یہ ملک سب کا ہے

میرا کالم سید امتیاز الدین
ہم کو اکثر خیال آتا تھا کہ پتہ نہیں پاگل خانے میں پاگل آپس میں کیا گفتگو کرتے ہوں گے ۔ ہم نے یہی بات اپنے ایک دوست سے پوچھی جو دماغی امراض کے معالج ہیں ۔ جب ہم نے دوران گفتگو لفظ پاگل کا استعمال کیا تو ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ۔ کہنے لگے ’’خبردار جو آئندہ لفظ پاگل استعمال کیا ۔ تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ تم جیسے ناواقف لوگ جسے پاگل خانہ کہتے ہیں اس کا صحیح نام انسٹی ٹیوٹ آف منٹل ہیلتھ ہے‘‘ ۔ انھوں نے بتایا کہ پاگل تو وہ ہوتا ہے جسے اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ اخبار اٹھا کر دیکھو تو پتہ چلے گا کہ کئی لوگ کھلے عام ایسی باتیں کرتے پھرتے ہیں جن میں ہوش مندی ، اخلاق و آداب کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا ۔ فی الحقیقت انھیں پاگل کہنا چاہئے ۔ ہم نے اپنے دوست کی کہی ہوئی باتوں پر غور کیا تو ہم قائل ہوگئے کہ واقعی پچھلے کچھ مہینوں سے ایسی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کا سر پیر کچھ نہیں ہے ۔ ایک صاحب ملک کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو تخلیے کا حکم دیتے ہیں ۔ کوئی افزائش نسل کے لئے پریشان اور سرگرداں ہے ۔ کوئی صاحب رنگ و نسل کے گوری چمڑی کالی چمڑی کے چکر میں اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کررہے ہیں ۔ کوئی صاحب اپنی تحقیق سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تاج محل شاہ جہاں نے نہیں کسی اور نے بنایا تھا ۔ اسی نقار خانے سے اب ایک نئی آواز نکلی ہے ۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ مسلمانوں سے ان کا ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے ۔ ان کا استدلال ہے کہ اگر ووٹ دینے کا یہ حق چھین لیا جائے تو ووٹ بینک کی سیاست ختم ہوجائے گی ۔

دلجوئی کی سیاست مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے ۔ ہمارے خاص کرم فرما ساکشی مہاراج جو اب تک کئی مضحکہ خیز بیانات دے چکے ہیں اور بعد میں معافی بھی مانگ چکے ہیں کب پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے اپنے زرخیز دماغ سے ایک اور بیان دے ڈالا کہ سخت ترین فیملی پلاننگ کو روبہ عمل لایا جائے ۔ اور جو خاندانی منصوبہ بندی پر عمل پیرا نہ ہو اس سے اس کا حق رائے دہی چھین لیا جائے ۔ انھوں نے سارے ملک کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ چار بیویوں سے چالیس بچے پیدا کررہے ہیں اور ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ ہماری ملاقات آج تک کسی چالیس بچوں کے باپ سے نہیں ہوئی ۔ ایک ہم ہی پر کیا منحصر ہے ، اگر کسی شخص کے ہمارے ملک میں چالیس بچے ہیں تو اب تک دنیا بھر کے اخبارات میں اس کا فیملی گروپ فوٹو شائع ہوجاتا بلکہ گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس کا نامدرج ہوجاتا ۔

ابھی بھی ہمارے ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں ضبط و تحمل اور بھائی چارے کا جذبہ موجود ہے ۔ کئی سمجھدار لوگوں اور انجمنوں نے بیان دیئے کہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کردینے کی تجویز غیر دستوری اور ناقابل عمل ہے ۔ خود برسراقتدار جماعت نے اس معاملے میں دوری اختیار کرلی ۔ کل ہم کو معلوم ہوا کہ ملک بھر میں اس تجویز کو اتنا ناپسند کیا گیا کہ جن صاحب سے اس بیان یا اخبار کے اداریے کو منسوب کیا گیا انھوں نے جھینپ مٹانے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ ہر شخص جس کے منہ میں زبان ہے کچھ نہ کچھ کہے چلا جارہا ہے ۔ یہ بڑی نازیبا بات ہے ۔ ایسے لوگوں کو خود اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کے خیالات کس قدر بے وقعت ہیں ۔ ایسے وقت جبکہ سوچھ بھارت ابھیان چل رہا ہے اور صفائی ستھرائی کی اہمیت پر زور دیا جارہا ہے ایسے بیانات سے گندگی پھیلتی ہے ۔ حکومت یا برسر اقتدار پارٹی اس سے دوری اختیار کرتی ہے تو یہ معاملے کا حل نہیں ہے ۔ ایسے اقدامات اختیار کئے جانے چاہئیں کہ ہر ایک کی زبان قابو میں رہے ۔ آج کے اخبار میں ایک اور بیان شائع ہوا ہے کہ آنجہانی بابا صاحب امبیڈکر تقسیم ہند کے وقت سارے مسلمانوں کی منتقلی کے حامی تھے ۔ کسی بھی ایسی شخصیت کے تعلق سے ایسی بات منسوب کردینا جو آج دنیا میں موجود نہیں ہے اور تائید یا تردید کے موقف میں نہیں ہے کہاں تک درست ہے ۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ بابا صاحب امبیڈکر ایک مانے ہوئے قانون داں تھے اور دستور ہند کے اہم ترین معمار تھے ۔ ہمارے دستور کا ایک زرین اور ساری دنیا کے لئے قابل تقلید نکتہ یہ ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے جس میں تمام شہریوں کو یکساں اور مساوی حقوق دئے گئے ہیں ۔ غالب نے کہا تھا ؎
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے
ہمارا ملک ان رنگارنگ پھولوں سے مہک رہا ہے اور ساری دنیا کے لئے یکجہتی اور اتحاد کی ایک انوکھی مثال ہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدر ٹریسا کو بابا صاحب امبیڈکر سے پہلے بھارت رتن کا خطاب دیا گیا ۔ اس پر ہمیں ایک بات یاد آگئی ۔ جب ڈاکٹر راجندر پرساد ملک کے پریسیڈنٹ تھے تو ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر تھے۔ جب راجن بابو 1962 ء میں صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو رادھا کرشنن صدر بنے ۔ بحیثیت پریسیڈنٹ رادھا کرشنن نے راجندر پرساد کو بھارت رتن کا اعزاز پیش کیا ۔ اپنی تقریر میں رادھا کرشنن نے کہا کہ بھارت رتن کا اعزاز راجن بابو کو بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا لیکن بحیثیت پریسیڈنٹ ڈاکٹر راجندر پرساد خود سرچشمہ اعزاز تھے اور انہی کے ہاتھوں اہم شخصیتیں اعزاز و اکرام سے نوازی جاتی تھیں ۔ اب چونکہ وہ صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں اس لئے ہم کو یہ عزت ملی ہے کہ ان کی خدمت میں بھارت رتن کا اعزاز پیش کریں۔ رہی بات مدر ٹریسا کی تو یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ مدر ٹریسا کو ان کی فلاحی خدمات کے صلے میں 1979 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا ۔ ساری دنیا ان کی عزت کرتی تھی ۔ ان کی سادگی اور ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ وہ مریضوں ، لاچاروں اور جذام کے مریضوں کے ہاتھ تھام لیتی تھیں ۔ ان کے جدبہ خدمت کو کچھ اور نام دینا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں معلوم ہوتا ۔

