رشیدالدین
یو پی …مودی کا ہر وار کتنا اثردار
بی جے پی میں چھپے پاکستانی جاسوس
اترپردیش اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کیوں بے قابو ہوچکے ہیں؟ گزشتہ ڈھائی برسوں میں کئی ریاستوں میں انتخابات ہوئے لیکن اترپردیش کے معاملہ میں مودی کے تیور بالکل الگ ہیں اور انتخابی ریالیوں میں ان کا لب و لہجہ وزیراعظم کے عہدہ کے شایان شان نہیں ہے ۔ کامیابی کون نہیں چاہتا لیکن ہر ایک کی انتخابی مہم کا معیار اندرونی خوف اور اندیشہ کو ظاہر کرتا ہے ۔ کسی بھی حد تک جانے کا معاملہ کسی اور سیاستداں کے ساتھ دیکھا جائے تو عجب نہیں لیکن وزارت عظمیٰ پر فائز شخصیت کیلئے زیب نہیں دیتا کہ شخصی حملوں پر اتر آئیں۔ اترپردیش کے ہر انتخابی مرحلہ میں مودی الگ الگ رنگ میں دکھائی دیئے ۔ ان کی تقاریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کے وقار کی جنگ ہے جو کسی بھی حالت میں ہارنا نہیں چاہتے۔ دہلی کے اقتدار کا راستہ چونکہ یو پی سے ہوکر گزرتا ہے لہذا بی جے پی نریندر مودی لہر کو 2019 ء تک برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ویسے بھی دو مرحلہ گزرنے کے بعد تمام اہم جماعتوں نے مہم کو تیز کردیا ہے ۔ مخالفین کے خلاف زبانیں تیز ہوچکی ہیں۔ سماج وادی پارٹی ، کانگریس اور بی ایس پی نے بھی باقی مراحل کیلئے اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے۔ ایس پی اور کانگریس اتحاد کے اسٹار کیمپینر کی حیثیت سے اکھلیش اور راہول میدان میں ہیں۔ امیتھی اور رائے بریلی کیلئے پرینکا ووڈرا کی مقبولیت کو ووٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بیٹے سے اقتدار کی لڑائی ہار چکے ملائم سنگھ یادو اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہاری ہوئی بازی کو جیتنا ان کیلئے ممکن نہیں لیکن عمر کے اس حصہ میں وہ نہیں چاہتے کہ پارٹی کی سرپرستی کی ذمہ داری بھی ختم کردی جائے ۔ بی جے پی نے مہم کیلئے قائدین کی ایک بڑی تعداد کو میدان میں اتارا ہے جن میں جارحانہ فرقہ پرستی کے پرستار قائدین بھی شامل ہیں۔ بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈہ کا احیاء کیا تاکہ مودی کی مقبولیت کے ساتھ مل کر پارٹی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ بی جے پی کیلئے اترپردیش میں کوئی چہرہ نہیں ، لہذا نریندر مودی کو تمام تر ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لینی پڑی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یو پی کے نتائج کا اثر مودی کے سیاسی مستقبل پر پڑسکتا ہے اور ان کی ناقابل چیلنج شخصیت کی امیج متاثر ہوگی۔
اس طرح اترپردیش کے نتائج پارٹی سے زیادہ نریندرمودی کی شخصیت پر اثر انداز ہوں گے۔ کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں وہی ذمہ دار ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو جھونک دیا ہے اور نت نئے انداز میں رائے دہندوں کو لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ انہیں یہ اندیشہ ہے کہ نتائج کے حوصلہ افزاء ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ امیت شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہوگا یا پھر ان پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں ۔ ایس پی اور کانگریس اتحاد اور بی جے پی کے ٹکراؤ میں بہوجن سماج پارٹی اپنا راستہ درمیان سے تلاش کر رہی ہے ۔ مایاوتی اپنی پارٹی کی اسٹار کیمپنر ہیں اور دلت مسلم ووٹ پر محنت کر رہی ہیں۔ بی ایس پی کی مہم بھلے ہی دیگر جماعتوں کے شو آف سے مختلف ہے لیکن یو پی میں معلق اسمبلی کی صورت میں وہ بادشاہ گر کے موقف میں ابھرسکتی ہیں اور بی جے پی اقتدار پر قبضہ کیلئے بہن جی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے گریز نہیں کرے گی ۔ یوں بھی بی جے پی ۔بی ایس پی کو مخلوط حکومت کا خاصہ تجربہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے نشانہ پر ایس پی اور کانگریس ہیں جبکہ مایاوتی کے بارے میں تنقید برائے تنقید والا معاملہ ہے۔ اترپردیش انتخابات کی قومی سیاست میں اہمیت کی بعض وجوہات ہیں۔ راجیہ سبھا میں اکثریت اور صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لئے الیکشن میں بی جے پی کو زائد ووٹوں کی ضرورت پڑے گی ۔ لوک سبھا میں ا کثریت کے باوجود حکومت راجیہ سبھا میں کوئی بھی قانون بآسانی منظور کرانے سے قاصر ہے کیونکہ وہاں اپوزیشن کو اکثریت ہے۔ اترپردیش اور اتراکھنڈ میں کامیابی سے راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوگی ۔ بی جے پی یو پی انتخابات کیلئے 2019 ء تک نریندر مودی لہر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ مودی لہر اور ان کی جادو بیانی کی حقیقت تو یو پی کے نتائج سے آشکار ہوجائے گی ۔
یو پی کی مہم میں جس طرح شدت پیدا ہوئی ہے ، اس بارے میں مبصرین کے مطابق سیاسی پارٹیوں کو ابتدائی دو مرحلوں کے بارے میں رجحانات کا علم ہوچکا ہے۔ لہذا باقی کے مراحل میں سبقت حاصل کرنے ساری طاقت جھونک دی گئی ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی اب تک جتنی بھی ریالیاں ہوئیں، ہرا یک میں مودی کا انداز مختلف تھا۔ ہر ریالی کے بعد ان کے تیور مزید جارحانہ دکھائی دیئے ۔ مودی نے ابتداء میں سرجیکل اسٹرائیک ، پاکستان ، نوٹ بندی اور کالا دھن جیسے موضوعات کے ذریعہ تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ نوٹ بندی سے بدحال اور پریشان عوام ابھی ان قطاروں کو بھولے نہیں ہیں جن میں 100 سے زائد افراد فوت ہوگئے ، جو اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے پہنچے تھے ۔ آج تک عوام پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ نوٹ بندی کے فیصلہ سے کتنی بلیک منی حاصل ہوئی ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک اور نوٹ بندی سے جب کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیا تو نریندر مودی شخصی حملوں پر اتر آئیں۔ کانگریس اور سماج وادی کو خاندانوں کا اتحاد کہہ دیا ۔ راہول اور اکھلیش کے کم سیاسی تجربہ کا مذاق اڑایا۔ سوشیل میڈیا پر راہول کے بارے میں لطیفوں کا ذکر وزیراعظم نے کچھ اس طرح کیا جیسے انتخابی ریالی نہیں بلکہ کامیڈی شو ہو۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ملائم سنگھ کو ہلاک کرنے کی سازش اور 30 سال پرانے ایک واقعہ کی یاد تازہ کی ۔ اس طرح کے شخصی حملے اور الزام تراشی نریندر مودی کو بھلے ہی زیب دے لیکن وزارت عظمی کا وقار مجروح ہوگا۔ جہاں تک تجربہ کا سوال ہے ، مودی نے درست کہا کہ اکھلیش اور راہول کے پاس گجرات فسادات یا فرضی انکاؤنٹرس کا کوئی تجربہ نہیں جس کے سہارے مودی وزارت عظمی تک پہنچ گئے ۔ مودی کے پاس ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹ مانگ سکے۔ ترقی کا ایجنڈہ پیش کرنے سے قاصر کوئی اور راستہ بھی تو نہیں تھا۔ تازہ ترین تبدیلی تو یہ تھی کہ مودی نے خود کو اترپردیش کا گود لیا ہوا بیٹا قرار دیتے ہوئے عوام سے آشیرواد مانگا۔ یہ تو ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ والا معاملہ ہے۔ عام طور پر کمسن بچوں کو گود لینے کی روایت ہے لیکن یہ منفرد کیس ہے جس میں ایک 66 سالہ شخص متبنیٰ بننے کیلئے تیار ہے ۔ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے متبنیٰ نہیں بن سکتا لیکن یہاں مودی اپنے طور پر اترپردیش کا گود لیا ہوا بیٹا قرار دے رہے ہیں۔ کمال تو اس وقت ہے جب عوام خود یہ کہیں کہ مودی اترپردیش کے سپوت ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مودی اپنے کارناموں سے دلوں میں محبت پیدا کریں۔ اترپردیش کے معاملہ میں ایسا کچھ نہیں ہوا کہ لوگ انہیں گود لے لیں۔ اترپردیش کو اپنی ماں قرار دیتے ہوئے اس کی گود میں آشیرواد حاصل کرنے کا عزم رکھنے والے وزیراعظم کو پہلے اپنی شریک حیات کی فکر کرنی چاہئے جو اطلاعات کے مطابق بے سہارا خاتون کی طرح زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی قائدین اور صنعتی ادارے کسی پسماندہ علاقہ کو Adopt کرتے ہیں تاکہ اسے ترقی دیں۔ نریندر مودی کو اترپردیش کے عوام نے ڈھائی سال قبل واراناسی سے لوک سبھا کیلئے منتخب کیا ۔ ان ڈھائی برسوں میں یو پی اور بالخصوص واراناسی کی ترقی کا حساب مودی کو پیش کرنا چاہئے ۔ آپ تو ملک کے 125 کروڑ عوام 29 ریاستوں اور 7 مرکزی زیر انتظام علاقوں کے وزیراعظم ہیں۔ اگر کسی ایک ریاست کے متبنیٰ بن جائیں تو دوسرے علاقوں کا کیا ہوگا ؟
ہندوتوا ایجنڈہ کے ذریعہ انتخابی ماحول میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوششوں کو اس وقت دھکا لگا جب مدھیہ پردیش میں بی جے پی کارکن آئی ایس آئی کے ایجنٹ پائے گئے ۔ پولیس نے ایک ایسے گروہ کا پردہ فاش کیا جو کال سنٹر کی آڑ میں پاکستان کی خدمت کر رہا تھا ۔ اہم دفاعی راز دشمن ملک کو حوالے کئے جارہے تھے جس کے عوض کروڑہا روپئے حاصل ہوئے ۔ ملک سے غداری کے اس سنگین معاملہ کا اہم سرغنہ بی جے پی قائد اور چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کا قریبی بتایاجاتا ہے ۔ پولیس نے اس گروہ کی سرگرمیوں اور اس میں شامل افراد کو بے نقاب کیا تو بی جے پی تلملا اٹھی اور پارٹی نے صرف لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ کو دبانے کی کوشش کی ہے ۔ ملک سے غداری کرنے والے حب الوطنی کی آڑ میں سب کچھ کر رہے تھے۔ پولیس جب ان کے ٹھکانے پہنچے تو دروازہ پر ترنگا لگا ہوا تھا ۔ ملک کے دفاعی راز پاکستان کو فروخت کرنے اور ملک کے خلاف ساز کے معاملہ کے باوجود بیشتر میڈیا میں سناٹا چھایا رہا۔ مودی نواز نیوز چیانلس کو یہ نیوز دکھانا بھی گوارا نہیں ہوا ۔ شاید اس لئے ملک سے غداری کرنے والے خود اپنے تھے مگر یہی معاملہ مسلمانوں سے متعلق ہوتا تو کئی دن تک نیوز چیانلس اور اخبارات کی سرخیوں میں ہوتا۔ نیوز اینکرس گلا پھاڑ کر مسلمانوں کو برا بھلا کہتے اور اپنی تائید میں بعض فتنہ پرور افراد کو چیانلس پر مدعو کیا جاتا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین آخر خاموش کیوں ہیں جو ہر لمحہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے اس بات کا جواب دیں کہ دفاعی راز کس نے بیچے۔ ملک کے ساتھ غداری کے سابق میں کئی معاملات منظر عام پر آئے جن میں مسلمان شامل نہیں تھے۔ مسلمانوں نے ملک کو میزائیل ٹکنالوجی دی ہے پھر بھی ’’ہم سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔ اب جبکہ مرکز اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی برسر اقتدار ہے لہذا جاسوسی میں ملوث خاطیوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس طرح سادھوی پرگیہ ، کرنل پروہیت اور سوامی اسیمانند کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ حیدر علوی نے انتخابی ماحول پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
یہ لوگ دھوپ کا چشمہ لگاکے آنکھوں پر
یہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ دکھائی دینے لگے