مودی حکومت … ہر محاذ پر مایوسی
ہریانہ کے وزیر کی شرانگیزی… شریعت کے خلاف آوازیں
رشیدالدین
نریندر مودی ملک کے 15 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے 26 مئی کو دو سال مکمل کرلیں گے۔ حکومت کے دو سال کی تکمیل کے موقع پر بڑے جشن کی تیاری کی جارہی ہے۔ یقیناً دو سال کی تکمیل پر وزیراعظم اور حکومت کو جشن منانے کا حق حاصل ہے لیکن اگر یہ جشن صرف دو سال کی تکمیل تک محدود ہو تو کوئی بات نہیں کیونکہ اس مدت کی تکمیل کرنا بھی جشن اور خوشی کا لمحہ ہے ۔ اگر یہی جشن حکومت کے کارناموں اور کامیابی کی بنیاد پر ہو تو پھر جشن منانے پر سوال کھڑے ہوں گے ۔ظاہر ہے کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے بغیر جشن کا اہتمام کیا جائے تو یہ عوامی جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔ اس طرح کا جشن عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سبب بنے گا جنہوں نے نریندر مودی سے بے انتہا امیدیں وابستہ کرتے ہوئے 30 سال کے عرصہ کے بعد مرکز میں کسی واحد پارٹی کو اکثریت عطا کی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک کے عوام کی اکثریت نے نریندر مودی کو وزیراعظم چنا ہے بلکہ صرف 31 فیصد ووٹ سے بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا اور 69 فیصد نے خلاف میں ووٹ دیا اور مخالف ووٹ اپوزیشن میں منقسم ہوگئے جس کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا۔ اچھے دن اور سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے نعروں کا شکار عوام کے گھروں میں مسائل کے سبب ماتم کا ماحول ہے۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے جشن کی گنجائش کہاں رہے گی ۔ وعدوں کی تکمیل تو چھوڑئیے ملک کی 11 ریاستیں شدید قحط سالی کا شکار ہیں۔ کسان فصلوں کو نقصان کے سبب خودکشی کر رہے ہیں۔ عوام بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ لاکھوں افراد نے نقل مقام کرلیا۔ ریلویز کے ویاگنوں کے ذریعہ پانی کی سربراہی اور قحط زدہ علاقوں میں لڑکیوں کے رشتوںکیلئے بطور جہیز باؤلی کے مطالبہ کی اطلاعات ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق 33 کروڑ سے زائد آبادی قحط سالی کی زد میں ہے۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے جشن منانے کا جواز کیسے ہوگا؟ عوام خوشحال ہوتے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی تو وہ خود حکومت کے دو سال پر جشن مناتے لیکن یہاں تو صورتحال برعکس ہے۔ اچھے دن ضرور آئے لیکن وہ صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کیلئے ہیں۔ ملک میں وکاس بھی ہوا لیکن سب کا نہیں بلکہ حکومت اور پارٹی سے قربت رکھنے والوں کا ۔ سب کا ساتھ کا نعرہ تو لگایا گیا لیکن حکومت نے صرف ان کا ساتھ دیا جنہوں نے بی جے پی کو برسر اقتدار لانے میں مدد کی تھی۔ اس کی ایک مثال رام دیو ہیں جو الیکشن میں بی جے پی کے اسٹار کیمپینر تھے لیکن آج بڑے ادیوگ پتی بن چکے ہیں۔ کالا دھن ملک واپس لاتے ہوئے ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا وعدہ کیا گیا لیکن 15 لاکھ تو دور کی بات ہے ، 15 پیسے بھی نہیں آئے۔
برخلاف اس کے آسمان چھوتی مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقات کی رہی سہی پونجی کو ذخیرہ اندوزوں اور کالا بازاری کرنے والوں کی جیب میں پہنچا دیا ۔ دو برسوں میں صرف وعدے اور اعلانات ہی عوام کے حصے میں آئے۔ نریندر مودی بھی ان دو برسوں میں عوام کیلئے کرشماتی شخصیت باقی نہیں رہے۔ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران مودی کی تقاریر کا عوام پر جس طرح جادوئی اثر ہوا تھا اب وہ باقی نہیں رہا۔ وہ اپنے منفرد انداز بیان اور الفاظ کی جادوگری کے مظاہرہ سے قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ مقبولیت میں کمی اور وعدوں پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار بہار کے اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو ملا جہاں ایک لاکھ 25,000 کروڑ کے پیکیج کا وعدہ بھی بی جے پی کو اقتدار تک نہیں پہنچا سکا۔ نریندر مودی کی دو سالہ کارکردگی پر کئے گئے حالیہ سروے میں بھی عوام نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ دو سالہ دور عوام کیلئے کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف رہا۔ اگر نریندر مودی اور ان کی ٹیم کو جشن منانے کا موقع فراہم کرنا ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ ظاہر ہے کہ دو سال میں مودی اینڈ کمپنی نے کچھ اچھے کام ضرور کئے ہوں گے جس کی بنیاد پر انہیں جشن منانے کا حق حاصل ہوسکتا ہے۔ بھلے ہی یہ کام عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق کیوں نہ ہوں۔ ہماری اس تحریر سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ ہماری نظر صرف حکومت کی ناکامیوں پر رہتی ہے، خامیوں کے ساتھ خوبیاں بھی ہیں، بھلے ہی کم کیوں نہ ہوں لیکن جن خوبیوں کا ہم تذکرہ کرنے جارہے ہیں، وہ عوام اور ہماری نظر میں خوبی نہیں ہوسکتے۔ نریندر مودی نے دو برسوں میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر بھلے ہی توجہ نہ دی ہو لیکن ناگپور ہیڈکوارٹر سے کئے گئے عہد کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری اور ہندو راشٹر کی طرف پیشقدمی کیلئے نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مودی حکومت نے ’’حقیقی ایجنڈہ ‘‘ پر عمل کیا جبکہ وعدے اور اعلانات اور اچھے دن محض دکھاوا تھا۔ ہاں اس کیلئے بی جے پی کو جشن منانے کا حق حاصل ہے لیکن یہ ایجنڈہ ملک کو جوڑنے والا نہیں بلکہ توڑنے والا ہے۔ سماج کو پہلے ہی مذہب کے نام پر مختلف خانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ دراصل دو سالہ کارکردگی اور عوام میں پائی جانے والی ناراضگی نریندر مودی اور بی جے پی کے لئے آئی اوپنر ہے۔ یہی روش جاری رہی تو آئندہ لوک سبھا چناؤ میں اقتدار تو کیا مسلمہ اپوزیشن کا موقف بھی حاصل ہونا دشوار ہوجائے گا۔
حکومت کے دو سال کے دوران نریندر مودی شائد ہی کبھی خود کو وزیراعظم ثابت کرسکے۔ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا الگ بات ہے لیکن اس عہدہ کے اختیارات کا استعمال اہمیت کا حامل ہے۔
نفرت کے سوداگروں پر قابو پانے کا معاملہ ہو یا جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں پر لگام کسنا ہو ، اس معاملہ میں وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی ناکام رہے۔ ان معاملات میں ناگپور ہیڈکوارٹر کی مرضی چلتی رہی۔ مودی نے پارلیمنٹ اور اس کے باہر جو کچھ بھی بیانات دیئے ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ اس کی تازہ مثال ہریانہ کے وزیر انیل وج کا بیان ہے جس میں انہوں نے بھارت ماتا کا نعرہ نہ لگانے والوں کو آر ایس ایس شاکھاوں میں بھیجنے کا مشورہ دیا۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت جب خود کہہ چکے ہیں کہ اس نعرہ کے لئے کسی پر جبر نہیں کیاجاسکتا تو پھر انیل وج نے یہ شرانگیزی کیوں کی؟ مذکورہ وزیر اشتعال انگیز بیانات کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ متنازعہ نعرہ کے نام پر سیاست سے آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ ہریانہ کے چیف منسٹر نے بیف کے مسئلہ پر کہا تھا کہ جن کو کھانا ہو ، وہ پاکستان چلے جائیں۔ اس طرح پارٹی کے چیف منسٹرس ، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ پر وزیراعظم کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے بن بلائے مہمان کی طرح نواز شریف کی برتھ ڈے میں وزیراعظم کی شرکت کو کیا کہیں گے۔ وزیراعظم بننے سے قبل مودی نے پاکستان کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا تھا لیکن آج اسی پاکستان اور وہاں کے حکمرانوں پر محبت اُمنڈ رہی ہے۔ نریندر مودی نے دو برسوں میں من کی بات تو کی لیکن کسی بھی وقت انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ عوام کے من میں کیا ہے ؟ کسی بھی حساس مسئلہ پر من کی بات پروگرام سے انہوں نے خطاب نہیں کیا۔ ملک کا سربراہ جب خود عوام کے جذبات سے واقف نہ ہو تو پھر وہ کس طرح مسائل کی یکسوئی کرپائے گا کہ حکومت کی مایوس کن کارکردگی کا اثر دیگر ریاستوں میں پارٹی کے موقف میں کمزوری کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ 4 ریاستوں کے جاریہ انتخابات میں بی جے پی کو کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ جنہوں نے انتخابی مہم کی کمان سنبھالی ہے ، وہ چار ریاستوں کے امکانی نتائج سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔اتنا ہی نہیں وزیراعظم نریندر مودی کی ا پنی ریاست گجرات میں بی جے پی کی بنیادیں کمزور ہونے لگی ہیں۔
گزشتہ دنوں گجرات کے مجالس مقامی انتخابات میں 31 اضلاع میں سے 23 میں کانگریس پار ٹی نے کامیابی حاصل کی جو نریندر مودی کے لئے زبردست جھٹکا ہے۔ گجرات میں چیف منسٹر کی حیثیت سے برقراری تک مودی ناقابل تسخیر شخصیت تھے لیکن دہلی منتقلی کے ساتھ ہی پارٹی بھی کمزور ہونے لگی ہے ۔ پارٹی کی کمزوری کا اندازہ پٹیل طبقہ کو تعلیم اور ملازمتوں میں 10 فیصد تحفظات کا اعلان ہے۔ گجرات میں پٹیل برادری 12 تا 15 فیصد پر مشتمل ہے لیکن سیاست ، صنعت ، تعلیم اور رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں یہ طبقہ اپنا خاصا اثر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں شکست سے بچنے کیلئے بی جے پی حکومت نے پٹیل برادری کو تحفظات کا اعلان کردیا ۔ دہلی کے سیاسی حلقوں میں ان دنوں یہ بحث جاری ہے کہ 26 مئی کو نریندر مودی حکومت کس بات کا جشن منائے گی۔ سیاسی مبصرین کے ایک گوشہ کا ماننا ہے کہ حکومت نے غریبوں کیلئے جن نئی اسکیمات کا اعلان کیا ہے ، ان کی تشہیر کی جائے گی۔ بھلے ہی ان اسکیمات سے عوام کو فائدہ نہیں ہوا۔ مبصرین کے دوسرے گوشہ کا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ دو سال کی تکمیل پر جشن کے بجائے ’’یوم احتساب‘‘ کے طور پر منائے اور اپنی دو سالہ کاکردگی کا محاسبہ کرے ۔ اگر حکومت عوامی وعدوں کی تکمیل اور خدمت میں سنجیدہ ہیں تو اسے کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ دو سال کی تکمیل نریندر مودی کیلئے بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ انہوں نے ملک اور بیرون ملک خود کو عوامی خدمت گزار کی حیثیت سے پیش کیا لیکن دو سال کی رپورٹ کارڈ کا انہیں جائزہ لینا ہوگا۔ ملک میں ان دنوں شریعت اسلامی کے خلاف مختلف گوشوں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ افسوس کہ بعض نام نہاد ماہرین قانون نے شریعت کے مختلف امور کی غلط توضیح کی ہے۔گزشتہ دنوں ایک سے زائد شادیوں کے مسئلہ پر ایک مسلم جج کے ریمارک کے بعد اور ماہر قانون نے تین طلاق کے مسئلہ پر متنازعہ بیان دیا ہے ۔ مسلم پرسنل لا کے امور میں بیان دینے کا اختیار صرف ان افراد کو حاصل ہے جو شریعت پر عبور رکھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخالف اسلام عناصر کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر کچھ اپنے نادان دانشور بیان بازی کر رہے ہیں۔ عدالتوں میں شریعت کو چیلنج کرنے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوری حرکت میں آنا ہوگا ۔ عدالتوں میں شریعت کے خلاف جو فیصلے صادر ہوئے ہیں، انہیں فوری چیلنج کرنا ہوگا۔ اس کام کیلئے ہر ریاست میں ماہرین پر مشتمل لیگل پیانل تشکیل دیا جائے۔ شریعت مسلمانوں کا اثاثہ ہے اور اس کا تحفظ تمام کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے موجودہ حالات پر کسی شاعر نے کچھ اس طرح کہا ہے ؎
یہ اچھے دن تمہارے جان لے لیں گے غریبوں کی
گزارش ہے ارے صاحب پرانے دن وہ لوٹادو