائیں عمل پیرا
مسجد میں ترا وعظ خطبہ ہو تو ایسا ہو
ایمان کی دولت ہو ، اوصاف حمیدہ بھی
بچوں کیلئے اپنے تحفہ ہو تو ایسا ہو
مہمان شاعر ظہیر آتش (راجستھان) مائک پر آئے اور یوں غزل سرا ہوئے۔
گھر کے آئے گا کبھی تو اس طرف ابر بہار
دھوپ میں ہم نے بھی سائے کو پڑا رہنے دیا
دوستی سچی وفا کی کس کوملی ہے ہم سے مگر
خود کو ان خوش فہمیوں میں مبتلا رہنے دیا
ایک اور دوبئی کے مہمان شاعر اسد الرحمن ظفر کو دعوت سخن دی گئی جنھوں نے اپنے کلام پر داد حاصل کی۔

منزل کی تمنا ہے دل میں جائیں گے کدھر معلوم نہیں
رہبر کو رخ منزل تو کجا خود رہگذر معلوم نہیں
اب جناب سیف الدین غور سیف ، ظہیرآباد کو ناظم مشاعرہ نے کلام پیش کرنے کی دعوت دی ۔ان کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
زخم کھائے ہیں بہت اپنی ہی تلوار سے
خوب روئے ہیں لپٹ کے در و دیوار سے ہم
باہمی بغض و عداوت یہ تکبر کا جنوں
کھوکھلے ہوگئے ہیں اپنے ہی کردار سے ہم
جناب شکیل حیدر سے ناظم مشاعرہ نے کلام سنانے کی خواہش کی ۔ انہوں نے خوبصورت ترنم میں اپنا کلام پیش کیا۔
تھام لیتی ہے آ کے ماں کی دعا جب قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں
بھول جاتے ہیں ماں باپ کو سب بچے جب کچھ کمانے لگتے ہیں
کچھ جھونکے ہواؤں کے یہ ظلم بھی ڈھاتے ہیں
ہم شمع جلاتے ہیں وہ شمع بجھاتے ہیں
پھر حیدرآباد کی ممتاز شاعرہ محترمہ تسنیم جوہر نے مائک سنبھالا اور یوں غزل سرا ہوئیں ۔
دوا بنتا گیا درد نہاں آہستہ آہستہ
سکوں ہوتا گیا رخ سے عیاں آہستہ آہستہ
خموشی نے ستم ڈھائے ہماری بے گناہی پر
چلو تسنیم اب کھولیں زباں آہستہ آہستہ
ان کے بعد ممتاز شاعر و صحافی جناب شفیع اقبال نے اپنی غزل پیش کی اور داد حاصل کی ۔ اشعار ملاحظہ ہو۔

نام لکھ کر جو ترا جھیل میں پھینک پتھر
ایک اک نقش ابھر آیا ترا پانی پر
تم تو کاغذ پہ لکھا خطھ بھی سمجھ پا نہ سکے
ہم تو پڑھ لیتے ہیں ہر لفظ لکھا پانی پر
بیدر کے استاد و ممتاز شاعر جناب نثار احمد کلیم نے اپنے اشعار سنا کر داد حاصل کی ۔شعر ملاحظہ ہوں۔
دل کا جو راز تھا وہ کسی پر عیاں نہ تھا
کوئی بھی جاں نثار سر امتحاں نہ تھا
جانا نہیں تھا راز دل کوئی بشر یہاں
جب تک ہماری آنکھ سے آنسو رواں نہ تھا
حیدرآباد کے نامور استاد شاعر جناب صادق نوید نے قطعات اور غمل سنا کر داد و تحسین حاصل کی ۔ انکا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہر طرف ہے عجب سرور یہاں
ہر تجلی ہے رشک طور یہاں
کیمیاء کچھ ایسی خاک دکن
زرہ زرہ ہے کوہ نور یہاں
اس کامیاب مشاعرے کے اختتام سے قبل صدر مشاعرہ جناب محمد مرتضی علی فاروقی نے اردو کانفرنس اور مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر جناب عارف الدین احمد کو مبارکباد دی اور اردو شاعری کی ہمہ گیریت پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ ناظم مشاعرہ جناب شفیع اقبال کے شکریہ پر مشاعرے کا اختتام عمل میں آیا ۔