قصہ مختصر ، جو لوگ غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں خود ان کو بھی معلوم ہے کہ ان کی باتوں میں کچھ دم نہیں ہے اور خود انہی کو ایک دو دن میں یا تو معافی چاہنی پڑے گی یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ ہم نے ایسا کہا ہی نہیں تھا ۔ تعلیم ہو ،ملک کا دفاع ہو ، کھیل کا میدان ہو ، آرٹ ہو ، فنون لطیفہ ہو ، جنگ آزادی کے کارنامے ہوں ، حب الوھنی ہو ، قانون کی پاسداری ہو ، بھائی چارہ ہو ، ایثار و قربانی ہو ۔ اس ملک کی تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں جو مسلمانوں کے تذکرے سے خالی ہو ۔ ہم کو اپنے کارناموں پر فخر ہے لیکن ہم کو اس بات کا احساس ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جو کچھ کیا وہ ان کا فرض تھا ۔ وطن کی خدمت کرکے کوئی وطن پر احسان نہیں کرتا جیسے ماں باپ کی عزت اور خدمت کرکے کوئی اس غلط فہمی میں نہیں رہ سکتا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ۔ لیکن جب کوئی ہماری حب الوطنی پر شک کرے تو تکلیف ہوتی ہے۔ جو لوگ آج حق رائے دہی سے محروم کرنے کی بات کررہے ہیں کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان سے زندگی کی دوسری سہولتیں بھی چھین لی جائیں ۔ جب آدمی نا سمجھی پر اتر آئے تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پھول سے اس کی خوشبو چھین لی جائے کیونکہ پھول کی مہک اسے ناگوار ہے ۔ بچوںسے ان کی مسکان چھین لی جائے کیونکہ معصومیت اور بھولپن اسے پسند نہیں ۔ دلوں سے جذبۂ محبت چھین لیا جائے کیونکہ اس سے امن و امان اور بھائی چارہ پھیلتا ہے ۔شاعری جنم لیتی ہے ۔

ایسی باتیں کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کے کہنے سے کچھ ہوتا نہیں ہے ۔ اس سے مقصود صرف دل آزاری ہے ۔ برادران وطن اتنے وسیع النظر ہیں کہ ان پر ایسی تجاویز کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ یہ ضرور ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے زہر افشانی کچھ زیادہ ہوگئی ہے ۔ سوچھ بھارت کی مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہونا چاہئے کہ نہ صرف کچرا اور گندگی ہٹالی جائے بلکہ ایسی باتوں پر بھی روک لگائی جائے جن میں کچرے اور گندگی سے بڑھ کر غلاظت ہے ۔

ابھی کل شام کی بات ہے ۔ ہم کو ایک ایسے جلسے میں شرکت کا موقع ملا جو حیدرآباد کی ایک ثقہ اور وضعدار شخصیت رائے موہن پرشاد کی یاد میں منعقد ہوا تھا ۔ موہن پرشاد کا مارچ کی آخری تاریخوں میں امریکہ میں انتقال ہوا تھا ۔ ان کے والد رائے جانکی پرشاد حیدرآباد کے اہم لوگوں میں شمار ہوتے تھے ۔ آصف جاہی سلطنت ختم ہوگئی لیکن جانکی پرشاد کی وضع قطع اور پہناوے میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ انھوں نے اپنے چاروں لڑکوں کشن پرشاد ، موہن پرشاد ، ڈاکٹر رام پرشاد اور منوہر پرشاد کو اردو میڈیم کے ذریعے تعلیم دلوائی ۔ موہن پرشاد نے آصفی عہد کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے حیدرآباد فرخندہ بنیاد ۔ اس کتاب کو ان کے چھوٹے بھائی منوہر پرشاد نے مرتب کیا ۔ موہن پرشاد کے مضامین سیاست میں پابندی سے شائع ہوتے تھے ۔ ڈاکٹر رام پرشاد نے بتایا کہ اپنے نسخوں میں مریضوں کو دوا کے استعمال کی ہدایات وہ اردو ہی میں لکھتے ہیں ۔ ان بھائیوں کے گھروں میں روزنامہ سیاست پابندی سے آتا ہے ۔ اور تو اور اس خاندان کی تیسری نسل کے نمائندے ڈاکٹر روی کمار نے اپنے تاتا موہن پرشاد کی یاد میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے اردو کے برمحل اشعار سنا کر سب کو متاثر کیا ۔ بہرحال ! اس تعزیتی جلسے سے ہم یہ تاثر لے کے اٹھے کہ چند مٹھی بھر لوگوں کی زہر افشانی سے کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ ملک سب کا ہے ، سب کا رہے گا ۔ یہی اس ملک کی شناخت ہے ۔ اس کی طاقت ہے ۔