EVMs میں عدم اعتماد یا پھر بی جے پی سے شکست کا خوف ؟
ایس وائی قریشی سابق چیف الیکشن کمشنر )
اپوزیشن پارٹیز بشمول کانگریس نے بیلٹ پیپر طریقہ کار کی واپسی پر زور دیا ہے یا پھر (VV PATs) طریقہ کار کو اپنانے کا مشورہ دیا ہے جس میں کم از کم 30 فیصد ووٹوں کو کراس چیک کیا جاتا ہے ۔ پیر کو بلائے گئے آل پارٹیز میٹ جس کا اہتمام الیکشن کمیشن نے کیا تھا انتخابی اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا لیکن بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن محض اپنی شکست کے خوف سے ای وی ایم کی مخالفت کررہی ہے۔ اس سوال پر کہ 2019 ء انتخابات میں پیپر بالٹ کے استعمال کی مخالفت کی وجہہ کیا EVMs ناقابل بھروسہ ہیں یا پھر اپوزیشن کو بی جے پی سے شکست کاخدشہ ہے ؟ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ EVM کی مخالفت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اُس کی عمر ہے اب سوال یہ ہے کہ ای وی ایم کے استعمال کی مخالفت کی وجہ نئی ٹکنالوجی کے استعمال کی مخالفت ہے یا پھر یہ خیال کارفرما ہے کہ مسٹر مودی اس مشین میں اُلٹ پھیر کرسکتے ہیں اس کا جواب شائد دونوں استدلال کے جواب میں مضمر ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُس کی مخالفت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ یہ مشن کی ایجاد کیونکہ اس کے استعمال کے بعد سے مختلف پارٹیوں بشمول بی جے پی نے اس کی مخالفت کی ہے بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ جی وی ایل نرسمہا راؤ کی تصنیف جس کا عنوان ’’ڈیموکریسی اٹ رسک 2010 ء ‘‘کی اشاعت کے بعد بی جے پی نے ہی پرزور مخالفت کی تھی ۔
خود سبرامنیم سوامی نے بھی دہلی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ان مشینوں کے استعمال کی مخالفت کی تھی ۔ 2013 ء میں اپیکس کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس بیان کے بعد جس میں تیقن دیا گیا تھا کہ (VVPATs) کے تعرف کرنے پر غور کیا جارہا ہے جس کا اہم مطالبہ ہے ڈسمبر 2010 ء میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام پارٹیوں کی ایک میٹنگ بلائی گئی تھی جس میں تمام پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کے اس تیقن کے بعد وہ 2014 ء سے (VVPATs) کے استعمال پر راضی ہوگئے تھے اور اس طریقہ کار کے تحت 2014ء سے تمام انتخابات سب ہی پرسکون طریقہ سے انجام دیئے گئے لیکن اپوزیشن کی جانب سے اچانک اس کی مخالفت کا آغاز کیوں ہوگیا ۔ کئی قائدین کا خیال ہے کہ اُترپردیش چناؤ اور ضمنی چناؤ کے نتائج کچھ عجیب و غریب تھے اور سارے نتائج کی پیشن گوئیاں (خلاف توقع) تھے ۔ اس کی وجہ سے بعض نقادوں کو یہ شک ہوگیا کہ مشینوں میں بے قاعدگیاں ضرور ہوئی ہیں اور وہ مشین وزیراعظم کے جادوئی اثر کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے ۔ کرناٹک اور اُترپردیش کے حالیہ انتخابات و ضمنی انتخاب میں بعض ای وی ایم مشینوں میں کئی خرابیوں کو نوٹ کرتے ہوئے اس پر تنقید کو مزید تقویت حاصل ہوئی ۔ جمہوریت دراصل سسٹم میں بھروسہ اور ادراک کا نام ہے۔ سیاسی قائدین کی جانب سے اُس کے خلاف چیخ پکار کے باعث عام عوام میں اس مشین کے بارے میں اعتماد کم ہوتا جارہاہے اور الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو مدعو کریں اور اس کے خصوصیات سے روشناس کرائیں تاکہ عوام تک اُس کا ردعمل پہنچ پائے ۔
بھراتندرا سنگھ ۔ ایم پی ( بی جے پی )
پیپر بالٹ کا مطالبہ دراصل کچھ نہیں سوائے ایک سیاسی چال کے
پیپر بالٹ کا استعمال بالکل غیرعملی ہے ۔ انتخاب کے طریقہ کار کا میں بھی ایک حصہ رہا ہوں۔ ووٹس کی گنتی اور اُن کی علحدگی کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے اور کبھی کبھار 24 گھنٹے بھی درکار ہوتے ہیں اور یہ ایک بہت ہی طویل طریقہ کار ہے اور سیاسی ورکرز کیلئے ای وی ایم بہت ہی سہولت بخش ہے ۔ علاوہ ازیں معمولی سی کاغذ کی غلطی کو بھی الکشن کمیشن کی مدد سے فوراً ہی درست کرلیا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کوشش کرے کہ یہ غلطی دوبارہ واقع نہ ہو اور کاغذی انتخاب قابل احتساب اور شفاف ہوتا ہے اور ایک چیز قابل ذہن نشین کرنی چاہئے کہ پیپر بیلٹ کے باعث چونکہ ہر پولنگ اسٹیشن پر لاکھوں لوگوں کی آمد ہوتی ہے چنانچہ کام کی نوعیت بہت ہی وسیع پیمانہ پر کرنی پڑتی ہے ۔
اپوزیشن کو غور کرنا چاہئے کہ بالفرض ای وی ایم کے ذریعہ مرکز میں بڑے پیمانہ پر دھاندلیاں کی گئیں تو حکمراں پارٹی دہلی اور پنجاب میں کس طرح شکست کھاگئیں۔ اگر حکومت اپنا اثر و رسوخ ڈالی تو پھر ناکام کیوں ہوگئی ؟ اور اس قسم کے نتائج یوپی کے ضمنی انتخابات میں بھی سامنے آئے ہیں اور وہاں پر ای وی ایم کے خلاف اعتراض کیوں نہیں کیا گیا ؟ اور یہ سونچنا بھی غلط ہے کہ ای وی ایم میں دھاندلی ہوسکتی ہے لیکن پیپر بالٹ میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ جس میں بوتھ پر قبضہ کرلینا عام شکایت ہے ۔ اگر سنٹرل فورس کی نگرانی نہ ہو تو بوتھ پر قبضہ کی شکایت عام ہے ۔
فی الوقت سب سے اہم ضرورت انتخابات کو کفایتی بنانے کی ہے اور ہم ٹکنالوجی کے بروقت استعمال پر کاربند ہیں ۔
پریانکا چترویدی ۔ کانگریس قومی ترجمان
پیپر بیلٹ کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ، کئی ترقی پذیر ممالک آج بھی استعمال کرتے ہیں
پیپر بالٹ کے استعمال کامقصد ہندوستان کو کئی دہائیوں پیچھے ڈھکیل دینا نہیں ہے اور کئی ترقی یافتہ ممالک ای وی ایم کی ناکامی کے بعد پیپر بیلٹ ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب صرف ہندوستان ہی کیلئے مخصوص نہیں ہے۔ نیدرلینڈ ، جرمنی ، جاپان اور امریکہ کی بعض ریاستوں نے ای وی ایم کے استعمال کو ترک کردیا ہے ۔
2014 ء میں یہ شکایات عام پائی گئیں کہ ای وی ایم عین ووٹوں کے استعمال کے دوران ہی خراب ہوگئیں اور عوام نے شکایت کی کہ اُن کے ووٹس اُن کے پسندیدہ اُمیدوار کے بجائے دوسرے امیدوار کے حق میں چلے گئے ۔ اس کے بارے میں کئی ریاستوں اور سیاسی پارٹیوں نے تشویش کا اظہار کیا لیکن الیکشن کمیشن نے اُس کا کوئی موثر نوٹ نہیں لیا۔
جی وی ایل نرسمہا راؤ ، بی جے پی پارلیمانی ممبر نے ایک کتاب تصنیف کی جس کا عنوان ’’ڈیموکریسی اٹ ریسک‘‘ ہے اس میں انھوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا ہم اپنے الکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ اور ان میں ہیکنگ پر تشویش کااظہار کیا گیاجس کو ایل کے اڈوانی نے بھی تسلیم کیا ہے اور اگر ای وی ایم میں اُلٹ پھیر ہوسکتی ہے تو پھر جمہوریت میں دوسرے خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے اور اگر اس میں اُلٹ پھیر ہوتی ہے تو ملک سے غداری کے مماثل ہے اور سارے ہندوستان میں اس قسم کے لگائے گئے الزامات کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے ۔