یہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہوگا

مسعود اظہر… مودی کی مدد کیلئے چین میدان میں
الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک

رشیدالدین
انتخابات کسی بھی ملک کا داخلی معاملہ ہوتا ہے اور دیگر ممالک کو انتخابی عمل میں مداخلت کا حق نہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب کسی دوسرے ملک نے نہ صرف دلچسپی دکھائی بلکہ مخصوص پارٹی کے حق میں بالواسطہ طور پر مہم چلائی ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خاں کے نریندر مودی کے حق میں بیان کی گتھی ابھی سلجھ بھی نہیں پائی تھی کہ چین نے مسعود اظہر کے معاملہ میں ہندوستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بی جے پی کی انتخابی مہم میں نئی جان پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ ابتدائی چار مراحل کی پولنگ میں بی جے پی کو جو جھٹکے لگے ہیں، اس کی تلافی اور آخری تین مراحل میں مودی اور بی جے پی کو سہارا دینے کیلئے چین میدان میں کود پڑا۔ آخر نریندر مودی نے ایسا کیا جادو چلایا کہ کئی مسائل پر سخت اختلاف رکھنے والے ممالک انتخابات میں مدد کیلئے سامنے آگئے ۔ گزشتہ ایک دہے سے ہندوستان مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین رکاوٹ پیدا کرتا رہا ۔ ایک ہفتہ قبل تک بھی چین اپنے موقف پر اٹل رہا لیکن اچانک اس نے مسعود اظہر کے سر پر سے ہاتھ اٹھالیا۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ کے بعد پاکستانی علاقہ میں ہندوستان کی فضائی کارروائی کو لے کر بی جے پی نے انتخابی فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ ہندوستان کی فوجی کارروائی کے بارے میں جب شبہات ظاہر کئے جانے لگے تو بی جے پی کو کسی ایسے مسئلہ کی تلاش تھی کہ جو عوام کے جذبات ابھارنے کا ذریعہ بن سکے ۔ نریندر مودی کو اندرون ملک سے زیادہ بیرون ملک تائید کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے ۔ مبصرین کے مطابق رائے دہی کے اب تک کے مراحل میں بی جے پی کے حق میں خاطر خواہ تائید نظر نہیں آئی ۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ میں 40 سے زائد ہندوستانی سپاہیوں کی شہادت پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گرد حملہ اور پھر ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیک سے دونوں ممالک میں کشیدگی برقرار تھی کہ عمران خاں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نریندر مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے کی تائید کردی۔ یہ تائید ایسے وقت کی گئی جب بی جے پی نے کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعات 370 اور 35(A) کو کالعدم کرنے کا اعلان کیا ۔ عمران خاں دنیا بھر میں بیسٹ کرکٹر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں،

وہ جس زمانے میں کھیل کے میدان میں تھے اس وقت میچ فکسنگ کی لعنت شائد نہیں تھی لیکن سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے بعد وہ میچ فکسنگ کے جوہر دکھانے لگے ہیں۔ میچ فکسنگ کے بعد انہوں نے مودی کے حق میں لابیئنگ یعنی رائے ہموار کرنے کا آغاز کردیا۔ عمران خاں کے دورہ چین کے فوری بعد مسعود اظہر کے مسئلہ پر چین کے موقف میں تبدیلی محض ایک ملک کا فیصلہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے ۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خطے میں چین اور پاکستان ایک دوسرے کے مفادات کے نگہبان ہیں۔ جب ہندوستان نے دہشت گردی کے مسئلہ پر حلیف ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان کو یکا و تنہا کرنے کی کوشش کی تو چین پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا۔ بلکہ اس نے مخالف پاکستان کسی بھی کارروائی کے خلاف ڈھال کا کام کیا ۔ پلوامہ سے قبل ہندوستان میں کئی دہشت گرد حملے ہوئے اور ہندوستان نے پاکستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ جب کبھی مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے لئے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی ، چین نے ویٹو کے حق کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی مدد کی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ 28 اپریل کو عمران خاں نے بیجنگ میں چین کے سربراہ سے ملاقات کی اور یکم مئی یعنی دو دن بعد ہی چین کو مسعود اظہر دہشت گرد دکھائی دینے لگا۔ دراصل مسعود اظہر کی قربانی دیتے ہوئے عمران خاں اپنے دوست نریندر مودی کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اروناچل پردیش کے مسئلہ پر چین کے ہندوستان سے سخت اختلافات ہیں۔ چین نے ملک کے نقشے میں اروناچل پردیش کو اپنے علاقہ کے طور پر ظاہر کیا ہے۔

