رشیدالدین
کانگریس کے کم سخن نائب صدر راہول گاندھی اچانک کیوں ’’اینگری میان‘‘ بن گئے؟ قومی سیاسی حلقوں میں راہول گاندھی کا جارحانہ موقف موضوع بحث بن چکا ہے۔ کانگریس کے جس شہزادہ نے یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں کبھی بھی برہمی کا اظہار نہیں کیا، آخر کیا بات ہوگئی کہ پارلیمنٹ میں انہوں نے آستین چڑھاکر بی جے پی حکومت کو للکارا۔ پارلیمنٹ میں راہول گاندھی کی برہمی قومی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی اور ہر پارٹی اور تجزیہ نگار نے اپنے اپنے نظریہ کے مطابق تبصرہ کیا۔ یوں تو پارلیمنٹ میں ارکان کا ایوان کے وسط میں آکر احتجاج کرنا کوئی نئی بات نہیں لیکن راہول گاندھی کا برہمی کے عالم میں حکومت اور کرسی صدارت کو چیلنج کرنا اگرچہ غیر متوقع اقدام تھا لیکن نفس مسئلہ کا جائزہ لیں تو راہول گاندھی کی برہمی حق بجانب نظر آتی ہے۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی ملک کے کئی علاقوں خاص طور پر اترپردیش اور مہاراشٹرا میں فسادات کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اور حکومت سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے جس طرح سماج میں نفرت کا زہر گھول رہی ہے، اس پر بہت پہلے ہی راہول گاندھی کو اس طرح کی برہمی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔
خیر دیر آید درست آید کے مصداق راہول گاندھی نے بی جے پی کو چیلنج کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اس خاندان کے وارث ہیں جس نے ملک کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ فرقہ وارانہ فسادات دراصل ہندوستان کے بنیادی ڈھانچہ کو کمزور کرنے کی کوشش ہے جس کی بنیاد سیکولرازم ، دستور اور قانون پر رکھی گئی ہے۔ حکومتیں اور وزیراعظم بھلے ہی بدلتے رہیں لیکن ملک کی روایات سے انحراف یا اسے کمزور کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔ اکثریت کے حصول کے نشہ میں چور بی جے پی نے سمجھا کہ 125 سالہ تاریخ رکھنے والی کانگریس پارٹی حالیہ انتخابات میں بدترین شکست کے بعد کمزور پڑچکی ہے اور لوک سبھا میں قائد اپوزیشن کیلئے درکار تعداد نہ ہونے سے حکومت کی بازپرس کرنے والا کوئی نہیں رہے گا لیکن راہول گاندھی کے جارحانہ تیور سے جیسے حکومت کے ہوش اڑگئے۔ جیسے ہی راہول گاندھی نے فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلہ پر مباحث کی مانگ کرتے ہوئے اپوزیشن کے احتجاج کی قیادت کی اور ایوان کے وسط میں پہنچے ، خود کو مرد آہن قرار دینے والے نریندر مودی ایوان سے روانہ ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ کسی اور مسئلہ کا وہ سامنا کرسکتے تھے لیکن فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلہ پر وہ ایوان ہی کیا ملک کو اپنا چہرہ دکھانے کے موقف میں نہیں ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ ملک کی سالمیت سے جڑا ہے۔ اس پر راہول گاندھی ہی نہیں ہر سیکولر رکن کو اس طرح کی برہمی کا اظہار کرنا چاہئے تھا ۔ راہول گاندھی کے احتجاج کو بی جے پی ایوان کے وقار سے جوڑتے ہوئے قوم کی توجہ حقیقی مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اترپردیش جہاں کی نمائندگی راہول گاندھی کرتے ہیں، وہ آئے دن فرقہ وارانہ تشدد اور معصوم افراد کی ہلاکتوں کو دیکھ کر احتجاج پر مجبور ہوگئے اور ان کی برہمی فطری ہے۔
