یہ بازارِ سیاست ہے یہاں خودداریاں کیسی

رشیدالدین

کشمیر میں مودی کی دیپاولی…ہمدردی کے نام پر سیاست
مہاراشٹرا کے بحران سے توجہ ہٹانے کی کوشش

دیپاولی جسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے، وہ بھی بی جے پی کے گھر میں روشنی نہیں کرسکا۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے نتائج کے باوجود دیپاولی بی جے پی کیمپ کو روشنیوں سے منور نہ کرسکی۔ چناؤ نتائج کے بعد بی جے پی کو امید تھی کہ حقیقی دیپاولی تو اس کے گھر میں ہوگی لیکن پارٹی قیادت کو مایوسی ہوئی۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے انتخابی کمان سنبھالنے اور امیت شاہ کی حکمت عملی کے باوجود مہاراشٹرا میں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ہریانہ جیسی چھوٹی ریاست میں سادہ اکثریت حاصل کرنا کوئی کمال نہیں۔ تاہم مہاراشٹرا میں اکثریت کے حصول میں ناکامی کے سبب دیپاولی بی جے پی کیلئے روشنی کی نوید ثابت نہ ہوسکی۔ مہاراشٹرا میں چیف منسٹر کے انتخاب میں ناکامی اور داخلی خلفشار نے رنگ میں بھنگ کا کام کیا ۔ اس ناکامی سے ملک کی توجہ ہٹانے وزیراعظم نے کشمیر میں دیپاولی منانے کا ڈرامہ کیا۔ اکثریت سے محرومی اور تشکیل حکومت میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کشمیر کے سیلاب زدگان سے ہمدردی کا ڈھونگ کیا گیا۔ نریندر مودی اپنی خفت مٹانے کیلئے سیلاب کے متاثرین کے درمیان دیپاولی منانے کے نام پر کشمیر پہنچ گئے ۔ نریندر مودی دیپاولی کا دیپ جلانے کیلئے کشمیر تو گئے لیکن شاید انہیں پتہ نہیں تھا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب آج تک بیشتر علاقوں میں برقی سربراہی بحال نہیں ہوئی۔ عوام کے پاس دیپ تو کیا روشنی کیلئے موم بتی تک میسر نہیں۔ کیا وزیراعظم کے دورہ سے لاکھوں متاثرین کی تاریک زندگیوں میں روشنی پھیل جائے گی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد ابھی بھی ریلیف کیمپس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ متاثرین کی تعداد 6 لاکھ سے زائد ہے اور کئی علاقے ابھی بھی برقی اور مواصلاتی نظام سے محروم ہیں۔ اسکولس ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے

اور 1000 کروڑ کی سیب کی فصل تباہ ہوگئی۔ اس قدر ابتر صورتحال میں کون دیپاولی منائے گا۔ جس کی زندگی تاریک ہوجائے وہ بھلا دیپ کیسے روشن کرے گا؟ ان متاثرین میں دیپاولی تہوار منانے کا اعلان کرنا ان کی تکالیف اور مصیبت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ جس کا سب کچھ لٹ چکا ہو، وہ کیسے خوشی منانے کا تصور کرسکتا ہے۔ متاثرین سے ہمدردی کے نام پر دراصل یہ نریندر مودی کی سیاسی چال تھی۔ مودی کو کشمیری عوام کی مصیبت اور ان سے ہمدردی کا خیال اچانک کیوں آیا؟ اگر مہاراشٹرا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوجاتی تو یقینی طور پر دیپاولی کا جشن بی جے پی اور اس کے قائدین کیلئے دوبالا ہوجاتا اور دہلی میں دو ریاستوں کی کامیابی کا جشن منایا جاتا لیکن مہاراشٹرا میں لمحہ آخر میں داخلی خلفشار کے چلتے بی جے پی کو تشکیل حکومت کا عمل دیپاولی کے بعد ٹالنا پڑا۔ پارٹی نے راج ناتھ سنگھ کی بحیثیت مبصر روانگی اور لیجسلیچر پارٹی لیڈر کے انتخاب کے پروگرام کا اعلان کردیا تھا لیکن جیسے ہی نتن گڈکری نے بی جے پی قیادت کو آنکھ دکھائی، سارا کھیل بگڑ گیا اور نریندر مودی نے کشمیر میں دیپاولی منانے کا کارڈ کھیل کر میڈیا اور عوام کی توجہ مہاراشٹرا کے انتشار سے موڑ دی۔ حکومت سازی کے سلسلہ میں مہاراشٹرا میں ابھی بھی منظر واضح نہیں ہے۔ نتن گڈکری اور ان کے حامیوں کی سرگرمیاں ایک طرف تو دوسری طرف این سی پی اور شیوسینا میں سے حلیف جماعت کے انتخاب کا مسئلہ بی جے پی قیادت کے لئے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے دیویندر فڈنوس کے نام کو آر ایس ایس کی تائید حاصل ہے۔ تاہم نتن گڈکری بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔بی جے پی اپنی طاقت پر تشکیل حکومت کے موقف میں نہیں۔ ساتھ ہی شیوسینا اور این سی پی میں سے کسی ایک کی تائید کا حصول مستقبل میں مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ لہذا حلیف جماعت کا انتخاب آسان نہیں۔ این سی پی نے غیر مشروط تائید کا پیشکش کرتے ہوئے بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا ہے تو دوسری طرف شیوسینا میں بی جے پی کی تائید کے مسئلہ پر شدید اختلاف رائے ہے اور تائید کی صورت میں پارٹی میں پھوٹ کے آثار ہیں۔ قیادت کے مسئلہ پر انتشار اور تشکیل حکومت کی کمزوری کو چھپانے کیلئے کشمیر کے متاثرین کا سہارا لیا گیا ۔ مہاراشٹرا کے بی جے پی خیمے میں سب کچھ ٹھیک نہیں اور تشکیل حکومت کے مرحلہ میں اختلافات ابھر سکتے ہیں۔

اگر نریندر مودی کو انسانی ہمدردی کا اتنا ہی پاس و لحاظ ہوتا تو وہ کشمیر کے بجائے ہد ہد طوفان سے تباہ حال آندھراپردیش کے متاثرین کے ساتھ دیپاولی منانے کو ترجیح دیتے ۔ کشمیر میں سیلاب سے زیادہ آندھراپردیش کے اضلاع میں طوفان سے تباہی ہوئی ہے اور یہ تازہ معاملہ بھی ہے لیکن وزیراعظم کے پیش نظر انسانی ہمدردی نہیں بلکہ سیاسی مقصد براری تھی ، اس کے لئے وہ کشمیر پہنچ گئے۔ آندھراپردیش میں انتخابات نہیں ہے جبکہ کشمیر میں انتخابات قریب ہیں۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے بعد مودی کی نظر جموں و کشمیر پر ہے۔ اگر مودی وشاکھاپٹنم کے متاثرین کے ساتھ دیپاولی منانے پہنچتے تو انسانی ہمدردی کے جذبہ کا ہر کوئی قائل ہوجاتا۔ نریندر مودی نے ہمدردی کے نام پر کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات کیلئے مہم کا عملاً آغاز کردیا ہے ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے گزشتہ پانچ ماہ میں 4 مرتبہ کشمیر کا دورہ مودی کے سیاسی عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ ویسے وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے اپنی ریاست گجرات کا بھی 4 مرتبہ دورہ نہیں کیا ہوگا۔

کشمیر جہاں محرومی کے احساس کے ساتھ ایک نسل تیار ہوچکی ہے، وہاں یہ ڈرامہ بازی نہیں چلے گی۔ مودی نے 745 کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا جس میں 570 کروڑ مکانات کے نقصانات کیلئے متاثرین میں تقسیم ہوں گے جسے مرکزی حکومت راست متاثرین کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرے گی۔ یہ اقدام سیاسی مقصد براری نہیں تو کیا ہے؟ امداد کی تقسیم ریاستی حکومت کے ذریعہ کی جاسکتی تھی۔ کشمیر میں متاثرین کی بازآبادکاری اور اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ برخلاف اس کے مودی اور بی جے پی کو انتخابات سے دلچسپی ہے۔ موجودہ حالات میں الیکشن کی صورت میں ہندوستان کا وقار اور جمہوریت دنیا بھر میں داغدار ہوگی۔ انتخابات میں کشمیر میں رائے دہی کا فیصد عام حالات میں کافی کم رہتا ہے اور موجودہ حالات میں تو کئی علاقوں میں رائے دہی صفر رہنے کا اندیشہ ہے۔ الیکشن کو مؤخر کرنے کے سلسلہ میں چیف منسٹر عمر عبداللہ کا موقف درست ہے جبکہ بی جے پی نومبر میں چناؤ کے حق میں ہے۔ الیکشن کمیشن کا جھکاؤ بھی اسی سمت دکھائی دے رہا ہے ۔ وزیراعظم نے کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے ، لہذا اسے کسی کے دباؤ کو قبول نہیں کرنا چاہئے ۔عمر عبداللہ نے راحت کاموں کیلئے 44 ہزار کروڑ کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیراعظم نے 1000 کروڑ کا اعلان کیا ۔ دیپاولی منانے کے نام پر مزید چند سو کروڑ کا اعلان کیا گیا لیکن اس سے کشمیری عوام کا دل جیتا نہیں جاسکتا۔ پوری طاقت جھونک کر بھی مہاراشٹرا میں اکثریت حاصل نہ ہوسکی اور اب کشمیر میں حکومت کا قیام اور ہندو چیف منسٹر کا خواب منگیری لال کے سپنے کے سواء کچھ نہیں ۔

دراصل دہلی میں بیٹھ کر مہاراشٹرا کا غم منانے کے بجائے مودی ہمدردی کی آڑ میں انتخابی مہم پر کشمیر نکل پڑے ۔ جس وقت وزیراعظم کشمیر کے دورہ پر تھے ، سرحد پر پاکستانی فوج کی فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ گزشتہ دنوں مودی نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دینے کا دعویٰ کیا تھا پھر بھی فائرنگ کا سلسلہ کیوں جاری ہے ؟ سرحد پر تو پاکستان کو جواب دینے سے مودی حکومت قاصر رہی لیکن سیاچن کی بلندی پر فوج کے درمیان بہادر کے دعوی کئے گئے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کی جانب سے بھی بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کیلئے فائرنگ کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے چناؤ کے وقت سرحد پر کشیدگی عروج پر تھی ، اب دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ایسے وقت شروع ہوا جب کشمیر کے چناؤ کی تیاری ہے۔ کیا نواز شریف حکومت سرحد پر کشیدگی کے ذریعہ مودی کی درپردہ مدد تو نہیں کر رہی ہے ؟ ایک طرف نریندر مودی ترقی اور فرقہ وارانہ منافرت ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف سنگھ پریوار اپنے ایجنڈہ پر تیزی سے گامزن دکھائی دے رہا ہے۔ چونکہ حکومت کی باگ ڈور آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے لہذا گورنر جیسے دستوری عہدہ پر کئی ریاستوں میں آر ایس ایس کے پرچارکوں کو فائز کیا گیا۔ اترپردیش کے گورنر رام نائک نے توآر ایس ایس سے اپنی وابستگی پر کھل کر فخر کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بی جے پی سے مستعفی ہو ئے ہیں، آر ایس ایس سے استعفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ایک مرتبہ پرچارک بننے والا تاحیات برقرار رہتا ہے۔ ہریانہ میں آر ایس ایس سے طویل وابستگی رکھنے والے منوہر لال کھٹر کو لیجسلیچر پارٹی قائد منتخب کیا گیا۔ مہاراشٹرا میں بھی جس قائد کا نام زیر غور ہیں ، ان کا تعلق بھی آر ایس ایس سے ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی تنظیمیں رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر حکومت پر دباؤ بنارہی ہیں۔دستوری عہدوں پر آر ایس ایس سے وابستہ افراد کی نامزدگی اور سنگھ پریوار کی سرگرمیاں نریندر مودی کے قول اور فعل میں تضاد کو ظاہر کرتی ہیں۔ موجودہ حالات پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہ بازارِ سیاست ہے یہاں خودداریاں کیسی
سبھی کے ہاتھ میں کاسہ ہے مٹھی کون باندھے گا