یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں

مہاراشٹرا کے نتائج… یو پی پر کس قدر اثر انداز
اکھلیش نے مودی کو جانوروںمیں الجھادیا

رشیدالدین
ایسے وقت جبکہ اترپردیش کے انتخابات پر ملک بھر کی نظریں ہیں۔ مہاراشٹرا کے مجالس مقامی چناؤ میں بی جے پی نے شیوسینا کو پچھاڑکر سیاسی پنڈتوں کے اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔ 10 کارپوریشنوں اور 25 ضلع پریشدوں میں بی جے پی کا مظاہرہ چونکا دینے والا رہا۔ ممبئی جو شیوسینا کا گڑھ مانا جاتا ہے، تنہا مقابلہ کے باوجود بی جے پی نے برابری کی ٹکر دی اور کارپوریشن پر تنہا حکمرانی کے شیوسینا کے خواب کو بکھیر دیا۔ واحد بڑی پارٹی کے باوجود شیوسینا کو کارپوریشن پر حکمرانی کیلئے بی جے پی کی تائید پر انحصار کرنا پڑے گا۔ مہاراشٹرا کے چناؤ میں کانگریس ، این سی پی اور ایم این ایس کا کمزور مظاہرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رائے دہندوں پر نوٹ بندی کا کوئی اثر نہیں پڑا اور سیاسی مبصرین رائے دہندوں کے ذہن کو پڑھنے میں نا کام ہوگئے۔ مہاراشٹرا کے یہ چناؤ یقینی طور پر اہمیت کے حامل ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کے دست راست چیف منسٹر دیویندر فڈنویس نے اپنی سیاسی چالوں سے شیوسینا کو مات دیدی ۔ شیوسینا خود کو مہاراشٹرا کے سیاہ و سفید کی مالک سمجھنے لگی تھی، اب تو وہ غرور بھی انتخابی نتائج سے ٹوٹ چکا ہے۔ اترپردیش چناؤ کے دوران مہاراشٹرا کے نتائج کا یو پی میں بی جے پی کو کس حد تک فائدہ ہوگا اس پر نئی بحث چھڑ چکی ہے لیکن یہ طئے ہے کہ مہاراشٹرا کی کامیابی نے بی جے پی کیڈر کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے ۔ نریندر مودی نے مہاراشٹرا میں انتخابی تقاریر نہیں کی۔ اس کے باوجود غیر متوقع مظاہرہ اترپردیش پر کسی نہ کسی حد تک ضرور اثر انداز ہوگا۔ بی جے پی اور شیوسینا کے تنہا مقابلہ کی صورت میں ووٹ کی تقسیم سے سیکولر جماعتوں کو فائدے کے اندازے محض خوش فہمی ثابت ہوئے۔ بی جے پی اور شیوسینا کا ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار ہے۔ نقصان تو کانگریس اور این سی پی کا ہوا جو مہاراشٹرا میں ناقابل تسخیر سمجھے جاتے تھے لیکن آج یہ دونوں پارٹیاں سکڑنے لگی ہیں۔ جس طرح بی جے پی کی نشستوں میں اضافہ ہوا ، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ سیکولر جماعتوں کا ووٹ بینک بکھر کر بی جے پی کی طرف چلا گیا۔ نومبر میں نوٹ بندی کے بعد کی صورتحال میں مہاراشٹرا کے نتائج گجرات اور اڑیسہ میں مجالس مقامی میں بی جے پی کی کامیابی کا تسلسل دکھائی دے رہے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں لوک سبھا اور اسمبلی نشستوں کے ضمنی چناؤ میں بھی بی جے پی نے اپنی نشستوں کو برقرار رکھا ۔ نوٹ بندی سے پریشانی اور قطاروں میں اموات کے باوجود عوام کا بی جے پی کی تائید کرنا مودی حکومت کی مقبولیت سے زیادہ اپوزیشن کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ۔ اترپردیش میں قانون ساز کونسل کی نشستوں کے چناؤ میں بھی بی جے پی کو کامیابی ملی ۔ جہاں جہاں اپوزیشن کمزور ہے ، وہاں بی جے پی کو چانس بن گیا۔ مہاراشٹرا میں کانگریس اور این سی پی کا برا حال ہے۔ داخلی خلفشار اور مقبول قیادت کی کمی نے نقصان پہنچایا تو دوسری طرف این سی پی کی قیادت ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرح ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے ۔ عوام اور ان کے مسائل سے دوری نے دونوں پارٹیوں کا یہ حشر کردیا۔ شیوسینا سے جب بی جے پی کو کھلا چیلنج درپیش ہوگیا تو اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا کیڈر بی جے پی کے حق میں متحرک ہوگیا ۔ ناگپور ہیڈکوارٹر سے بی جے پی کی مدد کی گئی اور کیڈر نے ٹریننگ کے مطابق کام کیا۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو اپنے سیاسی ونگ کی کامیابی عزیز تھی ۔ مہاراشٹرا کی کامیابی کو بی جے پی ، اترپردیش میں بھنانے کی کوشش کرے گی ۔ گجرات ، اڑیسہ اور مہاراشٹرا کی کامیابیوں کو الیکٹرانک میڈیا میں کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے جیسے مجالس مقامی کے نہیں بلکہ اسمبلی چناؤ میں جیت حاصل ہوئی ہو۔ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونا ان کا مقصد ہے ۔

جہاں تک پانچ ریاستوں کے چناؤ کا تعلق ہے ، پنجاب اور گوا میں بی جے پی کو اقتدار بچانا ہے جبکہ یو پی اور اتراکھنڈ میں اقتدار پر قبضہ کی کوشش ہے۔ اگر دونوں ریاستوں میں شکست ہو تب بھی بی جے پی کا نقصان نہیں ہوگا جبکہ یو پی میں سماج وادی اور اتراکھنڈ میں کانگریس کا وقار داؤ پر لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ  نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے کوئی حربہ ایسا نہیں چھوڑا جس سے ذرا بھی فائدہ ہوتا ہو۔ نریندر مودی نے اترپردیش میں اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے۔ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں۔ دن رات بھوکے پیاسے رہ کر عوام کی خدمت کا دعویٰ اور 125 کروڑ عوام کو اپنا مالک بتانا تو انتخابی اسٹیج سے اچھا لگتا ہے لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں عوام کی بھلائی کا کم از کم ایک کارنامہ تو بیان کریں ۔ تین برس میں کتنے خاندانوں کو سطح غربت سے اوپر اٹھایا گیا۔ کتنے روزگار فراہم کئے گئے۔ کتنے ناخواندہ افراد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا؟ سوچھ بھارت کی صفائی مہم صرف ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات تک محدود ہوچکی ہے ۔ آج بھی 40 کروڑ عوام سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 18 کروڑ افراد کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ فاقہ کشی کے باعث  ان کے پیٹ اور پیٹھ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ۔ تین برسوں میں سوائے بھاشن ، چناوی جملوں اور بیرونی دوروں کے سوا کچھ نہیں کیا گیا ۔ ڈھائی برس میں 40 سے زائد ممالک کا دورہ گنیس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوسکتا ہے ۔ بیرونی ملک سے کالے دھن کی واپسی ، ہر شخص کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا ا علان اور  نہ جانے کیا کیا خواب دن کی روشنی میں عوام کو دکھائے گئے۔ یہ تسلسل ابھی بھی جاری ہے اور وزیراعظم سپنوں کے سوداگر کی طرح اترپردیش کی انتخابی مہم میں  مصروف ہیں ۔ اترپردیش کی کامیابی کیلئے رام مندر اور طلاق ثلاثہ جیسے متنازعہ موضوعات انتخابی منشور میں شامل کئے گئے لیکن مندر تحریک سے وابستہ ونئے کٹیار کو کہنا پڑا کہ رام مندر مسئلہ کی شمولیت محض رسمی ہے، اس میں پارٹی سنجیدہ نہیں۔ سوٹ بوٹ کی سرکار چلانے میں ماہر نریندر مودی نے نوٹ بندی کے ذریعہ ہر شخص کو سڑک پر لاکھڑا کیا ۔ اس فیصلہ سے ملک میں شرح ترقی کی رفتار سست ہونے کا اعتراف خود حکومت نے کیا ہے ۔ الغرض  ملک کی ترقی کی رفتار کو سست کرنا مودی حکو مت کا کارنامہ ہے ۔ کالا دھن جب بیرون ملک سے لانا ہے تو پھر نوٹ بندی کیوں کی گئی؟ اس فیصلہ سے کتنا کالا دھن حاصل ہوا ، اس کی وضاحت ہونی چاہئے ۔ اترپردیش کے ہر انتخابی مرحلہ میں مودی کا رنگ جداگانہ تھا۔ بسا اوقات وہ ایسی باتیں کرنے لگے جو وزارت عظمیٰ پر فائز شخصیت سے میل نہیں کھاتی۔ سرجیکل اسٹرائیک اور پاکستان کا مسئلہ جب چل نہیں سکا تو نچلی سطح کے ذاتی ریمارکس کرنے لگے۔ یہ بدحواسی اور بوکھلاہٹ نہیں بلکہ جنونی کیفیت کا حصہ ہے۔ کامیابی کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

