فلم سے زیادہ اہم کیا شریعت نہیں؟
مودی کی ہندی میں غلطیاں… آخر شیروانی پسند آگئی
رشیدالدین
ہندوستان کے 69 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے قوم کو رواداری اور ایک دوسرے کیلئے برداشت کا جذبہ پروان چڑھانے کا درس دیا ہے۔ رامناتھ کووند کے لئے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے یہ پہلا یوم جمہوریہ ہے۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات پر جس انداز میں اپنی تڑپ اور بے چینی کا اظہار کیا ہے ، اس سے ملک کی ان عظیم روایات کی جھلک ملتی ہے جس کے باعث ہندوستان کو دنیا بھر میں قدر و منزلت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ دستوری عہدہ پر فائز ہونے کے بعد سے رام ناتھ کووند ایک سے زائد مرتبہ سماج کے سلگتے مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔ اظہار خیال کے وقت انہوں نے کبھی بھی جماعتی وابستگی کے پس منظر کی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی برسر اقتدار پارٹی کے نظریات کو خود پر مسلط کیا ہے۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ کے وقار کی برقراری ہمیشہ ان کی ترجیح رہی ہے۔ حال ہی میں کرناٹک میں ٹیپو سلطان جینتی تقاریب پر کافی تنازعہ تھا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ٹیپو سلطان کو ملک دشمن اور ہندو دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن رام ناتھ کووند نے بنگلور پہنچ کر ٹیپو سلطان کو عظیم مجاہد آزادی قرار دیا اور کہا کہ ٹیپو نے انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔ گزشتہ تین برسوں میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوںکی سرگرمیوں نے عوام بالخصوص مذہبی اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔ ایک طرف مسلمان تو دوسری طرف دلت طبقہ کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ صدر جمہوریہ چونکہ دلت اور کمزور طبقات کے دکھ درد کو قریب سے دیکھ چکے ہیں ، لہذا انہوں نے ہر اہم موقع پر مساوات ، رواداری اور یکساں انصاف کی وکالت کی۔ صدر جمہوریہ کے خطاب میں بڑھتی عدم رواداری پر ناراضگی صاف جھلک رہی ہے ۔ علاؤ الدین خلجی کی تاریخ پر مبنی فلم پدماوت کی ریلیز پر ملک بھر میں جاری احتجاج کے پس منطر میں صدر جمہوریہ نے کسی نظریہ یا تاریخی مواد کے بارے میں اختلاف رائے کے باوجود دوسروں کے وقار کو مجروح نہ کرنے کی بات کہی۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام ہندوستان کی پہچان ہے اور اس بات کو رام ناتھ کووند نے یاد دلایا۔ ظاہر ہے کہ سماج میں جب تک صحت مند اور مثبت ذہن و فکر نہ ہو ، اس وقت تک ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ صدر جمہوریہ نے غریب اور محروم طبقات کو حق دلانے اور اس کیلئے دولتمند طبقہ کو مراعات ترک کرنے کی صلاح دی۔ جہاں تک فلم پدماوت کی ریلیز پر احتجاج کا معاملہ ہے، فلم کی شوٹنگ پر شروع ہوا تنازعہ فلم کی ریلیز تک تشدد کا راستہ اختیار کرچکا ہے۔ احتجاج ملک کے کئی شہروں میں پھیل چکا ہے اور بعض ریاستوں میں اپنے طور پر فلم کی نمائش کو روک دیا۔ بعض ریاستی حکومتیں پابندی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوچکی ہیں۔ تشدد اور جانی و مالی نقصان کی ہرگز تائید نہیں کی جاسکتی۔ جمہوریہ میں احتجاج کا حق تو حاصل ہے لیکن اس کیلئے حدود کا تعین کیا گیا ہے ۔ اگر ہر طبقہ تشدد کو اختیار کرلے تو ملک میں نراج کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ جس بات پر اختلاف ہے اور جس تاریخی واقعہ پر اعتراض ہے، اس کے خلاف قانونی راستے اختیار کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ تشدد کے قطع نظر راجپوت طبقہ نے اپنی تاریخ ، تہذیب و تمدن اور مذہب سے جس اٹوٹ وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے ،
وہ دوسرے مذاہب کیلئے مثال ہے۔ اگر واقعی فلم سے راجپوت طبقہ کے جذبات مجروح ہورہے ہیں تو ان کا احتجاج فطری شمار ہوگا۔ ایک چھوٹے گروپ نے اپنی ناراضگی کے ذریعہ سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ماننے سے کسی بھی فلمساز کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر کسی کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرے اور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرے۔ کاش مسلمان شریعت کے تحفظ کیلئے اسی طرح کے جذبہ اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے۔ فلم کی نمائش کے خلاف 10 ریاستوں میں احتجاج جاری ہے اور دو ریاستوں میں نمائش کو روکنا پڑا۔ ایک چھوٹے گروپ کو اپنی تاریخ اور تہذیب کا اس قدر پاس و لحاظ ہے کہ حکومتوں کو جھکنا پڑا۔ برخلاف اس کے مسلمانوں کی شریعت پر حملے ہورہے ہیں لیکن کسی ایک ریاست میں کوئی ہلچل دکھائی نہیں دی۔ طلاق ثلاثہ کے بعد حج سبسیڈی ختم کردی گئی اور ہم صرف بیان بازی تک محدود ہیں۔ اگر بے حسی کا سلسلہ جاری رہا تو شریعت سے متعلق دیگر امور کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ایک سے زائد شادی اور حلالہ پر پابندی ، ترکہ میں لڑکا لڑکی کو مساوی حصہ داری اور ایودھیا میں مسجد کی اراضی کو مندر کے حوالے کردیا جائے گا۔ یہ تمام امور بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں شامل ہیں۔ شریعت اسلامی کے علاوہ بی جے پی دستور میں تبدیلی کا ناپاک منصوبہ رکھتی ہے۔ ہندو راشٹر کے ایجنڈہ کے ساتھ ملک کے لئے نیا دستور تیار کیا جارہا ہے اور یہ 2019 ء میں دوبارہ اقتدار ملنے کی صورت میں منظر عام پر لایا جائے گا ۔ تحفظ شریعت کیلئے کسی بھی سطح پر موثر نمائندگی نہیں ہے۔ عدالت میں کمزور پیروی رہی تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں قانون سازی روکنے کیلئے حکمت عملی کا فقدان رہا۔ مذہبی قیادت کی اہمیت اور وقعت میں کمی کا نتیجہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے تیار نہیں۔ ملک کی آبادی کا راجپوت ایک فیصد بھی نہیں ہوں گے لیکن انہوں نے نظم و نسق کو ہلادیا اور حکومتوں کے پسینے چھوٹ گئے جبکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت بے حسی کا شکار ہے۔ تحفظ شریعت کی مہم مخصوص مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن چکی ہے۔ شریعت کے نام پر جلسے صرف تلنگانہ میں جاری ہیں جبکہ دوسری ریاستوں میں شعور بیداری کی شاید ضرورت نہیں۔ تلنگانہ کی مہم بھی دراصل فروری میں مسلم پرسنل لا بورڈ اجلاس کے تیاری جلسے ہیں۔ جن کے مفادات جس قدر وابستہ ہیں، وہ اسی حد تک متحرک ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جلسے پرسنل بورڈ اجلاس کے بعد ختم ہوجائیں گے ۔ اجلاس کی تیاریوں اور شرکاء کی وی آئی پی ضیافت کا منصوبہ ہے۔ شریعت کا اطلاق زندگی کے ہر شعبہ اور ہر عمل پر ہونا چاہئے۔ مہمان نوازی میں اسراف کی کوئی گنجائش نہیں۔ شریعت کے تحفظ کے نام پر وی آئی پی مہمان نوازی کو کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ کھانے پینے میں بھی شریعت کے احکام اور آداب ہیں۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ رحمت اللعالمینؐ نے پیٹ پر پتھر باندھے تھے۔ پرسنل لا بورڈ کا اجلاس اور قیام و طعام میں سادگی ہو تاکہ ملت کے لئے مذہبی قیادت مثال بن سکے۔
