سیاست فیچر
ہندوستان میں عام انتخابات 2019 کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردی گئی ہیں اور ہندوستان بھر میں 7 مراحل میں انتخابات ہوں گے جس کے بعد 23 مئی کو ہندوستان کے اگلے وزیر اعظم کا فیصلہ ہوگا۔ انتخابات کی تواریخ کا اعلان کرتے ہوئے برسر اقتدار بی جے پی کے علاوہ حکومت پر واپسی کے لئے پرامید نظر آرہی ہندوستان کی قدیم جماعت کانگریس بھی اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ 2019 کے عام انتخابات کے متعلق ماہرین سیاست اور پنڈتوں نے اپنی اپنی پیش قیاسیاں جاری کردی ہیں جس میں ایک جانب ریاستی پارٹیوں کو اہمیت حاصل ہونے کے علاوہ علم نجوم کے ماہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات کو مسترد کردیا ہے۔ انتخابات کے تعلق سے مختلف جماعتوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے قطع نظر آخری تین مراحل کے حق رائے سے استفادہ کے لئے ماہ مبارک رمضان میں انتخابات کو نہ کروانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ کئی سیاسی نمائندوں اور مذہبی تنظیموں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ رمضان کے دوران تین مراحل کے جو انتخابات 6، 12 اور 19 مئی کو منعقد شدنی ہے ان تواریخ پر نظرثانی کی جائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جن تواریخ کا اعلان کیا گیا ہے ان میں 6، 12 اور 19 مئی رمضان میں آرہے ہیں جبکہ ان تواریخ میں جن ریاستوں میں حق رائے دہی ہوگی وہ بہار، دہلی، ہریانہ، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، پنجاب، راجستھان، اترپردیش اور مغربی بنگال ہیں۔ اگر ان ریاستوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو بہار، دہلی، مدھیہ پردیش، پنجاب، اترپردیش اور مغربی بنگال کے علاوہ جموں و کشمیر میں مسلم رائے دہندوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ ایک جانب جہاں سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے رمضان میں الیکشن نہ کروانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب بی جے پی اور اس کے بھگت رمضان میں الیکشن کو متنازعہ موضوع نہ بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اس ضمن میں بی جے پی کے قومی ترجمان شاہ نواز حسین نے جو منطق پیش کی ہے وہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ انتخابات کے دوران نوراتری بھی آرہی ہے اور نوراتری کے دوران ہندو برادری بھی روزہ رکھتی ہے تو پھر مسلمانوں کو رمضان میں انتخابات کو متنازعہ نہیں بنانا چاہئے۔ شاہ نواز حسین شاید اس حقیقت سے واقف نہیں یا اپنے آقاؤں کی خوشنودی میں اس قدر گم ہوگئے ہیں کہ انہیں مسلمانوں اور غیروں کے روزہ کا بنیادی فرق بھی نہیں یاد ہے۔ ذہن نشین ہو کہ غیر مسلم برادری جو روزہ رکھتی ہے اس میں وہ کھانے سے پرہیز کرتے ہوئے میوہ اور دیگر غذائی اشیاء کا استعمال کرتی ہے جبکہ مسلمانوں کا روزہ کھانے پینے کے علاوہ دیگر کئی امور سے مکمل پرہیز کا نام ہے۔ رمضان میں انتخابات کے موضوع سے قطع نظر اس وقت سوشل میڈیا پر اسی کے تناظر میں ایک بیان جو وائرل ہو رہا ہے وہ 23 مئی کو اگلے وزیر اعظم کے فیصلے کا دن ہے اور اسی دن رمضان کی متوقع 17 تاریخ ہے۔ عالم اسلام میں 17 رمضان کو کئی اعتبار سے اہم دن تصور کیا جاتا ہے۔ اس خصوص میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا محمد عاصم نشاط نے 23 مئی اور 17 رمضان کی مناسبت سے انتخابات کے نتائج کے ضمن میں کچھ بنیادی باتوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ 17 رمضان المبارک تاریخ اسلام کا ایک سنہرہ دن رہا ہے۔ اس دن کو قرآن نے یوم الفرقان سے یاد کیا ہے۔ اس دن کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہوا ہے اور 313 صحابہ ایک ہزار حریفوں پر غالب رہے ہیں۔ اس دن مسلمانوں کو عظیم الشان اور لاثانی فتح حاصل ہوئی ہے۔ اسی کے تناظر میں مسلمانان ہند یہ امید کرسکتے ہیں کہ پھر ایک مرتبہ انہیں ایسی حکومت نصیب ہوگی جو ان کی کھلی دشمن اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش نہیں رہے گی۔ اسلام میں فال نیک اور اچھا شگون لینے کے ضمن میں مولانا نے کہا کہ اس کی اجازت اسلام نے دی ہے کہ اللہ سے کسی چیز کے لئے اچھی امید لگائی جاسکتی ہے۔ 17 رمضان کی مناسبت سے اس مرتبہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے موافق حکومت کی امید بھی کی جاسکتی ہے۔