اترپردیش میں بی جے پی نے کمیونل کارڈ کھیلنے کی تیاری کرلی ہے ۔ چار مراحل کے اختتام کے بعد رام مندر مسئلہ کو دوبارہ ہوا دی گئی۔ اطلاعات کے مطابق مندر کی تعمیر سے متعلق سرگرمیوں کو رائے دہندوں کے درمیان پیش کرتے ہوئے ہندو ووٹ متحد کرنے کی سازش ہے ۔ وشواہندو پریشد نے 80 فیصد تیاری کا دعویٰ کرتے ہوئے ایودھیا تنازعہ کو انتخابی موضوع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے ۔ اترپردیش میں جب کبھی چناوی موسم آتا ہے تو رام مندر کا مسئلہ سرفہرست رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود الیکشن کمیشن مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کے خلاف کارروائی سے قاصر دکھائی دے رہا ہے ۔ ترقی اور عوامی خدمت کے کارناموں کے بجائے انتخابی مہم شخصی حملوں تک محدود ہوچکی ہے ۔ اترپردیش کے رائے دہندوں کیلئے قائدین اپنی تقاریر کی ذریعہ تفریح طبع کا انتظام کر رہے ہیں۔ قبرستان ، شمشان ، اجمل قصاب حتیٰ کہ جانور بھی انتخابی مہم پر چھائے ہوئے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے گدھے کی خصوصیات اور خوبیوں پر روشنی ڈالی۔ انتخابات میں جانوروں کا کیا کام ہے ؟ مودی نے گجرات کے گدھوں سے سماج وادی کے خوف کی بات کہی لیکن وہ یہ مثل شائد بھول گئے کہ ’’گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یہ جانور کسی علاقہ کا کیوں نہ ہو فطرت تو یکساں ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا نام خود گالی بن چکا ہے ۔ اس کی محنت اور وفاداری کے معترف نریندر مودی کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون سازی کے ذریعہ نام تبدیل کردیں۔ نریندر مودی کے جارحانہ موقف کو دیکھتے ہوئے اکھلیش یادو نے نئی چال چلی اور مودی کو مسائل سے ہٹاکر جانوروں میں الجھانے میں کامیاب ہوگئے ۔ مودی نے قبرستان اور شمشان ، رمضان ، دیپاولی ، ہولی اور عید کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے ، دراصل چناوی مہم کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش ہے۔ جہاں تک شمشان اور قبرستان سے مودی کی دلچسپی کا سوال ہے ، گجرات کے تجربہ کی روشنی میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر مودی کے عزائم کیا ہیں۔ انہیں اچانک قبرستان اور شمشان کی ضرورت کیوں محسوس ہونے لگی ہیں۔ رمضان میں برقی کی سربراہی پر طنز کرنے والے مودی کو جاننا چاہئے کہ اترپردیش کی حکومت نے محروم اقلیتوں کے اہم فیسٹول کے موقع پر برقی سربراہی کا انتظام کیا تھا ۔ اس کے برخلاف دیپاولی میں ہمیشہ روشنی کا معقول انتظام ہوتا ہے لیکن مودی کو رمضان کی روشنی بھی کھٹکنے لگی ہے ۔ انہیں محروم طبقات اور اکثریتی فرقہ میں تقابل کا رجحان ترک کرنا چاہئے ۔ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والے مودی کیوں اترپردیش میں سنگھ پریوار کے نمائندے کی طرح دکھائی دے رہے ہیں۔ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے   ؎
یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
اُدھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے