۔2016اور پاکستانی سیاست کا مسئلہ

سلمان عابد(پاکستان)
پاکستان کی سیاست میں سیاسی پنڈت ہمیشہ امکانات کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں ۔کیونکہ سیاست بنیادی طور پر نئے امکانات کو پیدا کرکے آگے بڑھنے کے بہتر سیاسی مواقع فراہم کرتی ہے ۔ لیکن پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مثبت امکانات کم اور منفی امکانات زیادہ بالادست ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جب ہم سالانہ بنیادوں پر پاکستان کی سیاست کے حالات وواقعات کا جائزہ لے کر کچھ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں مثبت اشارے کم ملتے ہیں ۔سال 2016کی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ بنیادی طور پر پانچ مسائل میں گھری نظر آئی ۔ اول پاکستان مسلم لیگ)ن(اور عمران خان کے درمیان جاری سیاسی کشمکش، محاز آرائی اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنے کا عمل ، دوئم پانامہ کا مقدمہ ، سوئم دہشت گردی سے نمٹنے کی جاری جنگ اور اس سے متعلقہ مسائل اور چہارم ہماری علاقائی سیاست بالخصوص بھارت اور افغانستان سے متعلقہ مسائل اور پنجم عوامی مفادات پر مبنی عدم سیاست ۔
سیاست میں بنیادی طور پر مسائل کا ہونا فطری ہوتا ہے ۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف کی سیاست ایک دوسرے کے مدمقابل ہی چلتی ہے اور بالخصوص حزب اختلاف حکومتوں پر دباوڈال کر حکومتی سمت کو درست کرنے میںاپنا کردار ادا کرتی ہے ۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کی سیاست مسائل کو کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ کیونکہ ہم مسائل کو پیدا کرنے کا حصہ دار بن گئے ہیں ، جبکہ مسئلہ کے حل میں ہمارا کردار بڑا محدود ہوگیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوںمیں مایوسی جہاں حکومتی طرز عمل سے ہے وہیں وہ حزب اختلاف کی سیاست سے بھی نالاں ہیں ۔ ہمارے یہاں دو طرح کی حزب اختلاف ہیں ، ایک کی قیادت پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور دوسری کی قیادت عمران خان کررہے ہیں ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ )ن(کے درمیان جاری پس پردہ مفاہمتی سیاست سب کے سامنے ہے ۔ اس کا احساس صرف باہر بیٹھے ہوئے سیاسی مبصرین تک ہی محدود نہیں بلکہ خود دونوں جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہماری پارٹی سیاست میں قیادت کی جانب سے اس مفاہمتی سیاست کا نقصان زیادہ ہوا ہے ۔پانامہ کا مسئلہ 2016میں پاکستان کی سیاست پر بالادست رہا ہے اور وزیر اعظم نواز شریف اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس پانامہ کے شکنجے سے پوری طرح باہر نہیں نکل سکے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ بنیادی طور پرنواز شریف اور ان کے خاندان تک محدود ہے ، لیکن حکومت نے جس انداز سے پوری ریاستی او رحکومتی طاقت سے اس مقدمہ کا دفاع کیا ہے وہ خود تنقید کے زمرے میں آتا ہے ۔2017میں بھی پانامہ کا مسئلہ موجود نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ جو انتخابی مہم کا برس ہے یہ بھی پانامہ کی حمایت اور مخالفت کی سیاست میں گھرا ہوا نظر آئے گا ۔
اس برس پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ کیونکہ دہشت گردی کی لہر ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہوئی ہے ۔ یہ اطمینان لوگوں میں موجود ہے اور اس میں ہماری فوجی قیادت کا عمل دخل زیادہ ہے ۔ لیکن اس برس ہمیں نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں سیاسی ، عسکری اور اہل دانش کے درمیان رائے تقسیم نظر آئی ۔یہ سوچ عمومی طور پر مضبوط نظر آتی ہے کہ جس انداز سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت وزیر اعظم کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سیاسی قیادت کرنا تھی ، اس میں کافی کمی نظر آئی ۔ اس کمی کا نتیجہ ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی صورت میں کمزور نظر آتا ہے ۔ اس کا اعتراف جہاں عسکری قیادت میں ہے وہیں سیاسی فریقین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس پر بڑی دلجمعی سے کام نہیں ہوسکا ۔ کراچی آپریشن پر بھی ہمیں کافی کامیابی ملی ہے اور کراچی ماضی کے مقابلے میںکافی بہتر ہے ۔لیکن یہ ساری بہتری انتظامی بنیادوں اور رینجرز پر کھڑا ہے ۔ کیونکہ کراچی کے سیاسی فریقین جن میں پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم شامل ہیں وہ اس آپریشن پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں او ر ان کے بقول یہ کراچی آپریشن دہشت گردی سے زیادہ سیاسی نوعیت پر مبنی ہے او راس میں کہیں نہ کہیں انتقامی پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ اسی طرح کراچی آپریشن کے تناظر میں ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومت بالخصوص صوبائی حکومت اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان کافی تناو نظر آیا ہے ۔ یہ تناو بدستور جاری ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے جو چار نکاتی ایجنڈا وفاقی حکومت کے سامنے رکھا ہے اس میںایک مطالبہ وزیر داخلہ کی تبدیلی کا بھی ہے ۔
کرپشن اس برس پاکستان کی سیاست کا سب سے اہم موضوع رہا ، مسئلہ محض پانامہ تک محدود نہیں رہا بلکہ مجموعی طور پر کرپشن کے خلاف قوم میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے ، نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی ار سمیت وہ حکومتی ادارے جن کا کام کرپشن کا خاتمہ کرنا تھا ان کی کارکردگی پر سب نے سوالات اٹھائے ہیں ۔ چیف جسٹس کے بقول یہ ادارے اگر واقعی کام کررہے ہوتے یا فعال ہوتے تو کرپشن کا سدباب ممکن ہوسکتا تھا ۔ پلی بارگینگ کے مسئلہ پر بھی سب متفق ہیں کہ اس کو ختم ہونا چاہیے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کرپشن کے خاتمہ پر دباو بڑھا تو حکومت میں سے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف بھی اس کو ظالمانہ نظام قرار دے چکے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ واقعی ظالمانہ نظام ہے تو حکومت میں شامل یہ لوگ کیونکر اس کو ختم نہیں کرسکے ۔
بنیادی طور پر اس برس 2016کی سیاست بھی سٹیس کو کی سیاست کے درمیان گھری ہوئی نظر آئی ۔ جو لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ان کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ان کی لڑائی محض سیاسی قوتوں سے ہی نہیں جو حکومت میں ہیں بلکہ اس نظام سے بھی ہے جس پر حکومتوں نے اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہے ۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ اداروں کی خود مختاری کے برعکس اداروں کو اپنے تابع کرکے ادارہ جاتی نظام کو تباہ برباد کررہے ہیں ۔ اس ادارہ جاتی تباہی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک میں گورننس کی حالت بدترین ہوتی جارہی ہے اور جس مقامی حکومتوں کے نظام کی مدد سے اس حکمرانی کے نظام کو موثر بنانا تھا یہ برس ان مقامی نظام کو خود مختاری نہیں دے سکا ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ موجودہ حکمرانی کا نظام عوام کے مفادات سے زیادہ حکمرانوں اور ایک بالادست طبقہ کا نظام ہے جس میںہمارے لیے سوائے استحصال کے کچھ نہیں ہے ۔
بھارت اور افغانستان سمیت خارجہ پالیسی میں ہمیں کافی سنگین نوعیت کے مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ہم اپنے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کررہے ہیں ۔ سی پیک منصوبے پر بھی بھارت ہمیں داخلی محاذ پر غیر مستحکم کرنے کا واضح ایجنڈا رکھتا ہے ۔ بھارت کے معاملے میں ہماری حکومتی پالیسی میں کمزور ی نظر آتی ہے اور یہ ہی وجہ اس مسئلہ پر ہمیں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان بھی خلیج دیکھنے کو ملتی ہے ۔ افغانستان کے مسئلہ پر ہمیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی بلکہ ہم اپنی سفارت کاری سے بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کر جو پاکستان دشمنی پر مبنی ہے ، کم نہیں کرسکے ۔
اس تناظر میں ہم جب 2017کی طرف دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کا بحران کم نہیںبلکہ اور زیادہ بڑھے گا ۔ ایک بحران سیاسی ہوگا او رکیونکہ یہ برس ایک سطح پر سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی برس بھی ہے تو ہمیںایک دوسرے کے خلاف زیادہ سنگین مسائل اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست نظر آئے گی ۔پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ )ن(کے درمیان اگرچہ کافی معاملات پر تنا و بھی ہے اور پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی بحالی بھی چاہتی ہے ، لیکن اس کو کس حد تک کامیابی مل سکے گی خود سوالیہ نشان ہے ۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے بھی یہ برس کافی اہم ہوگا کوینکہ اگر اس برس وہ اپنی مقبولیت اور سیاسی حکمت عملی کو بہتر طور پر وضع نہیں کرسکے تو اس کا نتیجہ ان کو آنے والے عام انتخابات میں مشکل صورتحا ل کے طور پر دیکھنے کو ملے گا ، پنجاب کیونکہ اس وقت مسلم لیگ)ن(کا اہم مرکز اور طاقت رکھتا ہے اور یہاں ہی جو بڑا سیاسی دنگل ہوگا وہی قومی سیاست کا بھی تعین کرے گا کہ کون کہاں کھڑا ہوگا ۔البتہ خارجی معاملات پر ہمیںکافی مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور یہ ہی ایک بڑا چیلنج ہے جو داخلی سیاست کے مسائل کی وجہ سے کافی الجھ کر رہ گیا ہے ۔
برائے رابطہ ای میل salmanabidpk@gmail.com