دراصل حالات اور صورتحال نے راہول گاندھی کو احتجاج کی قیادت پر مجبور کردیا جبکہ اسی ریاست سے منتخب ہوکر وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے والے نریندر مودی نے جیسے ’’مون برت‘‘ رکھ لیا ہے۔ چونکہ بی جے پی مباحث کیلئے تیار نہیں تھی لہذا اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کیلئے کانگریس کے داخلی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ راہول گاندھی کی قائدانہ صلاحیت پر سوال اٹھانے والوں کیلئے یہ مظاہرہ کیا گیا۔ بعض گوشوں نے اسے پرینکا گاندھی کے کانگریس میں داخلہ کو روکنے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ بحیثیت رکن پارلیمنٹ کیا راہول گاندھی کو حکومت سے وضاحت طلبی کا حق حاصل نہیں؟ بی جے پی بھول رہی ہے کہ یو پی اے دور حکومت میں ٹیلیکام ، کوئلہ اور دیگر اسکامس پر اس نے بسا اوقات سارے سیشن کو ہنگامہ کی نذر کردیا تھا۔ اظہار خیال کا موقع نہ دینے پر اسپیکر کے رویہ کی شکایت کو ایوان کی توہین قرار دینے والے بی جے پی قائدین شاید بھول گئے کہ سشما سوراج نے قائد اپوزیشن کی حیثیت سے اسپیکر میرا کمار کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے اور کانگریس کے اشاروں پر کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اترپردیش فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ ملک بھر میں امن و امان ہے۔ لوک سبھا انتخابات کی طرح اترپردیش اور مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات میں مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے کی منظم سازش کے تحت فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔ اترپردیش میں 16 مئی تا 26 جولائی دو ماہ کے عرصہ میں فرقہ وارانہ نوعیت کے 259 واقعات پیش آئے۔ ان میں 60 فیصد واقعات مغربی اترپردیش میں رونما ہوئے جہاں 5 نشستوں پر ضمنی چناؤ ہونے والے ہیں۔ اس طرح روزانہ اوسطاً 10 تا 12 واقعات پیش آئے۔ مہاراشٹرا میں بھی اسی طرح فرقہ وارانہ نوعیت کے 167 واقعات رونما ہوئے۔ مقامی حکومتوں کی ناکامی کے سبب سنگھ پریوار کو تشدد کو ہوا دینے کا موقع مل رہا ہے۔ میرٹھ کے تازہ واقعات دینی مدارس کے خلاف منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے سنگھ پریوار دینی مدارس کے خلاف مہم پر ہے، انہیں دہشت گردوں کی تیاری کے مراکز کا نام دیا گیا اور اب جبری طور پر تبدیلی مذہب کا الزام عائد کیا جارہاہے۔ کسی بھی دینی مدرسہ سے اس طرح کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلامی مدارس کے نظام کو بدنام کرنے کی سازش کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ، اس کیلئے غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہئے۔ وزیراعظم بننے سے قبل فسادات کی اجازت نہ دینے اور سخت کارروائی کا وعدہ کرنے والے نریندر مودی ملک کو جواب دیں کہ ان کی زبان پر کس نہ تالا لگادیا ہے؟ انہوں نے آج تک کسی متاثرہ مقام کا دورہ نہیں کیا۔ اتنا ہی نہیں راج ناتھ سنگھ زمین کھسکنے کے واقعات کے بعد پونے گئے لیکن اترپردیش کے فساد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ حالانکہ لاء اینڈ آرڈر ان کا قلمدان ہے۔
مرکزی حکومت پر سنگھ پریوار کی دہشت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارکباد پیش نہیں کی۔ مودی نے رمضان میں دعوت افطار کی روایت سے بھی انحراف کیا۔ شاید ذبیحہ کے مسئلہ پر مودی عید الاضحیٰ کی بھی مبارکباد نہیں دیں گے۔ نریندر مودی بی جے پی لیڈر کے خول سے باہر نکلیں ، وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں ہر فرقہ کی عید و تہوار کا احترام کرنا ہوگا ۔ مودی نے مسلمانوں کے ساتھ تو یہ معاملہ کیا لیکن نیپال کے دورہ کے موقع پر وہاں کی مندر کو 2500 کیلو گرام قیمتی سفید صندل کی لکڑی کا عطیہ دیا۔ آسام میں فسادات کے وقت بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے ہنگامہ کیا تھا کہ وزیراعظم منموہن سنگھ آسام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حالانکہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات منظر عام پر آئی کہ نریندر مودی کی اشتعال انگیز تقریر سے صورتحال بگڑ گئی ۔ اب جبکہ اترپردیش جل رہا ہے، وارانسی سے منتخب وزیراعظم مودی خاموش کیوں ہیں ؟ دوسری طرف ملعون و گستاخ مصنفہ تسلیمہ نسرین کو ویزا جاری کرتے ہوئے مودی حکومت نے مسلمانوں کے زخموں کو کریدنے کی کوشش کی ہے ۔ اتنا ہی نہیں راج ناتھ سنگھ نے مستقل رہائش کی اجازت کا تیقن دیا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ حکومت کے پاس ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی کوئی اہمیت نہیں۔ گستاخانہ ناول کی اشاعت کے بعد 1994 ء میں بنگلہ دیش سے دھتکاری گئی تسلیمہ نسرین در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں، سویڈن نے اسے شہریت دی لیکن اب ہندوستان بھی مستقل رہائش کی اجازت پر غور کر رہا ہے۔ آرٹسٹ ایم ایف حسین کو دیوی دیوتاؤں کی مبینہ توہین پر اسی بی جے پی اور سنگھ پریوار نے عملاً ملک بدر کردیا تھا لیکن مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے والی مصنفہ کا سرخ قالین استقبال کیا جارہا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ ذہنی طور پر بی جے پی اور سنگھ کی فطری حلیف ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے اس کی کتاب ’’ وہ اندھیرے دن‘‘ کا ٹائٹل دیکھ کر تسلی دی کہ آپ کے اندھیرے دن ختم ہوجائیں گے ۔ یہ تسلی اسی طرح ہے جس طرح عوام سے اچھے دنوں کا وعدہ کیا گیا۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملعون مصنفہ کی آؤ بھگت پر مسلم حلقوں میں سناٹا اور قیادتوں میں بے حسی ہے۔ کیا مسلم قیادت کے دعویدار بھی حکومت سے خوفزدہ ہیں یا پھر حکومت سے ساز باز کرلی ہے؟ حکومت کے دو ماہ کے عرصہ میں نریندر مودی نے صرف دو ریاستوں کا دورہ کیا جبکہ تین بیرونی دورے کئے ۔ بھوٹان اور برازیل کے بعد گزشتہ دنوں نیپال کا دورہ کیا جہاں عوام کا دل و دماغ جیتنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ نیپال کے عوام کا دل جیتنے سے پہلے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ ملک کے عوام کا دل جیتیں۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی اور دیگر مسائل کے سبب عوام حکومت سے بیزار ہوچکے ہیں۔ اب تو الیکشن میں مودی کی تائید کرنے والے بھی افسوس کرنے لگے ہیں۔ مودی نے نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کی چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے پرورش کی اور اسے نیپال میں بچھڑے ہوئے خاندان سے ملایا۔ قومی اور عالمی میڈیا نے اس واقعہ کو خوب اچھالا اور مودی کی ستائش کی لیکن گجرات فسادات کے ان ہزاروں یتیم و یسیر بچوں کو کون تسلی دے گا، ان کے سرپر کون ہاتھ رکھے گا جن کے ماں باپ فسادات میں ہلاک کردیئے گئے۔ نریندر مودی کو نیپال کے اس خاندان سے پہلے گجرات فسادات کے ہزاروں خاندانوں کی فکر کرنی چاہئے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی حکومت ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مسلمان مرعوب ہونے والے نہیں ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ’’میری کہانی ‘‘میں لکھا کہ جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے ہندوؤں سے زیادہ انگریزوں کا مقابلہ کیا کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا۔ ملک کے حالات پر محمد علی وفا نے کچھ یوں کہا ہے ؎
یہ جو چنگاری ہے نفرت کی بجھادو ورنہ
آگ بن جائے تو پھر کچھ نہیں ہونے والا