’’ایک کھانا ایک میٹھا ‘‘ واہ کیا بات ہے۔۔۔۔!

ڈاکٹر مرزا غلام حسین بیگ
ریٹائرڈ چیف میڈیکل آفیسریونانی

گذشتہ کچھ عرصہ سے اخبارات میں انسداد اسراف کی بابت بڑی امید افزا خبر یں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن سے یقین ہورہا ہے کہ محترم زاہد علی خاں صاحب ایڈیٹر روز نامہ سیاست کا چھیڑا ہوا ساز ماشاء اللہ اپنا رنگ جما رہا ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اللہ بزرگ وبرتر ہی ہر ایک کی نیت کو خوب جانتا ہے اور پھر نیت نیک ہو شرعی حدود میں ہو تو نہ صرف مدد فرماتا ہے بلکہ اس حد تک مدد فرماتا ہے کہ خود نیت کرنے والے کی پروازِ فکر کی رسائی بھی کامیابی کی اس منزل تک پہنچ نہیں سکتی۔مثلاً بانی شہرحیدرآباد نے نہ صرف نیت کی تھی بلکہ بارگاہ رب العزت سے دُعا بھی مانگی تھی کہ ان کا بسایا ہوا شہر اس طرح آباد رہے جس طرح مچھلیوں سے سمندر آباد رہتے ہیں۔چنانچہ اس دُعا اور نیت کا حاصل ہماری آنکھوں کے سامنے اس حد تک وجود پاچکا کہ حکومتیں ٹرافک میں سہولت کے لئے کہیں زیر زمین راستے بنارہی ہے تو کہیں فضاؤں میں زمینیں اُبھاری جارہی ہیں۔

جب سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی یعنی’’گذارش بسلسلہ انسداد اسراف‘‘ سے متواتر اہل قلم حضرات نے اپنے اپنے انداز ِفکر کے مطابق اپنے اپنے قلم کو زحمتیں دیں مثلاً صف اوّل کے جرنلسٹ جناب رشید الدین صاحب ،صف اول کے قانون داں اور قلمکار جناب عثمان شہید صاحب، ابھی چند دن قبل محترمہ ڈاکٹر اودیش رانی صاحبہ،محترم جناب محمد عباس انصاری صاحب سکندر،ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب،محمد مظہر حسین صاحب ورنگلی، یس ایم حسین صاحب،محمد فاروق صاحب،باقر موسوی صاحب،اے پی اُردو فورم وغیرہ وغیرہ۔ اب تو محترم زاہد علی خان صاحب ہی کی سرپرستی میں تحریک مسلم شبان نے اس تحریک کو ’’ایک کھانا ایک میٹھا‘‘ کے عنوان تلے تھاما ہے جو یقینا ایک خوش آئند امر ہے۔زاہد علی خان صاحب نے اپنے اخبار کے ۴؍ ڈسمبر۲۰۱۲ء؁ کے شمارے میں جلی حروف سے شائع فرمایاتھا کہ’’آؤ نکاح کو آسان بنائیں‘’ پھر۵؍اکٹوبر۲۰۱۳ء؁ کی اشاعت میں جلی رنگین حروف میں ہی اعلان تھا کہ’’کھانے کی شادیوں کا بائیکاٹ کیا جائیگا‘‘ اس اعلان کو پڑھ کر میرا احساس مستحکم ہوا کہ اب ہمارے سماج کی اوسط اور غریب طبقہ کی لڑکیوں کے اچھے دن بہت قریب آچکے ہیں اور میرے اس احساس کو گذشتہ ہفتہ عشرہ سے مزید تقویت کے ساماں مہیا ہورہے ہیں کیونکہ اس تحریک کو کم و بیش دوڈھائی سال بعد مضبوط شانو ں نے سہارا دینے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔میںنے اپنے نحیف وناتواں قلم سے اس عنوان کے ذیل میں اپنی فکری سطح کے مطابق اسی روز نامہ میں معتدد مضامین مثلاً اسراف معاشرہ کے لئے کینسر،اکابرین ملت توجہ فرمائیں، اہل زر خانہ مفلس میں کہاں جھانکتے ہیں،آہ اسراف کا پھندہ اور مومن کی گردن، تو نے کس دل کو دکھایا ہے تجھے کیا معلوم، دست سوال سینکڑوں عیبوں کا عیب ہے ،محترم زاہد علی خاں صاحب کی سرپرستی انسداد اسراف کی طمانیت، انسان خواہشات کا غلام،تقاریب میں اسراف کی لعنت ختم ہونی چاہئے،کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی، واعظ محترم رہ گئے، بنام عدل بھوکوں کوغذا تھوڑی سی مل جاتی وغیرہ وغیرہ۔لیکن جب ۱۵؍ اکٹوبر۲۰۱۳ء؁کو زاہد علی خان صاحب نے جلی حروف کے ذریعہ بائیکاٹ کا اعلان فرمایا میں نے دوسرے ہی دن صبح اپنے چند ہم فکر احباب کے ہمراہ دفتر جاکر اظہارِ مسرت وتشکر کے ساتھ محترم کی گلپوشی کا شرف حاصل کیا۔

یہ کم و بیش تین چار دہائیوں سے ہماری ملت کے لئے مستقل ناسور جیسا مرض بن چکا تھا۔دولت مندوں کے اور خاص طور پر نو دولتیوں کے پیر زمین پر نہیں سنبھل رہے تھے۔اب جبکہ زاہد علی خاں صاحب کی سرپرستی میں’’تحریک مسلم شبان‘‘ اس دیرینہ مسئلہ کے حل کا بیڑا اٹھائی ہے۔ہمیں قوی اُمید ہے کہ مستقبل قریب میں انشاء اللہ اس کے بہت مفید نتائج برآمد ہوں گے۔عرب ممالک کے دروازہ کھلنے تک ہمارے یہاں دوقسم کی شادیوں کا رواج عام تھا۔دیہی علاقوں میں جو شادیاں ہوا کرتی تھیں اُن کے اوقات عموماً صبح کے ہوتے تھے۔صبح دس گیارہ بجے عقد نکاح کا عام رواج تھا اور صبح تا نصف النہار کھانے کا انتظام رہتا۔کھانے میں ایک سوکھا گوشت کا سالن، دوسرا پتلا سالن، بگھارا کھانا اور کوئی ایک معمولی میٹھا۔بازو کے ایک دو گھر پروانگی پر ایک دن کے لئے حاصل کئے جاتے اور زیادہ سے زیادہ گھر کے سامنے والے حصہ کو ڈیرے اور قناتو ں سے گھیرا جاتا۔تین چار بجے دلہا دلہن کو لیکر باراتیوں کے ہمراہ روانہ ہوجاتا۔شہر میں بھی کم و بیش چالیس سال قبل تک بھی شادی خانوں کا نام ونشان تک نہ تھا۔شادی کے لئے قرب و جوار کا کوئی کشادہ مکان یا پھر کسی دیوڑھی کا کوئی حصہ روابط کی بنیاد پر حاصل کیا جاتا، شام سات آٹھ بجے نکاح کے رسوم مکمل کئے جاتے،چائے بسکٹ یا پھر آئسکریم سے مہمانوں کی تواضح کی جاتی اور دلہا والوں کے مخصوص پچیس تیس مہمانوں کے لئے کچھ میوا جات کیک پیشٹر ی کا الگ انتظام کیا جاتا،البتہ شادی کے دوسرے دن صر ف دلہن کو صبح گیارہ بجے میکے لایا جاتا اور رات آٹھ نو بجے دلہن کے گھر دلہا کے بمشکل سو دیڑھ سو افراد آکر کھانا کھاتے اُس کھانے میں بھی زیادہ سے زیادہ لقمی کباب بریانی،سالن اورایک میٹھا رکھا جاتا اور گیارہ بارہ بجے دلہن کو دلہا اپنے ساتھ لیکر چلا جاتا۔پھر دوسرے دن والے کھانے کو یا دعوت کو نا جانے کیوں چوتھی کی دعوت کا نام دیا جاتا تھا۔

آج ہمارے شہر میں گھر پر شادی کا رواج گویا کبھی تھا ہی نہیں جیسا مضحکہ خیز ہوگیا ہے، بلامبالغہ کروڑوں روپیوں کے شادی خانے تعمیر ہوچکے ہیں جن کاکرایہ چند گھنٹوں کے لئے پانچ پانچ دس دس لاکھ روپیوں تک لئے جارہے ہیں پھر لاکھوں روپیوں کے دلہا دلہن کے اسٹیج جن کی تزئین کے لئے ممبئی سے کاریگر طلب کئے جارہے ہیں اور کھانے میں دس دس بیس بیس لوازمات چار چار چھ چھ میٹھے،اس طرح صرف کھانے پر پندرہ بیس بیس لاکھ خرچ کئے جارہے ہیں۔بعض شادیوں کے جملہ اخرجات ایک دو کروڑ تک بھی ہورہے ہیں۔ان اخراجات کے حصول کے صرف تین راستے ہیںایک تو یہ کہ زندگی بھر محنت کرکے کمایا ہوا روپیہ یا جائیدادوں کی فروختگی یا پھر ادا کرنے کی بیجا اُمید پر سودی قرض۔دوسرا پہلو ملاحظہ کیجئے نوشہ ڈاکٹر ہے ،انجینئر ہے،گریجوائٹ ہے،پوسٹ گریجوائٹ ہے ملک کے اندر ہے، باہر ہے،بہرحال کچھ بھی ہے کہیں بھی ہے لیکن کچھ ہو یا نہ ہو لیکن سفید پوشاک میںگزیٹیڈ بھکاری ضرور ہے اور اس حد تک بے شرم اور بے حیاء بھی ہے کہ ماں بہنوں کو ذاتی یا کرایہ کی موٹر میں بیٹھا کر لڑکی والوں سے بھیک مانگنے ضرور بھیج رہے ہیں۔بے گھر ہے،پلاٹ دیجئے۔پیدل ہے، موٹر یا موٹر سیکل دیجئے۔نیچے سورہے ہیں، مسہری دیجئے۔صبح اُٹھ کر اپنی بے شرمی دیکھنے آئینہ نہیں ہے ،ڈریسنگ ٹیبل دیجئے۔بہرحال مطبوعہ فہرست کو نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔بھائی صاحب جب آپ اپنی عملی زندگی کی ابتداء بھیک سے کررہے ہیں تو پھر اچھے اور باعزت مستقبل کی اُمید کہاں تک جائز ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ فرمارہا ہے کہ’’اسراف کرنے والے کو میں پسند نہیں کرتا،اسراف کرنے والے جہنمی ہے۔اسراف کرنے والے فرعون کے ساتھ محشورہوں گے۔‘‘ کلام الٰہی میں تو اعراب کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں تو پھر ہمارے مبلغین، مفسرین، حفاظ، ذاکرین، مفتیان اکرام،خطبہ صاحبین،معمولی معمولی مفادات جیسے نذرانوں،بریانیوں،قدم بوسیوں،دست بوسیوں اور اخبارات میں عباؤں اور قباؤں میں ملبوث تصاویر جیسی حقیر چیزوں کے لئے اتنے واضح احکام الٰہی کو فرموش فرمارہے ہیں اور کب تک ان ملت مسلمہ کو تباہ و تارج کرنے والے زہریلے اُمور سے ملت کو روکنے کاباز آنے کا سبق نہیں پڑھائیں گے کیونکہ قوم کی اکثریت تو انگوٹھا ماسٹر ہے جب کہ آپ چڑی بیٹھانے کے ماہر ہیں۔محترم احمد فراز مرحوم کے ایک شعر کو اس عنوان سے ربط دیکر ہر برادر مومن کو حسب استطاعت ضرور کوشش کرنی چاہئے جس سے یقینا مثبت نتائج کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ فرماتے ہیں ؎
شکوہِ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جائیں
ہاں اعظم فنکشن ہال والے جلسہ کی صدارت میں زاہد علی خان صاحب نے ایک بہت ہی مفید خیال ظاہر کیا تھا کہ دوسرے اخبارات کے مدیر صاحبان سے بھی اس بابت مشورے حاصل کئے جائیں گے میرا بھی مشورہ ہے کہ اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے دوسرے بھی صحافیوں سے تعاون حاصل کیا جائے تو یقینا بہتر توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ کسی بھی تحریک کو شروع کرنا آسان ہے جبکہ اس کو زندہ رکھنا اور آگے بڑھانا اتنا آسان نہیں۔
ایک کھانا ایک میٹھا زندہ باد
لڑکی اور لڑکے والے ہمیشہ شاد وآباد