یہ کھیل نہیں تو اور کیا ہے ؟

کلدیپ نیر
فرض کیجئے ، اگر ایڈیلڈ میں ہندوستان پاکستان کے خلاف کرکٹ ورلڈکپ میاچ ہارجاتا ہے تو کیا ہندوستانیوں کا ردعمل ویسا ہی ہوگا جیسا کہ پاکستانی شائقین کرکٹ نے ظاہر کیا ہے ؟ میں یہ نہیں کہتا وہ مایوس نہیں ہوئے ، مگر اتنا ضرور ہے کہ ہندوستانی شائقین کرکٹ اس قدر شدید ردعمل کا اظہار نہیں کرتے ۔ ہندوستانی شائقین اپنے اپنے ٹیلی ویژن سیٹس کو تباہ نہیں کرتے جیسا کہ کراچی اور دیگر مقامات پر پاکستانی شائقین نے ردعمل کے طورپر کیا ہے ۔ بے شک اس طرح کی مایوسی ایک انسانی فطرت ہے مگر مایوسی کا اظہار گلی کوچوں میں ظاہر نہیں کیا جاتا ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان بہت زیادہ جدت پسند اور ماڈرن ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں صبر و تحمل اور بردباری نسبتاً زیادہ ہے ۔ ایک کثیر تہذیبی ورثے کے حامل معاشرہ پر مشتمل ہندوستان نے مختلف طبقات کے مل جل کر زندگی گذارنے کا ہنر سیکھ لیا ہے ۔ انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں سکونت پذیر ہیں جو کہ بالکل متحرک ہیں ۔ انہوں نے برادران وطن کو یہ سکھادیا ہے کہ اگر ہندوستانی معاشرہ کو ترقی کرنا ہے تو انہیں باہمی میل جول کے ساتھ رہنا ہوگا ۔ بدقسمتی سے ہندوستانی کمیونٹی میں موجود شدت پسند افراد جن کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ، یہ چاہتے ہیں کہ پورا ملک ہندو ملک بن جائے ۔ انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس پورے ہندوستانی معاشرہ کے تعاقب میں رہتی ہے

اور اسی بات کا خواہش مند ہے کہ پورا ملک ہندو راشٹرا میں تبیدل ہوجائے مگر ہندوؤں کی اکثریت آر ایس ایس کی ایسی تنگ ذہنیت کو مسترد کردیا ہے ۔ آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی پر یہ حقیقت منکشف ہوچکی ہے کہ لوگوں کی ذہنیت کو زعفرانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے انہوں نے ترقی اور ڈیولپمنٹ کے نعرے کی آر میں اپنے مقصد کو پورا کرنے کا مشن بنایا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں چرچس کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے کے پس منظر میں اپنی مجرمانہ خاموشی کو توڑتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ میری حکومت ہر شہری کے لئے مکمل مذہبی آزادی کو یقینی بنائے گی ۔ اور ہر ایک شہری کو یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے اور اس پر عمل کرے ۔ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مذہب میں چاہے برقرار رہے اور جو چاہے مذہب اختیار کرے ۔ میں کسی بھی مذہبی گروپ کو کسی دوسرے مذاہب کے افراد پر زور زبردستی کرنے کی اجازت نہیں دوں گا ۔ ہماری حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام مذاہب کا مساوی احترام برقرار رہے ۔ نریندر مودی جنہوں نے لوک سبھا انتخابات میں مکمل اکثریت حاصل کی تھی جاریہ ماہ اپنے ایجنڈے کو آگے نہ بڑھانے کے معاملے میں کافی محتاط رویہ اختیار کیا جس میں یکساں سیول کوڈ اور دفعہ 370 کی منسوخی شامل ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو سیکولر ظاہر کرنا چاہتے ہیں بلکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کثرت میں وحدت کے نظریہ سے انحراف نہیں کرسکتا ۔

ہندوستانی معاشرہ میں اس وقت مزید بے چینی پیدا ہوجاتی ہے جب آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت یہ کہتے ہیں کہ رام جنم بھومی اور سیتھو سمندرم ایک قومی مسئلہ ہے ۔ ہم اسکے خلاف زیادہ سے زیادہ آواز اٹھاسکتے ہیں ۔ حالانکہ سنگھ پریوار اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی سماج ایک مخصوص مذہبی نظریات پر مبنی اسٹیٹ میں تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ بہرحال اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستانی معاشرہ دن بدن شدت پسند بنتا جارہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی خطوط پر ہی ہندوستانی کی تقسیم عمل میں آئی تھی مگر پاکستان کے بانی محمد علی جناح تخلیق پاکستان کے فوراً بعد کہا تھا کہ ملک اور مذہب کو آپس میں خلط ملط نہیں کیا جائے گا ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا تناسب محض 5 فیصد ہے ۔ سندھ جہاں اقلیتوں کی خاص آبادی ہے ، خواتین کو جبری شادی کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ۔ یہاں شاید ہی کوئی مندر ہو جس پر حملہ نہ کیا جاتا ہو ۔ حقوق انسانی کمیشن HRW کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد حملوں میں بتدریج اضافہ درج کیا گیا ہے ۔ جبکہ وزیراعظم نوام شریف کی حکومت مذہبی اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہندوستانمیں بھی بعض تشدد پسند افراد کی جانب سے مساجد کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے مگر یہاں کا میڈیا اور سیکولر پسندوں کی ایک مستحکم تعداد اس کے خلاف آواز اٹھانے میں تاخیر نہیں کرتی ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ حقیقت کا یہاں کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔ ایسا کوئی رتی برابر ظاہری عمل بھی نہیں ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت میں کمی لائی جاسکے اور اس معاملے میں پاکستان زیادہ جوابدہ ہے ۔ بہرحال جہاں تک کرکٹ کا سوال ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مہارت اور فن کا کھیل ہے ۔ مگر یہ اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ کس طرح ایک ایک مخصوص دن میں مظاہرہ کرتا ہے ۔ اس میں اہم ترین سبق یہ ہے کہ کھیل کو محض کھیل کے جذبے سے ہی کھیلا جانا چاہئے اسے دو ملکوں کے درمیان ’’مسئلہ‘‘ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے ۔