چینی فوج کے لئے اروناچل پردیش چہل قدمی کے مرکز کی طرح ہے۔ ہندوستان اپنی سرزمین پر چینی افواج کی در اندازی کو روکنے سے قاصر ہے ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ہندوستان نے چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے جو پہل کی ہے، مسعود اظہر کے مسئلہ پر تائید کے ذریعہ چین نے جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عین انتخابات کے وقت پاکستان اور چین کو ہندوستان سے ہمدردی کیوں پیدا ہوگئی جبکہ گزشتہ 10 برسوں سے ہندوستان یہ مطالبہ کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل دراصل چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن چکا ہے ۔ جہاں سے وہ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ دنیا پر کنٹرول کرنے کا خواب دیکھنے والے ممالک ان کے دباؤ اور غلامی سے انکار کرنے والے ملکوں پر اسی ادارہ کے ذریعہ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ اگر خود ان ممالک اور ان کے سربراہان کا ریکارڈ دیکھیں تو ان سے بڑا دہشت گرد کوئی نہیں اور وہ خود بین الاقوامی دہشت گرد کہے جانے کے مستحق ہیں۔
مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیئے جانے کو ہندوستان اپنے اہم کامیابی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ بی جے پی کی انتخابی مہم میں مسعود اظہر اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ نریندر مودی اپنا 56 انچ کا سینہ تان کر دہشت گردی کے خلاف کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن سلامتی کونسل کی قرارداد کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دراصل ایک عارضی اور انتخابی فائدہ کیلئے اٹھایا گیا قدم ہے ۔ سلامتی کونسل نے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کیلئے جن کارروائیوں کا حوالہ دیا ، ان میں پلوامہ ، پٹھان کوٹ اور اری میں ہوئے دہشت گرد حملوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ ہندوستان کی کامیابی اس وقت تصور کی جاتی جب اقوام متحدہ مسعود اظہر کو پلوامہ اور دیگر دہشت گرد کارروائیوں کیلئے ذمہ دار تسلیم کرتا ۔ صرف دہشت گرد کا لیبل لگا دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یوں تو پاکستان میں پہلے ہی سے کئی مخالف ہندوستان تنظیمیں اور ان کے دہشت گرد آزادانہ گھوم رہے ہیں ۔ ممبئی 26 /11 حملوں کے ذمہ دار ذکی الرحمن لکھوی اور جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید اور صلاح الدین پاکستان سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ پاکستان نے پلوامہ اور دیگر دہشت گرد حملوں سے مسعود اظہر کو عملاً بچالیا ہے ۔ لہذا ہندوستان کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کا موقع نہیں رہا۔ ہندوستان کی کامیابی اس وقت تصور کی جائے گی جب مسعود اظہر کو ہندوستان کے حوالے کیا جائے گا ۔ جس طرح اجمل قصاب کے خلاف ہندوستانی قانون کے مطابق مقدمہ چلاکر سزا دی گئی، اسی طرح دہشت گرد کارروائیوں کیلئے مسعود اظہر کو بھی ہندوستان حاصل کرے اور مقدمہ چلائے ۔ محض دہشت گرد قرار دینے اور فنڈس بند کردینا مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ یہ وہی دہشت گرد ہے جسے بی جے پی حکومت نے رہا کیا تھا ۔ اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے مسعود اظہر کو قندھار لے جاکر رہا کیا تھا ۔ جہاں تک ہندوستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کا سوال ہے، پاکستان نے پہلے سے موجود دہشت گردوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی کہ اب مسعود اظہر کے خلاف کارروائی کی امید کی جائے گی ۔ صرف دہشت گردوں کی فہرست تیار کرلینے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عمران خاں کو کارروائی کرتے ہوئے سنجیدگی کا ثبوت دینا پڑے گا ۔ مسعود اظہر کا معاملہ تو محض ایک دکھاوے سے کم نہیں تاکہ نریندر مودی کی بے جان مہم میں نئی جان پھونک دی جائے ۔ عمران خاں نریندر مودی کے بیرون ملک اسٹار کیمپنر کی طرح چین کو منانے میں کامیاب ہوگئے ۔ جب چاہا دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کی اور جب چاہا ان کے خلاف کارروائی کی بات کہی گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان پلوامہ اور دیگر دہشت گرد حملوں کے معاملہ میں مسعود اظہر کو سزا دلانے میں کس حد تک کامیاب ہوگا۔ اقوام متحدہ کو یہ تسلیم کرانے میں کہ مسعود اظہر ہندوستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے، مزید کئی سال گزر جائیں گے ، اس وقت تک ہندوستان کے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ ویسے بھی بی جے پی کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے زیادہ انتخابات میں کامیابی کی فکر ہے۔ آخری تین مراحل میں مسعود اظہر کے مسئلہ کو بھنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ نریندر مودی حکومت کا گودی میڈیا ملک کے تمام مسائل کو پس پشت ڈال کر مسعود اظہر مسئلہ میں نریندر مودی کی کامیابی کے گن گا رہا ہے۔ جس ٹی وی چیانل کو دیکھیں اینکرس اپنا گلا پھاڑ کر رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومت سے جس قدر مدد ملی ہوگی، وہ چیانل اور اینکر اسی قدر مودی کے گن گائے گا۔ قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بیشتر گھرانے مودی کی بھجن منڈلی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ آخری تین مراحل کے نتائج کے بارے میں بی جے پی فکرمند ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن نریندر مودی کو ہر معاملہ میں کلین چٹ دیتے ہوئے اپنی غیر جانبداری کو داؤ پر لگا چکا ہے ۔ دوسری طرف کانگریس کے صدر راہول گاندھی کو نوٹس پر نوٹس دی جا رہی ہے اور عدالت نے انہیں معذرت خواہی کیلئے مجبور کردیا۔ الیکشن کمیشن اپنی غیر جانبداری کے لاکھ دعوے کرلے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں کمیشن کا نرم گوشہ برسر اقتدار پارٹی کے ساتھ رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے دستوری اداروں میں کچھ اس طرح مداخلت کی کہ وہ ادارے بھی حکومت کے خلاف کارروائی کے سلسلہ میں تذبذب کا شکار ہیں۔ افتخار عارف کا یہ شعر انتخابی غیر یقینی صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
یہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہوگا