حلیم بابر
دورِ حاضر میں بقائے ادب و تحفظ اردو کیلئے محبان اردو ، شعراء و ادبا و ادبی تنظیموں کے ذمہ دار احباب اپنے اپنے انداز میں کام کر رہے ہیں جو قابل ستائش اقدام ہے ۔ حیدرآباد و اضلاع کی انجمنیں مختلف عنوانات پر جلسوں، مشاعروں، سینما و اردو میڈیم طلباء کے معیار کو سنوارنے میں ا قدامات کر رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو میڈیم طلباء کا معیار دن بدن گھٹتا جارہا ہے ۔ اردو میڈیم اسکولس میں جماعتیں ختم کیجارہی ہیں ۔ چونکہ ان جماعتوں میں خاطر خواہ طلباء کی تعداد کا حصول مشکل بن گیا ہے ۔ دانشورانِ ملت نے اس خصوص میں اساتذہ کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ مشاہدہ میں بات آتی ہے کہ اکثر مقامات پر اساتذہ اتنی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں جتنی کے درکار ہے۔ اس کی وجہ سے اردو کا مقام مستحکم ہونے سے قاصر ہے۔ آج وقت کا تقاضہ ہے کہ اس خصوص میں توجہ دی جائے اور اردو کے مقام کو مستحکم بنانے کیلئے پر اثر اقدامات کئے جائیں۔ قابل ستائش ہے انجمن ترقی اردو ، اردو اکیڈیمی اور بالخصوص عابد علی خاں ٹرسٹ کی خدمات جس کے ذریعہ بے شمار طلباء و طالبات ، معمر حضرات اردو سیکھ رہے ہیں ۔ جہاں تک ادبی انجمنوں کا تعلق ہے، وہاں دیگر انجمنوں کے ساتھ ایک قدیم نمائندہ تنظیم انجمن بقائے ادب کا بھی نام آتا ہے جو تقریباً زائد از 4 دہوں سے اپنا سفر بڑی خوش اسلوبی سے طئے کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے صدر جناب عارف الدین ہیں جو اردو کی بقاء و فروغ میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ اس انجمن کے آغاز سے آج تک معتمد عمومی کی حیثیت سے ممتاز شاعر ادیب جناب ضیا عرفان حسامی ہیں جو اس خطیب کی حیثیت سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ممتاز عالم دین مولانا عاقل حسامی کے چہیتے مرید کی حیثیت سے ا پنی شناخت بنالی۔ مولانا کی خصوصی سرپرستی نے انہیں خوب نکھارا۔ ان کے انداز تخاطب میں مولانا کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جو متاثر کن ہوتی ہیں۔ اس انجمن کے زیر اہتمام پابندی کے ساتھ مختلف عنوانات پر جلسوں اور شاعروں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے جس میں سیرت النبیؐ عنوان پر مقدس راتوں ، عہدوں کے موقع پر جلسے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اولیائے کرام ، خلفائے راشدین و صحابہ کرام کی سیرت پر خصوصیت کے ساتھ جلسے و مشاعرے منعقد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس انجمن کا مقام بہت معتبر حیثیت رکھتا ہے ۔ انجمن بقائے ادب کے علاوہ جناب ضیا عرفان حسامی نے احساس عمومیت کو اپناتے ہوئے ایک اور ادبی تنظیم ’’اپنا شہر اپنے لوگ‘‘ کے نام سے حیدر آباد میں قائم کی ہے اور ایک عرصہ سے اس کے زیر اہتمام بھی جلسے و مشاعرے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے سرپرست الحاج اقبال بابا کملیہ ہیں ۔
سیرت النبیؐ جلسوں اور اولیائے کرام کے جلسوں کے انعقاد کو اپنا مقصد حیات سمجھتے ہیں اور بڑی عقیدت و احترام سے جلسوں اور شاعروں کا اہتمام اپنے دواخانہ پر کرتے ہیں جو ایک قابل تحسین عمل ہے ۔ اس تنظیم کے صدر پیر طریقت حضرت مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین حسینی ر ضوی قادری شرفی (مرحوم سابق سجادہ نشین بارگاہ شرفی چمن حیدر آباد ، کئی برسوں تک رہے اور سیرت النبی جلسوں اور نعتیہ مشاعروں کو بڑی عظمت و احترام سے منعقد کرتے رہے جس کی یاد آج بھی دلوں کو تڑپاتی ہے ۔ جناب ضیا عرفان حسامی سے مولانا جمیل الدین شرفی سے گہرے مراسم تھے جس کو بڑی خوش اسلوبی سے دونوں نے نبھایا۔ اپنی رعب دار آواز و صلاحیتوں کی بناء جناب ضیاء عرفان اایک اچھے ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ حضرت مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین شرفی مرحوم کا انتقال بالخصوص نعت گو شعراء کیلئے ایک نقصان عظیم سے کم نہیں۔ شرفی چمن حیدرآباد و ریاست نگر کے نعتیہ مشاعرے بڑے عقیدت و احترام سے منعقد ہوا کرتے جس میں ضیا عرفان حسامی انجمن بقائے ادب کی جانب سے نمائندگی کرتے۔ ضیا عرفان حسامی چند برس تک تعلقہ گدوال میں ملازمت کی اور یہاں پر سیرت النبی جلسوں اور نعتیہ مشاعروں کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں کے شعراء کو انہوں نے حیدرآباد بھی مدعو کیا ۔ اس طرح انجمن بقائے ادب حیدرآباد نہ صرف حیدرآباد بلکہ گدوال میں بھی معتبر حیثیت کی حامل تھی ۔ اس دور میں ضلع کرنول کا ادبی ماحول بھی بڑا خوشگوار تھا۔ یہاں پر کئی نامور شعراء موجود تھے ۔ بالخصوص استاد فارسی و اردو کے شاعر حضرت یسیر کرنولی کا وجود کرنول کیلئے ایک ادبی سرمایہ سے کم نہیں تھا ۔ وہاں کے مشاعروں میں بھی ضیا عرفان و انجمن بقائے ادب سے وابستہ شعراء کے ساتھ شرکت کیا کرتے تھے جن میں مسرز حلیم بابر ، عبدالرحمن تبسم ، عبدالکریم نادان ، عطاء اللہ تراب ، ڈاکٹر خالق اختر شامل تھے ۔ اس دور میں جناب ضیا عرفان اپنی انجمن کے مشاعروں میں حضرت اوج یعقوبی ، یسیر کرنولی کے علاوہ دیگر شعراء کو بھی مدعو کرتے رہے۔ اس طرح یہ انجمن دن دوگنی رات چوگنی بام شہرت پر پہنچ گئی ۔ آج بھی انجمن بقائے ادب کے معتمد عمومی ضیا عرفان حسامی بڑے اہتمام سے محفلیں سجاتے ہیں جو کبھی اردو گھر ، مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ و مسدوسی ہاؤز کے علاوہ اپنے دولت خانہ پر بھی منعقد ہوتی ہیں اور شعرائے کرام و محبان اردو کی بہتر انداز میں مہمان نوازی کرتے ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ انجمن بقائے ادب کی یہ سرگرمیاں بدستور جاری رہے گی اور علمائے کرام ، شعراء کیلئے کی قدردانی و پذیرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی اور جلسوں اور مشاعروں کا انعقاد پوری آب و تاب سے جاری رہے گا اور دنیائے علم و ادب اس ادارہ کی سرگرمیوں پر ناز کرتی رہے گی۔