محمد ریاض احمد
گھر میں میت رکھی ہوئی ہے متوفی یا متوفیہ کے غمزدہ ارکان خاندان کے شدت غم سے رونے کی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہی ہیں ، پرسہ دینے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ قریب میں لوگ کرسیوں پر بڑے آرام سے بیٹھے دنیا و مافیہا سے بے خبر ساری توجہ اپنے ہاتھوں میں موجود کسی چیز پر مرکوز کئے ہوئے ہیں اور وہ بار بار اپنی انگلیوں کو حرکت دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے کچھ فاصلے پر کچھ اور لوگ ہیں جو جسمانی طور پر تو موجود ہیں لیکن عجیب و غریب انداز میں بڑی اونچی آواز میں خود سے بزنس یا پھر کام کاج کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔ کسی کا لہجہ انتہائی دھمکی آمیز تھا تو کوئی التجاء کررہا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے وہ اپنے ہاتھ کبھی بائیں کبھی دائیں، کبھی اوپر کی جانب اور کبھی نیچے کی طرف لہرا تے۔
دوسرا منظر شادی خانہ کا ہے جہاں لوگ تقریب نکاح میں نئے جوڑے اور ان کے والدین و بھائی بہنوں کو مبارکباد دینے جمع ہوئے ہیں۔ یہ ایسا موقع ہے جب لوگوں کو ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی لوگ اپنے ہاتھوں میں موجود آلہ کے بٹن بار بار دباتے ہوئے اس پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنے آپ میں ہنستے بھی جاتے ہیں، وہ کس لئے ہنس رہے ہیں اور کس پر ہنس رہے ہیں اس بارے میں ان لوگوں کو ہی پتہ ہوگا۔
اس طرح تیسرا منظر ایک گھر میں اہتمام کردہ تقریب کا ہے، یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب لوگ آپس میں باتیں کرتے ، ایک دوسرے کی خوشیاں اور غم بانٹ لیا کرتے ہیں لیکن اس تقریب میں بھی چھوٹے بڑے ایک دوسرے سے بات کرنے کی بجائے اپنے ہاتھوں میں تھامے کسی چیز پر ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں وقفہ وقفہ سے وہ اپنے آپ میں کچھ بڑبڑاتے ہیں پھر زور زور سے ہنسنے لگتے ہیں۔ اس ماحول پر وہاں موجود کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا۔
چوتھا منظر ایک قبرستان کا ہے جہاں تدفین ہورہی ہے۔ مرحوم یا مرحومہ کے قریبی رشتہ داروں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ قریب کچھ لوگ اپنی دنیا میں مگن ہیں ان کی ساری توجہ ان کے ہاتھوں میں موجود ایک الیکٹرانک آلہ پر ہے جس پر نظر جمائے ہوئے مسکرا مسکرا کر باتیں کررہے ہیں۔ ان کے چہروں پر کبھی برہمی کے آثار بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ غرض ایسے لوگ اور ایسے مناظر صرف گھروں، اسکولوں، کالجوں، دفاتر، تقاریب، خوشی وغم کے موقعوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ہر طرف دیکھے جارہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوشی و غم کے ان اہم ترین موقعوں پر سڑکوں اور نجی محفلوں، گھروں اور بازاروں، اسپتالوں اور سرکاری دفاتر و تعلیمی اداروں میں ساری توجہ اپنے ہاتھوں میں موجود الیکٹرانک آلہ پر مرکوز کرنے والے لوگ کہیں اپنا ذہنی توازن تو نہیں کھو بیٹھے جو دوسروں سے دوری اختیار کرکے تنہائی پسند ہوکر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ خود ہی ہنس بھی رہے ہیں اور اظہار افسوس بھی کرنے لگے ہیں۔ کیا ان لوگوں میں اب دوسروں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رہی ؟۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کیلئے ہم آپ کو مزید انتظار کرنے کی زخمت نہیں دیں گے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان لوگوں کا نہ تو ذہنی توازن بگڑا ہے اور نہ ہی ان میں کسی کا سامنا کرنے کا خوف پایا جاتا ہے۔ اور ہم نے مذکورہ مناظر میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں جس چیز کے ہونے اور اسی پر ان لوگوں کی توجہ مرکوز ہونے کا ذکر کیا ہے وہ دراصل موبائیل فونس ہیں، اور یہ تمام کے تمام موبائیل فونس کے عادی بلکہ اس کے استعمال کی لت میں مبتلاء ہوگئے ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو ایک سال کے بچے سے لیکر 100سال کے بوڑھے سب کے سب موبائیل فونس کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ہر لمحہ خود کو موبائیل فونس سے جدا نہیں کرتے۔ ہم یہ بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ یہ چھوٹا سا موبائیل فون انسانوں میں دروغ گوئی، غیبت، دھوکہ دہی، مکاری، بے خوابی اور تہنائی پسندی کی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔
موبائیل فونس اور خاص طور پر انٹر نیٹ کنکشن کے حامل اسمارٹ فونس نے معاشرہ میں کافی بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ اس نے رشتہ داروں، دوست احباب کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔ لوگوں کی نیند چھین لی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ ہر کسی کی سب سے بڑی ضرورت موبائیل بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک صاحب ہیں جو موبائیل فون اور ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشیل میڈیا کے پلیٹ فارمس کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ بار بار بھائیو، بہنو کہہ کر ہندوستانی عوامی کو بقول اپوزیشن قائدین جھوٹ بول کر گمراہ کرنے والے ان صاحب نے ٹوئیٹر اور فیس بک کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کس کی بات کررہے ہیں۔آپ نے صحیح سمجھا ہم اچھے دن کا وعدہ ہنوز وفا نہ کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی جی کی بات کررہے ہیں۔ مودی جی کے حامیوں ، ہمدردوں اور ہمارے ملک کے زرخرید غلام میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ٹوئیٹر پر مودی جی کے 31 ملین اور فیس بک پر 41.8 ملین فالوورس ہیں۔ مودی جی یا امریکی مودی ( ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی اکثر لوگ امریکی مودی قرار دے رہے ہیں)۔ ایسا کیوں کہا جارہا ہے اس بارے میں دونوں ہی بہتر طور پر بتاسکتے ہیں۔
جہاں تک موبائل فونس کا سوال ہے ساری دنیا بالخصوص ہندوستان میں ان کا استعمال اس قدر عام ہوگیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم ،منتری سے لے کر سنتری یہاں تک کے صفائی کرم چاری اور گداگر بھی اس کا بھرپور استعمال کرنے لگے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں 750 ملین افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ اب تو ریلائنس کے مالک مکیش امبانی نے مفت جی او فونس اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کا 15 اگست سے آغاز ہونے والا ہے جس کے ساتھ مواصلاتی شعبہ میں ایک انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اس اسکیم کے تحت صارفین کو لامحدود 4Gڈاٹا حاصل ہوگا۔ اس طرح مکیش امبانی ’’انڈیا کا اسمارٹ فون‘‘ کے ذریعہ مودی حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کو ایک نئی جہد عطا کررہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی ان کے کئی خفیہ مقاصد پوشیدہ ہوں۔ ہندوستان میں اسمارٹ فونس کا استعمال اس قدر عام ہوگیا ہے کہ یہ بلالحاظ عمر ہر کسی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال ہندوستان میں 90 ہزار کروڑ روپئے مالیاتی موبائل فونس تیار کئے گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی مواصلاتی مارکٹ بن چکا ہے۔ یہی نہیں ہندوستان نے پچھلے سال 24,364 کروڑ روپئے مالیاتی ہینڈ سٹ برآمد کئے۔ ملک میں مواصلاتی مارکٹ کی تیز تر ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2014-15 میں 18,900 کروڑ روپئے مالیاتی ہینڈ سٹ کی تیاری عمل میں آئی۔ سال 2015-16 میں بڑھ کر وہ 54ہزار کروڑ روپئے مالیاتی ہوگئے اور پھر 2016-17میں 90 ہزار کروڑ روپئے کے موبائل ہینڈ سٹ تیار کئے گئے۔ عام ہندوستانیوں سے لے کر ہمارے ارکان اسمبلی، ارکان قانون ساز کونسل اور ارکان پارلیمنٹ بھی موبائل فونس اوراس کے ایپس کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ موبائل فونس نے جہاں سوشیل میڈیا کے فروغ میں اہم رول ادا کیاہے وہیں یہ سرکاری و نجی اداروں ، حکام اور فوج جیسے حساس اداروں کے راز فاش کرنے کا بھی ذریعہ بن گیا ہے۔ حال ہی میں ایک فوجی جوان نے فوجیوں کو دیئے جانے والے ناقص کھانے کے ویڈیو فوٹیجس روانہ کرتے ہوئے ہلچل پیدا کردی تھی۔ اسی طرح کشمیر میں ایل او سی کے قریب ایک فوجی جوان نے نوجوان میجر کو صرف اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس نے گارڈ ڈیوٹی کے دوران موبائل فون استعمال کرنے سے منع کیا تھا۔ ہندوستانی شہری اسمارٹ فونس کی کراس پلیٹ فارم انسٹانٹ مسیجنگ سروس کا بھی بے تحاشہ استعمال کرنے لگے ہیں۔ واٹس اپ کی وائس کالس ، ویڈیو کالس، ٹکسٹ مسیج سروسس، تصاویر، ویڈیوز، دستاویزات اور آڈیو فائیلس بھیجنے کی خدمات کا بھی ہندوستانی دل کھول کر استعمال کررہے ہیں۔ واٹس اپ اور فیس بک کے ذریعہ فرقہ پرست عناصر نے ملک کے کونے کونے میں فسادات برپا کرائے ہیں۔ اور ان کی شرپسندی کا سلسلہ ہنوز جاری ہیں۔ جہاں تک واٹس اپ استعمال کرنے والوں کی تعداد کا سوال ہے اس کے صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاویز کرگئی ہے۔ دنیا بھر میں یومیہ سو ملین واٹس اپ کالس کئے جاتے ہیں۔ یومیہ 55ارب پیامات ، ایک ارب ویڈیوز اور 14.5 ارب تصاویر واٹس اپ کے ذریعہ شیئر کی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں واٹس اپ کے 200 ملین صارفین ہیں۔ جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان میں فیس بک کے 182.9 ملین صارفین ہیں۔ اب چلتے ہیں ٹوئٹر کی جانب یہ بریکنگ نیوز کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ ٹوئٹر دراصل آن لائن نیوز اور سوشیل نٹ ورکنگ سروس ہے۔ اور ہندوستان میں اس کے فروغ میں مودی جیسے سیاستدانوں کا اہم کردار ہیں۔ اگرچہ مودی اس زعم میں مبتلا ہے کہ ٹوئٹر پر ان کے سب سے زیادہ فالو ورس ہیں لیکن این بی سی کیلئے کام کرنے والی امریکی صحافی میگن کیلی نے ان سے حال ہی میں یہ سوال کرتے ہوئے اس زعم کو چکناچور کردیا کہ آیا آپ ٹوئٹر پر ہیں ؟ مودی جی امریکی صحافی کے اس سوال پر ہکا بکا رہ گئے اور مجبوراً اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بکھیر دی۔ ہندوستانیوں میں سیلفی لینے کا رجحان بھی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے مودی جی نے اس رجحان کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے لیکن کارنیگی میلن یونیورسٹی اور اندرا پرشٹا انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے Me Myself and My Killfie کے زیر عنوان ایک جائزہ کا اہتمام کیا جس میں بتایا کہ دنیا میں 2014تا 2016 سیلفی لینے کی کوشش میں 127 مرد و خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔ جن میں 76 اموات (تقریباً 60 فیصد ) ہندوستان میں درج کی گئی۔ اس مدت کے دوران پاکستان میں 9 ، امریکہ میں 8، روس میں 6، لوگ سیلفی لیتے ہوئے موت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ بہرحال موبائل فونس اور سوشیل میڈیا نے انسانوں کا سکون و قرار چھین لیا ہے۔ انھیں اپنا ایسا اسیر بنایا ہے کہ لاکھ کوششوں کے بعد انسان اس لت سے باہر نہیں نکل سکتا۔
mriyz2002@yahoo.com