یہ کیسی برادر کشی ہے عالم اسلام میں ؟

غضنفر علی خان
عالم عرب تاریخ کے نہایت صبر آزما دور سے گذر رہا ہے ۔ مسلکی اختلافات پوری طرح سے ابھر کر آئے ہیں حالانکہ مختلف مسالک سے وابستہ یہی لوگ اس علاقہ میں شیر و شکر ہو کر صدیوں سے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مسلکی اختلافات آج کیوں شدت اختیار کررہا ہے اور یہ صورتحال عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے لئے کس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے ۔ شام ، عراق ، یمن سے لیکر سعودی عرب جیسے پرامن ملک میں بھی عسکریت پسند عناصر شورش کررہے ہیں ۔ کوئی بھی شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ مذہب اسلام کی یکتائی کے مجسمہ پر گرنے والی یہ چنگاریاں کب اور کہاں شعلوں میں بدل جائے اور یہ مجسمہ پاش پاش ہوجائے ۔ آج کی سیاسی صورتحال ’’دور جاہلیت‘‘ سے مشابہ ہوتی جارہی ہے ۔ دولت اسلامیہ کے عسکریت پسند کیا چاہتے ہیں ۔ یہ کون لوگ ہیں ان کی انتہا پسندی کی کون تائید کررہا ہے ۔ ان کے حوصلے کیوں بلند ہورہے ہیں ؟ کیا یہ صحیح معنوں میں اسلام پسند ہیں ۔ کیا اسلام کا غلبہ ایسی حرکتوں سے ہوسکتا ہے ، کون کس کے خلاف نبرد آزما ہے سمجھ میں نہیں آتا ۔ عالم عرب میں تو قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ یہی کیا کم بختی کی بات تھی کہ عالم اسلام کے نقیب سعودی عرب کو ایران یہ دھمکی دے رہا ہے کہ ایران اللہ معاف کرے سعودی عرب کو دور سنگ میں پہنچادے گا ۔

یہی الفاظ امریکی سابق نائب وزیر خارجہ نے اس وقت کہے تھے جبکہ امریکی فوج افغانستان میں موت و ہلاکت کا بازار گرم کررہی تھی اور پاکستان سے امریکہ کا تقاضہ تھا کہ وہ افغان ۔ پاک سرحد کے استعمال کی امریکہ کو اجازت دے ۔ جب پاکستانی قیادت نے اس پر عدم رضامندی کا اظہار کیا تو بطور خاص امریکی نمائندہ کی حیثیت سے اس وقت کے وزیر خارجہ امیرکہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کو دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے تعاون نہیں کیا تو امریکہ پاکستان کو پتھر کے دور (دور سنگ stoneage) میں پہنچادے گا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا البتہ امریکہ جدید جنگی حربوں کی مدد سے افغانستان کو تباہ و تاراج کردیا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ ایران کو ایسی دھمکی سعودی عرب کو نہیں دینی چاہئے تھی ۔ اگرچیکہ اس دھمکی پر خود ایران عمل نہیں کرسکتا لیکن اسلامی وحدت کے کاز کو صرف دھمکی سے بھی نقصان ہوسکتا ہے ۔ ایران کے علاوہ اور ممالک میں شیعہ طبقات رہتے ہیں اور مقامی عربوں سے ان کے بہترین تعلقات ہیں ۔ ایک برادرانہ ماحول ہے جو برسوں سے چلا آرہا ہے ۔ سعودی عرب شام میں حوثیوں پر حملہ کرنے والا واحد ملک نہیں ہے ۔ یہ عرب اتحاد ہے جو حوثیوں پر حملے کررہا ہے ۔ عرب اتحاد کا مقصد کسی ایک فرقہ کو نقصان پہچانا نہیں ہے ۔ سعودی عرب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عالم اسلام میں اتحاد ہمیشہ قائم رہے جبکہ حوثیوں نے سعودی عرب پر حملوں کی جسارت بھی کی ہے ۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ انتقامی کارروائی میں سعودی عرب کی مسجد پر حملہ کیا گیا ۔ جمعہ کی نماز میں کئی نمازی شہید ہوگئے یہ کیسی اسلام پسندی ہے کہ وہ اللہ گھر میں نماز ادا کرنے والوں کو بموں کا نشانہ بنایا گیا جو بھی اسلام پسند گروپ جہاں کہیں نمودار ہوتا ہے وہ آخر کیوں جارحیت اختیار کرتا ہے ۔

صومالیہ ، نائیجریا ، جیسے افریقی ممالک میں بھی انتہا پسند عناصر ہی ہیں جو اسلام کے نام پر قتل ، اغوا اور خودکش بم دھماکوں میں ملوث ہیں ۔ حالانکہ مذہب اسلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس عمل ہے لیکن یہ عناصر خود کو اسلام کا داعی قرار دیتے ہیں ۔ اپنے ہی ہم وطنوں اپنے ہی عرب بھائیوں کے خوب ناحق سے ان لوگوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچ رہا ہے کہ ہم عرب ہیں ،ہم مذہب ہیں ، ایک ہی علاقہ میں رہتے ہیں ، ایک ہی زبان بولتے ہیں ، ایک ہی کلچر کی پیداوار ہیں ۔ ان تمام مماثلتوں کے باوجود آج برادرکشی کررہے ہیں ۔ یہ کس کی سازش ہے ۔ ان اقدامات سے کس کو فائدہ ہورہا ہے ۔ ان حالات کے پس پردہ کونسے عوامل ہیں ۔ اس قسم کی سوچ تو گویا ختم ہوگئی ۔ دمشق جیسے تاریخی شہر کو اجاڑ دیا گیا ۔ بغداد شہر کی عظمت رفت کو لوٹ مار کرکے ختم کردیا گیا ۔ کئی تہذیبی آثار کو مسمار کردیا گیا ۔ یہ سب ان تمام ممالک کے مشترکہ اثاثے تھے جو آج قتل و غارتگری میں مصروف ہیں ۔ کوئی تیسری طاقت ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے تیار نہیں اور کوئی تیار بھی کیوں ہو جبکہ عرب اتحاد اور اسلامی اخوت و بھائی چارہ ختم ہورہا ہے ، آج دم توڑ رہا ہے تو اس سے صیہونی اسرائیل اور آقا امریکہ کو زبردست فائدہ ہورہاہے ۔ یہ آج کی یہودی اور اسلام دشمن عیسائی طاقتوں کی کارستانی ہے کہ وہ عرب کو عرب سے لڑاکر ان کی طاقت ختم کررہی ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ اسلام اور عرب ممالک سمجھ ہی نہیں رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش کے لئے ایک عرب کو دوسرے عرب بھائی کے مدمقابل کردیا گیا ہے ۔ ساری دنیا سمجھ گئی ہے کہ یہ مسلکی تصادم ایک گہری سازش ہے جس کا واحد مقصد یہ ہیکہ اسلام کی اخوت اور اس کی آفاقیت کو ختم کیا جائے ۔ اس سازش میں یہ اسلام دشمن طاقتیں کامیاب بھی ہورہی ہیں ۔

عراق ، شام ، یمن ، عراق اور افغانستان کی قیادت کو ایک پروگرام کے تحت ختم کردیا گیا ۔ عراق میں سابق صدر صدام حسین کو ، لیبیا میں معمر قذافی کو موت کی نیند سلادینے کے بعد سازشی ذہن نے پینترا بدلا اور مسلکی اختلافات کا آغاز کیا ۔ یہ حکمت عملی کامیاب ہورہی ہے ۔ آج عرب اسپرنگ جیسے پرفریب انقلاب کے بعد ہی کیوں عرب ممالک میں دونوں مسلکوں میں خون خرابہ ہورہا ہے ۔ یہ انقلاب نقطہ آغاز تھا اس گھناؤنی سازش کا جس کو آج کامیاب بنایا جارہا ہے ۔ عرب دنیا کا کوئی مسئلہ کبھی کوئی مغربی ملک یا اسلام دشمن امریکہ حل نہیں کرسکتا ۔ امریکہ کو تو دوبار آزمایا جاچکا ہے ۔ جہاں امریکہ نے قدم رکھا وہاں تباہی ہوئی ۔عراق اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ لیبیا میں کرنل قذافی کی موت بھی اسی سازش کی کڑی تھی ۔ تیونس میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی اسی مذموم سازش کا نتیجہ ہے ۔ برادر کشی آج پورے عروج پر ہے ۔ کسی گوشہ سے یہ آواز نہیں اٹھ رہی ہے کہ اس سلسلہ کو روکنے کے لئے عرب ممالک کو اور وسیع تر معنی میں مسلم دنیا کو ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے ۔ غریبوں پر تکیہ کرنے سے بہتر ہیکہ متحارب گروپس اپنے مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی مذاکرات کریں تاکہ دنیا کو یہ پیام جاسکے کہ مسلکی اختلاف ہمارا دینی شیرازہ نہیں بکھیر سکتا ۔ دین ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کی بقا ناگزیر ہے ۔