مجید صدیقی
ہندوستانی عوام جن میں ہندو، مسلم، سکھ عیسائی اور دلت سبھی شامل ہیں، نے مودی اینڈ بی جے پی اورکو اپنے اعتماد کا ووٹ دے کر ایک صاف و شفاف، سیکولر، ترقی پسند ، غریبوں، پچھڑے ہوئے طبقات کو اونچا اٹھانے والی حکومت بنانے کیلئے پانچ سال کیلئے اقتدار سونپا ہے۔ ان رائے ہندوں میں زیادہ تر نوجوان طبقے کے لوگ جن میں تعلیم یافتہ، غیرتعلیم یافتہ، ہنر مند اور غیرہنر مند سبھی شامل ہیں، انہیں مودی کی تقاریر میں ایک مسیحا نظر آیا جو ان کے ملازمت اور خوشحالی اور ملک کی ترقی کے خوابوں کی تعبیر دے سکے۔ عوام پچھلی یو پی اے II دور کی منموہن سنگھ حکومت کی بے دخلی چاہتے تھے، جن کے دور میں مہنگائی نے اپنا بھیانک منہ کھول کر غریب عوام کیلئے جینا دو بھر کردیا تھا۔ اس کے علاوہ متعدد اسکامس اور ان پر کنٹرول اور قابو نہ پانے کے عوض عوام کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا کہ وہ یو پی اے کے متبادل نریندر مودی کی بی جے پی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ انتخابی مہم میں یکطرفہ شاطر اور جادو بیان سیاست داں نریندر مودی اور دوسری طرف کم تجربہ کار، راہول گاندھی تو ظاہر ہے آج کل کی سیاست میں زیادہ شاطر سیاست داں ہی بازی مارلے جاتے ہیں اور ہوا بھی یہی۔ اس طرح نریندر مودی ہندوستانی عوام اور نوجوان طبقہ کی اُمنگوں کا سہارا بن کر 26 مئی 2014ء کو دہلی کے سنگھاسن پر جلوہ افروز ہوئے اور اس عظیم ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ سنٹرل ہال دہلی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مودی آبدیدہ ہوئے اور ان میں ایک نیک آدمی کے جذبات ابھر آئے اور انہوں نے وہاں وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ایک سے مساوی سلوک روا رکھیں گے اور کسی سے بھی بدلہ نہیں لیں گے اور سب کا ساتھ ’’سب کا وِکاس‘‘ کا بھی نعرہ دیا تھا۔ اپنی حلف برداری کے وقت بھی وہ ایک بار پھر جذبات سے مغلوب ہوکر کہنے لگے کہ وہ حکومت کے چلانے میں سب کو ساتھ لے کر چلیں گے اور کسی سے کوئی امتیاز نہیں برتیں گے اور ہر ایک کی ترقی کیلئے منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل بھی کریں گے۔
وہ ایک بار گجرات کے قائد اپوزیشن شنکر سنگھ واگھیلا سے گلے ملتے وقت اور وزیراعظم کا حلف لینے کیلئے دہلی روانہ ہونے سے قبل بھی گجرات اسمبلی کو خدا حافظ کرتے وقت بھی آبدیدہ ہوگئے تھے اور وہاں کے ارکان اسمبلی سے فرداً فرداً انہوں نے ملاقات بھی کی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ اس موقع پر گجرات کے فسادات کے متاثرین سے بھی وہ معافی چاہ لیتے اور اپنی عاقبت سنوار لیتے ، لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ معافی چاہنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے سچ مچ گجرات فسادات میں یکطرفہ حمایت کرکے پولیس اور غنڈوں کو چھوٹ دے دی تھی حالانکہ بادی النظر میں بہت سے تحقیقاتی کمیشنوں جیسے ناناوتی کمیشن نے بھی اس طرف اشارہ کیا تھا اور ایک آئی پی ایس آفیسر (سنجیو بھٹ) نے تو چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دی تھی۔
یہاں یہ تذکرہ بے جا ہوگا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جماعت کی تنظیم جدید کی ہے اور اس میں بدنام زمانہ امیت شاہ کو پارٹی کا صدر نامزد کیا ہے جن کی سرکردگی میں مظفر نگر اور دیگر اضلاع میں فسادات کے بعد بی جے پی کو پارلیمنٹ کی 77 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ ان کا نام ابھی بھی مختلف چارج شیٹسمیں موجود ہے جو گجرات کے فسادات اور فرضی انکاؤنٹرس کے سلسلے میں عدالتوں میں مقدمات زیردوراں ہیں۔ ویسے مودی پر بھی فسادیوں کو کھلی جھوٹ دینے اور فسادات کو قابو نہ کرنے اور مسلسل 7 روز تک ریاست گجرات کی صورتِ حال کو غنڈہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے الزامات میں۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جو نظریات اصول اور تقاریر آر ایس ایس کی فیاکٹری میں تیار ہوتے ہیں۔ وہ یہاں بی جے پی کے فیاکٹری آؤٹ لٹ میں اس کی مارکیٹنگ ہوتی ہے، جیسے موہن بھاگوت سرسنچالک کا متنازعہ بیان ہندوپورے ہندوستان کی شناخت ہونے کا بیان جسے ان سے پہلے منوہر پاریکر گوا کے چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر نے بھی طوطے کی طرح بیان دیا تھا۔
اب بی جے پی کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ وہ قائدین جنہوں نے مسلمانوں نے خون سے پارٹی کو سینچا تھا (اپنے خون سے نہیں) وہ اب اس سیاسی جماعت کیلئے قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ویسے اڈوانی کوئی معمولی چیز نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ہی مودی کو اپنا شاگرد بناکر حکومت کے گُر سکھائے اور گجرات کی چیف منسٹری تک پہنچایا تھا، وہ آج انہی کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
اس سے قبل بہار کے ضمنی انتخابات میں 10 نشستوں میں سے 8 نشستیں نتیش۔ لالو پرساد یادو کانگریس کو ملی میں تھیں جوکہ ایک واضح ثبوت ہے۔ مودی لہر کی گرتی ہوئی ساکھ کا۔ ابھی صرف تین ماہ قبل پارلیمنٹ کے انتخابات میں 331 پارلیمنٹ کی نشستیں جیت کر نریندر مودی نے سارے ہندوستان کو اور ساری دنیا کو حیران کردیا تھا (مکمل اکثریت حاصل کرکے) جب سے نریندر مودی نے ہندوستان کا اقتدار سنبھالا ہے، تب سے ہی اس زعفرانی جماعت نے تفرقہ پردازی کی سیاست اور سماج کو فرقہ وارانہ اساس پر تقسیم کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔
100 سال سے کئی ہندو لڑکیاں اور مسلمان لڑکیاں بین المذہبی شادیاں کرچکی ہیں، جس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ جسٹس ہدایت اللہ سابق چیف جسٹس کی بیوی ہندو تھیں۔ شاہ رخ خاں مشہور فلمی اداکار اور عامر خاں کی بیویاں ہندو ہیں اور ابھی تک وہ اپنے مذاہب پر قائم ہیں۔ نواب منصور علی خاں پٹودی کی بیوی مشہور فلم اسٹار شرمیلا ٹیگور ہندو تھیں۔ بعد میں انہوں نے اپنا نام عائشہ خاں رکھ لیا اور ان کے فرزند سیف علی خاں نے پہلے امریتا سنگھ سے شادی کی تھی جو سکھ ہیں بعد میں مشہور کپور خاندان کی بیٹی کرینہ کپور سے شادی کرلی۔ فلم اسٹار سلمان خاں کی والدہ اور مشہور فلم کہانی کار سلیم خاں کی بیوی ہندو ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ شیوسینا کے سابق سربراہ بال ٹھاکرے کی پوتری نے بھی ایک مسلمان ڈاکٹر سے شادی کرلی تھی جس میں وہ خود (بال ٹھاکرے) اور موجودہ صدر شیوسینا ، ادھو ٹھاکرے بھی بہ نفس نفیس شریک رہے۔
بی جے پی کے مشہور بزرگ قائد اڈوانی کی بھتیجی نے بھی ایک مسلمان ڈاکٹر سے شادی کی تھی۔ پروین توگاڑیہ نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلم نوجوان سے کرا دی تھی۔ سبرامنیم سوامی کی بیٹی بھی ایک مسلمان نوجوان کی شریک حیات ہے اور دھرمیندر اور ہیما مالینی ایم پی نے بھی شادی سے قبل اسلام قبول کیا تھا۔ اشوک سنگھل نے اپنی بیٹی مختار عباس نقوی اور مرلی منوہر جوشی نے اپنی دختر شاہ نواز حسین مشہور بی جے پی قائدین سے کرائی۔
ان مثالوں سے ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں سے آپ کو اتنی نفرت ہے تو کیوں آپ حضرات نے اپنی خوشی اور مرضی سے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مسلمان لڑکوں سے شادی کرنے کی اجازت دی تھی:
مودی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی مخالف مسلمان لابی پوری طرح حرکت میں آچکی ہے اور وہ اپنے اشتعال انگیز بیانات سے مسلمانوں کی دل آزاری اور ہمارے ہم وطنوں کے دل و دماغ کو مسموم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ذیل کے بیانات اس کا بین ثبوت ہیں۔ جسے ہم یاد دلانا چاہتے ہیں جیسے
(1) پہلے دن نجمہ ہپت اللہ نے اقلیتی بہبود کے قلمدان سنبھالنے کے بعد کہا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں اور انہیں تحفظات کی ضرورت نہیں ہے، پارسی اقلیت ہیں‘‘۔
(2) مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دفعہ 370 کو کالعدم کرنے کے ارادہ کا اظہار کیا تھا۔
(3) پونے کے ایک غریب مسلمان سافٹ ویر انجینئر کو کر ہلاک کیا گیا، اس پر اہانت آمیز تصاویر ٹوئٹر پر شائع کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
(4) اذان پر فجر کے وقت اعتراض کیا گیا تھا۔
(5) یوپی اور دوسری ریاستوں راجستھان میں تقریباً 700 چھوٹے بڑے فسادات۔
(6) دہلی کے مہاراشٹرا بھون میں ایک روزہ دار لڑکے کو بی جے پی کی حلیف شیوسینا کے ارکان پارلیمنٹ کی زبردستی روٹی کا ٹکڑا منہ میں ڈالنے کی مذموم حرکت کی۔
(7) آر ایس ایس سرسنچالک موہن بھاگوت اور گوا کے چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر کا ہندوستان کے ہر شہری کے ’’ہندو‘‘ ہونے کا ادعا۔
(8) ذبیحہ گاؤ پر امتناع عائد کرنے کی آوازیں۔
(9) یکساں سیول کوڈ کیلئے موہن بھاگوت کی آواز اس میں جسٹس کاٹجو کی ہاں میں ہاں ملانا۔
(10) مسلم نوجوانوں کی انڈین مجاہدین کے نام سے گرفتاریاں اور جیل میں بند کرنا۔
(11) صدر بی جے پی امیت شاہ کی زہر افشانیاں، آسام اور بنگال میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے داخلے کے بارے میں دروغ بیانی۔
(12) ’’لو جہاد‘‘ کے بارے میں مہنت ادتیہ ناتھ کا شرپسندانہ بیان۔
(13) پروین توگاڑیہ کا مسلمانوں کو مکانات کرایہ پر نہ دینے اور نہ بیچنے کی ہندوؤں سے اپیل۔
(14) مدرسوں میں دہشت گردی کی تعلیم کے بارے میں ساکشی مہاراج کا شرپسندانہ بیان۔
ایسا لگتا ہے کہ ان اشتعال انگیزیوں اور شرپسندانہ پروپگنڈے کو نریندرمودی کی خاموش تائید حاصل ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ مودی ان ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔
(15) اشوک سنگھل اور پروین توگاڑیہ (وشوا ہندو پریشد) کا کہنا کہ رام مندر کی تعمیر بس اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔
(16) ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ اس کے وزیراعظم نریندر مودی کا جو ایک سیکولر ملک کے نمائندہ ہیں، ابتدائی دوروں میں نیپال، بھوٹان اور جاپان میں مندروں کے دورے اور وہاں پوجا پاٹ اور انہیں قیمتی گرانٹ دینا اور جاپان کے وزیراعظم شفیز و ایب ’’بھگوت گیتا‘‘ کا تحفہ دینا کیا ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح کا رویہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت ایک سیکولر اسٹیٹ نہیں بلکہ ایک ہندو راشٹر ہے اور وہ ایک ہندو راشٹر کے نمائندے ہیں۔ اگر وہ سیکولر اسٹیٹ کے نمائندے ہوتے تو مندروں کے ساتھ ساتھ مساجد اور چرچ کی بھی زیارت کرتے اور یہاں کی اقلیتوں کو بھی خوش کرتے۔ ان ساری باتوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمیں سمندر کے اس سُکوت کے نیچے ایک کروٹیں لیتا ہوا بے چین طوفان نظر آرہا ہے۔
ہمیں خدشہ ہے کہ خدانخواستہ یہ چھوٹی چھوٹی شر انگیزیاں کسی بڑے طوفان کا پیشہ خیمہ نہ بن جائیں۔ اسی لئے ہم ہندوستانیوں کو خصوصاً مسلمانوں کو خواب غفلت سے جاگ کر اپنے گرد و پیش ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات، بیانات کا نوٹ لینا چاہئے اور اس سے قبل کوئی طوفان یا سونامی آجائے، ہمیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی مدد سے بچاؤ اور راحت کاری کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ ہم ہندو مسلمان، اس ملک میں امن و چین اور اتحاد و اتفاق سے رہ کر اس ملک کو بدنام ہونے سے بچائیں گے اور بھارت کو ہمیشہ کی طرح ایک اہنسا اور امن و امان کا گہوارہ بنائیں گے۔ خدا ہمیں اس کی طاقت اور توفیق دے۔ (آمین)