وزیراعظم نریندر مودی بولیوں کی ادائیگی کے ماہر ہیں لیکن وہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیکھ کر پڑھنے میں کمزور ہیں۔ ہندوستان جو دنیا میں ابھرتی طاقت ہے، اس کے وزیراعظم کو بولیوں کے ساتھ ساتھ پڑھنے پر بھی عبور ہونا چاہئے ۔ گزشتہ دنوں ڈاؤس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس سے نریندر مودی نے ہندی میں خطاب کیا۔ اگرچہ سامعین کی اکثریت ہندی سے ناواقف تھی اور روایتی طور پر ان کے لئے ترجمہ کا انتظام کیا گیا تھا لیکن ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مندوبین اور حکومت کے عہدیدار ہندی جانتے تھے۔ انہیں وزیراعظم کی تقریر کے دوران بڑی مشکل سے ہنسی کو روکنا پڑا۔ اگر وہ کھل کر ہنس دیتے تو ظاہر ہے کہ دیگر ممالک کے مندوبین میں وزیراعظم مذاق کا موضوع بن جاتے۔ نریندر مودی نے ہندی تقریر کو پڑھا جس میں کئی ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں جو وزیراعظم اور ملک کے وقار کے لئے ٹھیک نہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مودی دیکھ کر پڑھنے کے بجائے روایتی بولیوں کے ساتھ تقریر کرتے۔ مودی نے ممالک کے درمیان اختلافات اور دوریوں کو مٹانے کا ذکر کرتے ہوئے ’’دوری‘‘ ادا کرنے کے بجائے ’’دنیا کو مٹانے‘‘ کا جملہ ادا کردیا۔ نریندر مودی ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سے بھی شاید واقف نہیں۔ انہوں نے 70 سالہ آزاد بھارت کی تاریخ کے بجائے ’’17 سال‘‘ کہا۔ اگر تحریر میں غلط بھی لکھا تو کیا وزیراعظم جانتے نہیں کہ آزادی کو 70 سال ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کے نزدیک ملک میں ’’600 کروڑ رائے دہندے‘‘ ہیں۔ حالانکہ ملک کی جملہ آبادی 125 کروڑ ہے۔ کہاں سے 600 کروڑ رائے دہندے آگئے جنہوں نے 2014 ء میں بی جے پی کو اقتدار سے نوازا۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی وزیراعظم کی ان فاش غلطیوںکی پردہ پوشی کردی۔ ان کی جگہ اور راہول گاندھی یا کوئی اور اپوزیشن لیڈر نے اس طرح کی غلطی کی ہوتی تو الیکٹرانک میڈیا پر نہ صرف دکھایا جاتا بلکہ اس بات پر بحث کی جاتی کہ فلاں نے ہندوستان کے وقار کو عالمی سطح پر مجروح کردیا ہے۔ ملک کی قومی زبان ہندی پڑھنے میں وزیراعظم کو دشواری ہو تو پھر انہیں آئندہ اپنی مادری زبان گجراتی کا استعمال کرنا چاہئے۔ دوسری طرف یوم جمہوریہ تقاریب میں آسیان ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ نریندر مودی نے یوم جمہوریہ سے ایک دن قبل بیرونی مہمانوں کا استقبال شیروانی میں کیا۔ شاید یہ پہلا موقع تھا جب مودی نے اردو تہذیب و ثقافت اور شرافت سے منسوب شیروانی زیب تن کی ہو۔ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ جس دن فلم پدماوت ریلیز ہوئی ، اسی دن مودی شیروانی میں نظر آئے۔ میڈیا نے اسے راجپوتوں کا روایتی لباس قرار دیا جبکہ بعض نے شیروانی کو مسلمانوں سے جوڑ دیا۔ مودی جو لاکھوں روپئے کے مختلف لباس پہن چکے ہیں، شاید ان کے ڈریس میکر نے مشورہ دیا ہو کہ شیروانی میں شخصیت مزید ابھرسکتی ہے۔ مودی کی شیروانی دیکھ کر پرانی نسل کو پنڈت نہرو کی یاد آگئی۔ نہرو غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں تھے جبکہ مودی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ نہرو کی طرح گلاب بھی شیروانی پر سجاتے تو بہتر ہوتا لیکن شیروانی پہننے سے کوئی نہرو نہیں بن جاتا۔ شیروانی پہننا کافی نہیں بلکہ اس کے وقار کی پاسداری اہمیت رکھتی ہے۔ کاش مودی کی شیروانی انہیں ہندوستانی تہذیب و روایات سے آشنا کردے۔ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
اگر خلاف ہے، ہونے دو جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے