یہ کون لوگ ہیں دو چار خواہشوں کے لئے

بہار …نتیش لالو اتحاد کو برتری
سیکولرازم بمقابلہ سنگھ پریوار

رشیدالدین
بہار اسمبلی کے انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، مختلف محاذ وجود میں آنے لگے ہیں اور ہر محاذ خود کو بہتر متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ بہار انتخابات بی جے پی کیلئے ایسڈ ٹسٹ سے کم نہیں کیونکہ مرکز میں نریندر مودی حکومت کی دیڑھ سالہ کارکردگی پر یہ نتائج عوامی ریفرنڈم کی طرح ہوں گے۔ بی جے پی بہار میں تشکیل حکومت کے لاکھ دعوے کرلے لیکن پارٹی کے اندرونی حلقوں میں مایوسی صاف جھلک رہی ہے۔ قائدین کا یہی تجزیہ ہے کہ نریندر مودی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر عوامی تائید کی توقع کرنا خام خیالی ہوگی۔ کامیابی کے امکانات کو موہوم دیکھتے ہوئے بی جے پی نے سیکولر طاقتوں میں پھوٹ پیدا کرنے کی سازش تیار کی ہے اور کئی نام نہاد سیکولر جماعتیں اس سازش کی آلہ کار بن چکی ہیں۔ بی جے پی نے جب محسوس کرلیا کہ عوامی تائید کے حصول کے لائق کوئی کارنامہ نہیں ہے اور نہ ہی بہار میں پارٹی کا کوئی معتبر چہرہ موجود ہے، لہذا سیکولر ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ کامیابی کی راہ تلاش کی جائے۔ بی جے پی کو جس مودی لہر پر بھروسہ تھا، وہ بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ نریندر مودی کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور خود وزیراعظم کو زمینی حقیقت کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی نے سنگھ پریوار کے بھروسہ پر بہار میں ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی لیکن یہ چال کامیاب نہ ہوسکی۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو جب ہندوتوا کارڈ بے اثر دکھائی دینے لگا تو سیکولر ووٹ کو بانٹنے کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے بعض موقع پرست اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کو آلہ کار کے طور پر میدان میں اتارا گیا۔ بہار میں اصل مقابلہ عظیم اتحاد اور این ڈی اے کے درمیان ہے اور عوام اسے سیکولرازم اور سنگھ پریوار یا پھر ترقی اور جارحانہ فرقہ پرستی کے درمیان مقابلہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بی جے پی کی مدد کیلئے بھلے ہی کئی محاذ وجود میں آجائیں لیکن عوام انہیں مسترد کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔ بی جے پی 2014 ء لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو دہرانے کا خواب دیکھ رہی ہے، جب 243 کے منجملہ 178 اسمبلی حلقوں میں اسے اکثریت حاصل ہوئی تھی، دیڑھ سال میں صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور اب حالات بی جے پی کے حق میں نہیں ہیں۔ لوک سبھا نتائج کو دہرانے کا دعویٰ بی جے پی کی خوش فہمی اور جاگتی آنکھوں کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کیلئے نریندر مودی کی مقبولیت کو اہم عنصر کے طور پر پیش کیا جارہا ہیں۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ یو پی اے کی دس سالہ حکومت سے عوام کی مایوسی ، مختلف اسکامس اور بے قاعدگیوں نے رائے دہندوں کو مودی کی لفاظی پر بھروسہ کرنے اور بی جے پی کو متبادل کے طور پر قبول کرنے کیلئے مجبور کردیا تھا ۔ لہذا مرکز میں بی جے پی کی کامیابی کی وجہ نریندر مودی کا کارنامہ نہیں بلکہ این ڈی اے حکومت کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ دیڑھ سال کی تکمیل کے بعد ملک کے عوام بی جے پی کو برسر اقتدار لانے پر ندامت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یو پی اے حکومت نے اپنے سیاہ کرتوت کے ذریعہ بی جے پی کے حق میں راہ ہموار کی۔ نریندر مودی کے خوش کن وعدوں اور نعروں پر عوام نے بھروسہ کیا۔ بی جے پی بھلے ہی لوک سبھا میں اکثریت میں ہے لیکن اسے صرف 33 فیصد عوام کی تائید حاصل ہے۔ دیڑھ سال قبل یعنی 2014 ء میں ملک کے 67 فیصد رائے دہندے بی جے پی کے ساتھ نہیں تھے اور محض ووٹ کی تقسیم سے اسے فائدہ ہوا تھا۔ دیڑھ سال کے عرصہ میں نریندر مودی حکومت نے عوام کو جس طرح مایوس کیا ہے ، اس سے ووٹ کا فیصد 33 سے بھی گھٹ چکا ہوگا۔

مرکزی حکومت عوام سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی۔ بہار کے عوام زبانی ہمدردی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ترقی چاہتے ہیں۔ نریندر مودی کی الفاظ کی تک بندی اور لچھیدار باتوں سے کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ بہار کے عوام نریندر مودی کے ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ کے پیکیج پر بھروسہ کرنے تیار نہیں۔ دیڑھ سال میں قیمتوں میں اضافہ نے عوام پر جو بوجھ عائد کیا ہے ، اس کا اندازہ اقتدار میں بیٹھے افراد نہیں کرسکتے۔ غریب اور متوسط طبقات پر گرانی کے بوجھ نے نظام زندگی کو درہم برہم کردیا ہے۔ جس طرح سابق میں پیاز نے کئی حکومتوں کے زوال کا فیصلہ کیا تھا، اسی طرح آج دوبارہ پیاز کی آسمان کو چھوتی قیمتیں بی جے پی کو رلادیں گی۔ نریندر مودی حکومت نے 16 ماہ کے دوران عوامی مسائل کی سطح پر بھلے ہی کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے بیرونی دوروں کے معاملہ  میں اپنے تمام پیشرو وزرائے اعظم کا ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ ملک کے عوام مسائل کی یکسوئی کو ترستے رہے اور نریندر مودی بیرونی دوروں کے ذریعہ تفریح کا مزہ لوٹتے رہے۔ اقتدار کے 90 دن میں کالے دھن کی واپسی اور ہر شخص کے کھاتے میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا وعدہ عوام میں مذاق کا موضوع بن چکا ہے ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے بیرونی دوروں کے ذریعہ نریندر مودی ہندوستان کے مسائل کا حل دیگر ممالک میں تلاش کر رہے ہیں۔ حکومت داخلی اور خارجی دونوں سطح پر ناکام ثابت ہوئی۔ ایک طرف مذہبی رواداری کے دعوے تو دوسری طرف جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ نے حکومت کے سب کا ساتھ ، سب کا وکاس نعرے کی دھجیاں اڑادی ہے۔ ملک میں نفرت کے تمام سوداگر جیسے بے لگام ہوچکے ہیں۔ بہار میں بی جے پی قیادت خود بحران کا شکار ہے، پارٹی میں ایک بھی معتبر چہرہ ایسا نہیں جسے عوام چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے قبول کریں۔ چونکہ بی جے پی خود نتیش کمار کی مقبولیت کے سہارے پر تھی، اب نتیش کمار کی علحد گی کے بعد جیسے وہ اپاہج ہوچکی ہے۔ رام ولاس پاسوان اور جتن مانجھی جیسی کمزور بیساکھیوں کے بل پر بی جے پی انتخابی میدان سر نہیں کرسکتی۔اوپنین پول میں نتیش کمار، چیف منسٹر کی حیثیت سے تقریباً 50 فیصد رائے دہندوں کی اولین ترجیح ہیں جبکہ بی جے پی کے ریاستی صدر سشیل کمار مودی کو صرف 15 فیصد عوام نے چیف منسٹر کے عہدہ کے لائق سمجھا، اس سے نتیش کمار کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

نتیش کمار ۔ لالو پرساد اور کانگریس پر مشتمل عظیم اتحاد کو برتری اس لئے بھی حاصل ہے کہ نتیش کمار نے بہار میں گڈ گورننس اور ترقی پر مبنی حکمرانی کے جو نقوش چھوڑے ہیں، اسے عوام فراموش نہیں کرسکتے۔ جنگل راج اور پسماندہ ریاست کے نام سے شناخت رکھنے والے بہار کو نتیش کمار نے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ دنیا بھر میں بہاریوں کے سرکو فخر سے اونچا کردیا۔ نتیش کمار کی بہتر کارکردگی کی بی جے پی بھی قائل ہے لیکن وہ بعض کمزور سہاروں کے ذریعہ اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ نتیش کمار کے ساتھ ترقی کا ووٹ بینک اور مثبت عوامی رائے ہے۔ ان کا سیاسی کیریئر بے داغ رہا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے ان پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں۔ اس طرح نتیش کمار کا ووٹ بینک مستحکم ہے۔ انہوں نے اصولی موقف کے ذریعہ بی جے پی سے اتحاد کو ختم کیا تھا ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے مبینہ ذمہ دار شخص کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنائے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے نتیش کمار نے بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا۔ ان کا یہی موقف اقلیتوں کی تائید کیلئے کافی ہے۔ لالو پرساد یادو نے رام مندر کی تعمیر کیلئے نکالی گئی ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کو روکنے کا جرات مندانہ قدم اٹھایا تھا۔ کسی بھی ریاست کے چیف منسٹر نے یہ ہمت نہیں کی لیکن ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑکانے والے رتھ کو بہار میں لالو پرساد نے نہ صرف بریک لگایا بلکہ اڈوانی کو گرفتار کیا تھا۔ اقلیتی رائے دہندے لالو پرساد کے اس کارنامہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ نہ صرف بہار بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اقلیتیں نتیش کمار اور لالو پرساد کے اصول پسندانہ موقف کی تائید کرتے ہیں۔ اس طرح عظیم اتحاد کے ساتھ اقلیتیں اٹوٹ طور پر وابستہ دکھائی دے رہی ہیں۔ اس ووٹ بینک کو توڑنے کیلئے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو بی جے پی استعمال کر رہی ہے جن کا بہار میں کوئی وجود نہیں۔نتیش کمار کی کارکردگی کا نریندر مودی کی لفاظی سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیکولر ووٹ تقسیم کرنے کیلئے ملائم سنگھ یادو اور شرد پوار جیسے قائدین بی جے پی کی بی ٹیم کا رول ادا کر رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی ، این سی پی نے پی اے سنگما اور سماج وادی جنتا دل ڈیموکریٹک کے ساتھ تیسرا محاذ تشکیل دیا ہے۔ ان جماعتوں کا بہار میں نہ کوئی وجود ہے نہ ہی اہمیت۔ انکے علاوہ بائیں بازو کی 6 جماعتوں نے ایک علحدہ محاذ تشکیل دیا۔ بی جے پی کو مثبت ووٹ سے زیادہ سیکولر ووٹ کی تقسیم پر بھروسہ ہے۔ شرد پوار اور ملائم سنگھ یادو کی موقع پرستی سے کون واقف نہیں۔ الغرض لاکھ سر پیٹھ لیں ، نتیش کمار۔لالو پرساد کی برتری کو کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ شرد پوار تو خود اپنی ریاست مہاراشٹرا کی سیاست میں دن بہ دن اپنی اہمیت اور گرفت کھونے لگے ہیں جبکہ اترپردیش میں ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کا گراف تیزی سے گھٹ رہا ہے ۔ بہار میں بی جے پی کی مدد کیلئے میدان میں آنا اور سیکولر طاقتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کا خمیازہ ملائم سنگھ یادو کو یو پی میں بھگتنا پڑے گا۔ ان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھیں توان کو سیکولر کہنا دراصل سیکولرازم کی توہین ہے۔ خود کو مولانا ملائم سنگھ کہنے والے اس شخص نے بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ کو گلے لگایا تھا۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے کاز کے چمپین کے طور پر ابھرنے والے اعظم خاں اب ملائم سنگھ کی بی جے پی سے ہمدردی پر خاموش کیوں ہیں؟ اپنے نیتا جی کی قلا بازیوں اور سیکولر طاقتوں کے خلاف موقف پر ان کی زبان کیوں بند ہے؟ ہمیشہ بی جے پی کے خلاف بیان بازی سے اپنی سیاسی دکان چمکانے اور مسلم ووٹ بینک کی سیاست کرنے والے اعظم خاں کیا بہار میں سیکولر طاقتوں کے خلاف مہم میں حصہ لیں گے؟ اعظم خاں کو بہار میں ملائم سنگھ کے موقف پر وضاحت کرنی ہوگی۔ ان کی خاموشی آئندہ اسمبلی انتخابات میں اقلیتوں کی ناراضگی کی صورت میں منظرعام پر آسکتی ہے۔ بہار کے رائے دہندے باشعور ہیں اور وہ مزید کسی کے بہکاوے میں آنے والے نہیں۔ کسی کی لفاظی اور کسی کی سازش ان کے فیصلہ کو تبدیل نہیں کرپائے گی۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے   ؎
یہ کون لوگ ہیں دو چار خواہشوں کے لئے
تمام عمر کا پندار بیج دیتے ہیں