شجاعت علی آئی آئی ایس (ریٹائرڈ)
مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندو مت میں عورت کے احترام کا سبق سکھاتے ہوئے ایک ہندو خاتون سے کہا تھا جب رام نے لکشمن سے فرمایا کہ فلاں چیز لے کر اپنی بھابی سیتا کو دے آؤ وہ عورتوں کے جھرمٹ وہاں بیٹھی ہوئی ہیں تو لکشمن نے حیرانی کی حالت میں رام جی سے پوچھاکہ میں بھابی کو کیسے پہچانوں گا بھیا؟ کیونکہ میں نے ان کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ میری پلکوں نے ہمیشہ ان کے پاؤں چھوئے ہیں۔ اس واقعہ کے پس منظر میں اگر ہم ہند وستان کے موجودہ حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہماری آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ مظلوم ماؤں بہنوں اور دو دو سال کی معصوم شیرخوار بچیوں کی عصمت ریزی کے واقعات ہمیں اپنے آپ پر اور ملک میں سوئی ہوئی انسانیت پر تھوتھوکرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ دوسری طرف چند مٹھی بھر فرقہ پرست عناصر ہمارے ملک کے پُرسکون ماحول کو تہس نہس کرنے کے در پہ ہیں۔ حیدرآباد کے اِک عظیم سپوت انڈین ایڈمنسٹریٹیو سرویس کے ایک حرکیاتی رکن اور دانشور ہاشم علی اختر مرحوم نے بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی تشکیل کے موقع پر یہ کہا تھا کہ ’’اعلیٰ اصول اور اخلاقی قدروں سے مامور سماج مختلف پابندیوں اور توازن کے ذریعہ نا انصافی کو کمزور کرنے کی سعی ضرور کرسکتا ہے لیکن جب حکومت ، بدعنوان ، بے ایمان اور موقع پرست سیاستدانوں کے ہاتھ میں چلی جائے اور مستقل سرکاری محکمے جیسے پولیس اور فوج میں فرقہ پرست عناصر سرایت کرجائیں تو انصاف مشکل ہوجاتا ہے‘‘۔ 2003ء میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میری دانست میں ہندوستان جیسے ملک میں جہاں اتنی Diversity ہے کسی صاحبِ اقتدار کا فرقہ پرست ہونا اسے اس عہدہ کا اہل نہیں رکھتا‘‘۔ آج کی مودی سرکار کو مرحوم دیکھتے تو پتہ نہیں کیا کیا کہنے پر مجبور ہوجاتے۔
ہمارا ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر کسی بھی گھناونی واردات کے خلاف شدید احتجاج تو کیاجاتاہے لیکن اس کے سدباب کے لئے صحیح معنوں میں قدم اٹھانا اس قوم کے بس کی بات نہیں ہے، چاہے فرقہ وارانہ فسادات میں معصوم لوگوں کا مارا جانا ہو یا معصوم دوشیزائوں کی عصمت ریزی کا معاملہ ہو یا کمزور طبقات پر ظلم وزیادتی کی داستان ہو، ہم ان واقعات پر افسوس تو ظاہر کرتے ہیں‘ مذمت بھی کرتے ہیں‘ احتجاج بھی کیاجاتاہے لیکن اس مذموم درندگی کے خاتمہ کے لئے کچھ ٹھوس نہیں کیاجانا ہمارے ملک کا انتہائی تاریک باب ہے۔ 2012 ء میں دہلی میں ایک 23 سالہ طالبہ کی جس وحشیانہ انداز میں عصمت لوٹی گئی تھی اور اسے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کیاگیاتھا اس پر ساری انسانیت کانپ اٹھی تھی۔ لوک سبھا میں جس انداز میں اس واقعہ کی شدت سے مذمت کی گئی تھی ایسی نظیر نہیں ملتی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی وابستگیوں کو پس پشت ڈال کر ایک آواز میں اسے انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا اور سبھی نے ایک ہی سُر میں عصمت ریزی کے واقعہ میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کی مانگ کی۔ پارلیمنٹ کے کچھ ارکان نے مشرق وسطیٰ میں رائج قوانین کی مثال بھی دی جس کے چلتے اس طرح کے واقعات میں ملوث خطاء کاروں کی گردن اڑادی جاتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ ہمارے ملک میں قانون کا ڈر اور خوف ناہونے کے برابر ہے۔ یہاں کے مجرمین کی اکثریت ناتو اوپر والے سے ڈر رہی ہے اور نہ ہی اسے قانون کی کوئی پرواہ ہے۔ کسی کا قتل کردینا‘ کہیں ڈاکہ ڈال دینا‘ مندر مسجد کی زمینوں پر قبضہ کرلینا‘ غریبوں کی جھوپڑ پٹیوں کو اکھاڑ پھینک کر ملٹی اسٹوری بلڈنگ بنالینا‘ ہوٹلوں میں توڑ پھوڑ کرنا‘ کسی پر بھی ریوالور تان لینا‘ تعلیمی اداروں کے سامنے معصوم بچیوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنا بلکہ اب تو اسکولوں میں ننھی منھی کلیوں کو مسل دینا بھی روز کا معمول بن گیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مداخلت کرنے والوں کا سرپھوڑ دینا بھی ہمارے سماج کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ سرکاریں بھی اتنی نکمی ہوگئی ہیں کہ وہ عدالتوں کے احکام کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے ووٹ بینک کی سیاست کو فوقیت دے رہی ہیں۔ عام آدمی کی اہمیت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس کی حیثیت سمندر کے جھاگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کئی مقامات پر مذہب‘ انسانیت کی تعمیر کے بجائے تخریب کا نشان بن رہاہے۔ اپنے مفادات کے لئے آسمانی کتابوں کی نئی نئی تشریحات کی جارہی ہیں۔ زندگی کو حقیقت اور موت کو خواب سمجھا جارہاہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ زندگی اک خواب ہے اور موت ہی روشن حقیقت ۔ جس دن لوگ اپنی موت کو پہچان لیںگے بس اسی دن سے ایک نئے محبت بھرے سماج کی تشکیل ہوسکتی ہے۔ مادیت پرستی کا گندہ رجحان جس دن ختم ہوگا وہ روشن روز ہوگا اور یہیں سے انسانیت کے نئے معنی ہم سب کے سامنے آئیںگے۔ ایک نامور کریمنل لائیر نے مجھے بتایاتھاکہ ایک شخص قتل کرکے ان کے پاس آیا اور بولا کہ وکیل صاحب آپ کو مجھے بچانا ہے۔ جب انہوں نے اس سے یہ پوچھا کہ اتنا گھنائونا کام کرتے وقت تجھے قانون کا ڈر نہیں رہاتو اس کا کہناتھاکہ مجھے قانون کا کیا ڈر جب آپ جیسے کہنہ مشق وکیل میرے ساتھ ہیں۔ یہ سنتے ہی وکیل صاحب کانپ گئے اور انہوں نے اسی دن یہ فیصلہ کیاکہ وہ کریمنل لاء کی پریکٹس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناطہ توڑ لیںگے اور بس اسی وقت انہوں نے وکالت کو طلاق دیدی۔
یہ واقعہ نلگنڈہ سے کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ لطیف صاحب مرحوم کاہے۔ کیا ایسے وکیل ہمارے سماج میں آج موجود ہیں؟ یہ واقعہ میرے ذہن میں اس لئے آیا ہے کہ جب تک ہمارے سماج کی سوچ نہیں بدلے گی اس وقت تک ہمارے معاشرہ میں صحت مندانہ تبدیلی نہیں آسکے گی۔ سماج میں سدھار کئی مرحلوں سے اور کئی سمتوں سے آسکتاہے۔ یہ امن وضبط کی مشنری کے توسط سے بھی آسکتاہے‘ یہ قانون اور عدلیہ کے ذریعہ بھی ممکن ہے‘ یہ تبدیلی عبادت گاہوں کے راستوں سے بھی آسکتی ہے۔‘ ہمارے ملک کا آڈیو ویژول میڈیا بھی اس سمت میں اہم رول ادا کرسکتاہے۔ ہمارے سیاستداں بھی سیاست سے ہٹ کر اس جانب کوئی نہ کوئی حصہ ادا کرسکتے ہیں۔ بہرحال تمام سطحوں پر فکر میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ اگر ایسا ہوتاہے تو یقیناً ہم اچھے مستقبل کی امید کرسکتے ہیں۔ عزت نفس کے لئے قتل کردینا آج کل ایک ایسا ہی واقعہ لگ رہاہے جیسے کسی کے گھر مہمان آنے پر بکرا کاٹ دیاجاتاہے۔ اس طرح کے سارے واقعات اسی لئے ہورہے ہیں کیونکہ ہم مذہبی اقدار سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ حال ہی میں جب ہم نے یہ خبر پڑھی کہ مرکزی حکومت سنٹرل اسکولوں کے نصاب میں اخلاقی تعلیم کو متعارف کرنے جارہی ہے تو ہم سب کو بیحد خوشی ہوئی۔ ماہرین کا یہ احساس ہے کہ جب تک مدارس میں اخلاقی تعلیم کا چلن تھا اس وقت کی نسلوں میں متاثرکن کردار برقرار رہا۔ جب وہ بات کرتے تھے تو ایسا ہرگز نہیں لگتاتھاکہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان۔ بس یہی احساس ہوتاتھاکہ آپ کسی ایسے انسان سے بات کررہے ہیں جس کی نس نس میں محبت‘ پیار اور خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آج جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو وہ کیفیت محسوس نہیں ہوتی جو ماضی میں دیکھی جاتی تھی۔ اگر مرکزی اسکولوں میں اخلاقی تعلیم پھر سے رائج ہوجاتی ہے تو یقیناً ریاست کی حکومتیں بھی اس کی تقلید کریںگی اور اگر ایسا ہوجاتاہے تو اگلے دو دہوں میں ہندوستان کی تصویر بدل جائے گی۔ ایک ایسی تصویر ابھرے گی جس میں شرم‘ حیاء اور لجا کی جھلکیاں واضح طورپر دکھائی دیںگی۔ گھنائونی حرکتوں میں ملوث لوگوں کو کڑی سزا دینے سے یقیناً پورے سماج کو ایک وارننگ ملے گی کہ برائی کا انجام بھی انتہائی برا ہوتاہے۔ سخت سزائیں دینا برائیوں کو روکنے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے لیکن اسے زنجیر میں بدلنے کے لئے سماج کے ہرشعبہ کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔ ایک عرصہ دراز سے Police Reforms معرض التواء میں پڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی غیرانسانی واداتیں ہوتی ہیں پولیس میں Reforms لانے کی بات کی جاتی ہے۔ جیسے ہی حالات نارمل ہوجاتے ہیں اس مانگ کو بھی بھلادیا جاتاہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ دار کسی بھی مجرم کو آزاد ہندوستان میں سزائے موت نہیں دی گئی اور ناہی عصمت ریزی کے مرتکب افراد نے موت کی سزا پائی۔ ایسے مجرمین کے گندے ارادوں کو کچلنے کے لئے آپ کوئی سخت پیغام نہیں دیںگے تو ان کے گھنائونے عزائم کی سرکوبی کیسے ہوپائے گی؟۔ اس طرح کے سبھی واقعات کو اگر قوم دشمن سرگرمی کے طورپر لیاجائے اور ان سے متعلق تمام مقدموں کو فاسٹ ٹریک کورٹس کے حوالہ کیاجائے تو بے شک ہم کچھ حدتک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں لگ بھگ سبھی ارکان نے اپنے اپنے انداز میں دلی کے واقعہ کی پرزور مذمت کی تھی ۔بہرحال اب وہ وقت آگیاہے جب ساری قوم کو فرقہ پرستی‘ چھوت چھات اور اخلاقی گراوٹ کو ختم کرنے کے لئے انتھک جدوجہد کا آغاز کرناہوگا۔ اکیسویں صدی کے بھارت کو ایک پاک اور صاف دھرتی بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ارض جسے ساری دنیا جنت نشاں کے طورپر دیکھ سکے۔ اس کے علم‘ اس کی حکمت‘ اس کے تدبر اور اس کے طرز حکومت کو سراہا جاسکے۔ یہی ہرہندوستانی کی تمنا ہوگی۔ اسے تعصب سے چھٹکارا پانا پڑے گا‘ مساوات کو اس دھرتی کا ایمان بننا ہوگا۔ ہر عام و خاص آدمی کو خاموشی توڑنی ہوگی اور یہ کہنا ہوگا کہ
یہ تو ممکن نہیں چپ چاپ فنا ہوجاؤں
اب تو سنّاٹا ہوں بکھروں تو صدا ہوجاؤں
irshadho@gmail.com
https://www.facebook.com/ShujathAliSufi/