’دل کہتا ہے ‘… ایک مطالعہ

محمد حمید الظفر
’’ دل کہتا ہے‘‘ نادرالمسدوسی کے جذبات اور احساسات کا ایسا مرقع ہے جس میں ہم شفاف آئینہ کی طرح ان کے اندرونی کرب اور ذہنی کیفیت کا بہ آسانی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
وہ شحص مرے دل سے بچھڑ کر چلا گیا
آہٹ سی کوئی ذہن کے دیوار و در میں ہے
ہوئی ہے زندگی نادر پہ بھاری
وہ جیتا کم ہے اور مرتا بہت ہے
دل کہتا ہے … وہی نقش ہے جو دل کی گہرائیوں سے نکل کر صفحہ قرطاس پر قلم کے ذریعہ جب اُبھر کر سامنے آتا ہے تو نادر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
وہ کون ہے میں کس کیلئے بے قرار ہوں
اے زندگی بتا میں بھلا کس کا پیار ہوں
نادر کی آواز آخر اثر انداز کیوں ہوتی ہے ؟ اس لئے کہ وہ دل کی آواز ہے اور یہی اُن کے مشاہدات کی ترجمان بھی ، جو ذہن کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔
زمیں پر کونسا سورج اُتر گیا آخر
اُجالا دن کا اندھیروں کی راہ چلتا ہے

نادر بنیادی طور پر حساس تخلیق کار ہیں، ان میں بچپن ہی سے تخلیقی جو ہر تھا یہ گوہر انہیں وراثت میں ملا ہے، ان کے والد بزرگوار مولوی علی المسدوسی ایک اچھے نعت گو شاعر تھے ۔ نادر نے ابتداء میں شعر تو تخلیق نہیں کئے لیکن اشعار کو سننے اور یاد کرنے کا شوق و ذوق رکھتے تھے ۔ اسکول کے زمانے سے ہی وہ بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے ، اسی دور میں ہونے والے تحریری و تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے ہوئے کئی ایک انعامات بھی حاصل کرچکے ہیں ۔ یہی رجحان انہیں تخلیق کی طرف لے چلا اور انہوں نے نثری میدان میں قدم رکھا ۔ اُن کا پہلا مضمون رہنمائے دکن میں 80 کے دہے میں شائع ہوا ، ان کا یہی ذوق جب پروان چڑھا تو ان کی پانچ نثری کتابیں تفہیم الایمان ، عکس محبوب نگر ، فکر و آگہی ، گلدستہ شخصیات اور روشنی کا سفر شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان نثری تخلیقات میں اسلامی فکر و افکارات ، ماضی کی درخشاں تاریخ ، ملت کی زبوں حالی ، نوجوانوں کے کردار اور اُن کی اصلاحی تربیت اور ادبی شخصیات کے انمٹ نقوش اور اُن کی تخلیق کے روشن پہلوؤں کو نادر نے بہت خوبصورتی سے ان تصانیف میں پیش کیا ہے ۔ خصوصاً عکس محبوب نگر نثر میں اُن کی ایسی کتاب ہے جس میں صرف ایک ضلع کی تصویر کشی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی تہذیب کی عکاسی ہے ۔ نثری تخلیقات کے بعد ان کی پہلی شعری تخلیق ’’دل کہتا ہے ‘‘ ہے، جس میں نادر نے ا پنے دل کی آواز کو پیش کیا ۔ دل ایک ایسی علامت ہے جو صرف تخلیق کار کی انفرادی آواز نہیں کہلاتی ہے، بلکہ اجتماعی ہوتی ہے جس کی دھڑکنیں کسی مظلوم کی آہوں کی آواز سناتی ہے ، کسی محبت بھرے جذبے کی سوغات سناتی ہے ۔ محفل عشرت و نشاط کی معطر فضاؤں کو زمانے کے سامنے بکھیر دیتی ہے، جیسے اُن کے مندرجہ ذیل اشعار میں صاف محسوس کرسکتے ہیں ۔

سونا پڑے گا رات کی بانہوں میں اس لئے
تنہائی کی پھٹی ہوئی چادر جو گھر میں ہے
جذبۂ عشق کو وہ اور ہوا دیتی ہے
میرے سینے میں لگی آگ بڑھا دیتی ہے
بہت حسین ہے دن سے یہ رات کی خوشبو
ترے خیال سے دل میں مہک اٹھی خوشبو
نادر کی شاعری میں اسلامی فکر و افکار کی جھلکیاں نمایاں دیکھی جاسکتی ہیں، وعظ و نصیحت کرنا ایسا لگتا ہے کہ ان کی فطرت میں داخل ہے ۔ یہ ایک اچھے خطیب ہی نہیں اچھے نثر نگار بھی ہیں جن کی نگارشات اسی فکر کی غماض ہیں۔ نثر کے ساتھ شعری سرمایے میں اضافہ ان کی ایک نئی پہچان ہے ۔ حیدرآباد کی موجودہ ادبی دنیا میں نادر نے اپنی شناخت کو منوایا ہے ۔ اس دور میں کوئی کسی کو مانتا نہیں منوانا پڑتا ہے اور یہ خوبی نادر میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ نادر بہت ہی بے باک اور راست گو انسان ہیں کوئی بھی ادبی ’مذہبی ‘ سماجی محفل ہو وہ حق کی بات ببانگ دہل کہہ جاتے ہیں جس طرح انہوں نے کہا ہے۔

کب تلک دنیا کی خوشیاں کب تلک یہ شور و شر
آخری منزل میں ہے اب تو خدا کا نام لے
سورج کو بھی تو آنکھ دکھانے کیلئے آ
بستی میں لگی آگ بجھانے کیلئے آ
بہت کچھ ہوچکا ہے دین کا اب ترجماں ہوجا
زمیں بارود کا اک ڈھیر ہے ، تو آسما ہوجا
ویسے تو جم گئی ہے سروں پر بموں کی دھول
ہنس ہنس کے پھر بھی جیتے ہیں عزم جواں سے ہم
شاعری کا یہ پہلا مجموعہ اس حیثیت سے بھی اہم ہے کہ انہوں نے جدید لب و لہجہ کے ممتاز شاعر جناب اثر غوری کے شاگرد کی حیثیت سے روایتی انداز کے لبادہ میں جدید فکر و فن کو شاعری میں ایک نئے روپ میں پیش کیا ہے۔ 1960 ء کے بعد اور خصوصاً حیدرآباد میں جدیدیت کا رجحان پروان چڑھنے لگا۔ ترقی پسندوں کی تحریک کے نتیجے میں مسائل کو پیش کرنے کیلئے نظم کا سہارا لیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ترقی پسندوں کی نظر میں غزل صرف عشق اور عاشقی کا ذریعہ اظہار رہی اور صرف حسن و عشق کے ہی معیار کو غزل قرار دیا گیا تھا کسی سماجی موضوع یا مسائل کو وسیلہ نہیں بنایا گیا تھا لیکن جدیدیت نے غزل میں جو تجربات کئے اس سے اردو ادب عالیہ کے شعری سرمایہ میں عصری رجحانات پنپنے لگے ۔ صنف غزل میں پہلے ہی سے حسن و عشق اور تصوف کا اثر تو تھا ہی لیکن جدیدیت نے غزل کی ہیئت اور موضوعات کو یکسر بدل دیا۔ سماجی ، معاشی بلکہ سیاسی مسائل بھی غزل میں پنپنے لگے اور اس بہتر انداز میں پنپنے لگے کہ غزل کا نیا روپ بہت ہی مقبولیت کا باعث رہا جس کا آج بھی اثر ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ترقی پسندوں کے اشتراکی نظریہ کے برعکس جو نظم میں پیش کیا جاتا تھا ، وہی رجحانات غزل میں آج انسان کے مرکزی وجود کا احساس دلاتے ہیں۔

نادر نے ’’دل کہتا ہے‘’ میں دل کی گہرائیوں کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار بڑی ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ یوں کیا ہے ۔
مری بھیگی ہوئی پلکوں پہ یہ آنسو ہیں گواہ
مری بخشش کے ہیں سامان رسول عربیؐ
جذب آنکھوں میں ہوا گنبد خضریٰ نادر
آپ کا ہوں میں ثنا خوان رسول عربیؐ
در سے تمہارے ملتی ہے ہر ، ہر خوشی اُسے
ہے جو تمہارے در کا گدا خوش نصیب ہے
اور اس طرح نادر نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شوق غلامی کا جو اعزاز حاصل کیا ہے وہ کوئی نئی بات تو نہیں کیونکہ غلامانِ مصطفیؐ کا درجہ بہت بڑا ہے ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کو یہ کہہ دیں کہ یہ اُمتی اُن کا غلام ہے تو یہی اُس کی سب سے بڑی خوش نصیبی اور بخشش کا باعث ہوتی ہے۔ نادر نے اپنی نعت میں اسی غلامی کے اعزاز کو بڑی شان سے بیان کرتے ہوئے اپنی نجات کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ
جو بھی ہے سرکارؐ کا فیضان ہی فیضان ہے
میں غلام مصطفیٰؐ ہوں یہ مری پہچان ہے
نادر ذرا یہ بات بتا دو جہان کو
ہوتا ہے آپؐ پر جو فدا خوش نصیب ہے

’’دل کہتا ہے‘‘ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جو قاری کو ایک فکر عطا کرتا ہے ، عمل کی ترغیب دیتا ہے ، پاکیزہ جذبہ کو فروغ دیتا ہے اور صالح معاشرہ کی تعمیر میں رہنمائی کرتا ہے۔نادر ایک سماجی جہد کار ہیں۔ سماجی اور اصلاحی تحریکات میں وہ حصہ لے چکے ہیں۔ (بحوالہ قدم قدم منزل ۔ مرتب یوسف روش) نادر نثر کی طرح شاعری میں اپنی شناخت منوا چکے ہیں۔ دوردرشن ، آل انڈیا ریڈیو ، ای ٹی وی اردو اور کل ہند مشاعروں میں حصہ لے کر اپنی شاعری کے ذریعہ انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے ۔ اسی طرح ان کا کلام حیدرآباد کے مؤقر روزناموں ، پندرہ روزہ اور ماہناموں کے علاوہ ملک کے مختلف مقامات سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد میں بھی شائعء ہوتا رہتا ہے۔ یہ مجموعہ بھی یقیناً قارئین کو پسند آئے گا۔ چھوٹی بحر میں غزلوں کو پیش کرنا نادر کی ایسی کوشش ہے کہ وہ اپنے خیالات کی ترسیل عام ذہنوں تک بہ آسانی سے کرتے ہیں۔
ہر قدم میرا امتحان میں تھا
میرا جذبہ مگر اڑان میں تھا
بچ گیا خون جو بھی لفظوں میں
یہ غزل مانگتی رہی مجھ سے
یادوں کی نکہتوں نے ، بہاروں نے ، چاند نے
میری غزل کو خوب نکھارا کبھی کبھی

نادر کا یہی فن مقبولیت کا باعث ہے ۔ وہ فکر ہی کیا جو عام آدمی کو متاثر نہ کرسکے۔ نادر اس معاملے میں بہت کامیاب ہیں کہ وہ اپنے خیالات اس طرح قاری تک پہنچانے کی سعی کرتے ہیں جو کامیابی کی دلیل ہے لیکن بڑی انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔
یہ کس کی دین ، کس کی عطا ، کس کی شان ہے
قوت مری اڑان کی جو بال وپر میں ہے
بہرحال نادر المسدوسی کو ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’دل کہتا ہے‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے اس دلنشین شعر پر اپنی گفتگو کو ختم کرتا ہوں کہ :
کون ہے شعر کی سوغات لئے نادر کو
صبح ہوتے ہی درِ دل پہ صدا دیتا ہے