یہی ہے موت کہ جینا حرام ہوجائے

نفیسہ خان
کام کے مصروف ترین اوقات میں کسی قسم کا شور شرابا یا کسی قسم کی خلل اندازی بڑی گراں گذرتی ہے ۔ اس لئے جب کام والی ہانپتی کانپتی سینہ کوبی کرتی ہوئی کچھ کہنے کو بے قرار آنکھوں میں ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا کیونکہ میں نے سمجھا تھا کہ ہمیشہ کی طرح شرابی شوہر کی مار کھاکر لڑ جھگڑ کر فریاد لیکر اور اپنے بدن پر پڑجانے والے مار کے نیلے نشانات بتانے میرے پاس دوڑی چلی آرہی ہے لیکن اس بار وہ حواس باختہ لگ رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ اپنے شوہر کو ننگی گالیوں سے نوازنے کا لامتناہی سلسلہ بھی نہ تھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی پڑوسن سجاتا اور اس کا شوہر رمیش نے گئی رات پھانسی لیکر خودکشی کرلی ہے ۔ میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا ۔ آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ میرے سجاتا کے گھر پہونچنے تک سارا گاؤں امنڈپڑا تھا ۔ بڑا ہی کربناک منظر تھا کہ دونوں کی لاشیں چھت کی ناٹ سے لٹک رہی تھیں اور دونوں کے ماں باپ سکتے کے عالم میں بیٹھے تھے ۔ پولیس کی تفتیش شروع ہونے والی تھی چند دن پیشتر ہی سجاتا میرے پاس کام کی تلاش میں آئی تھی ۔ انٹر فیل تھی سوائے آنگن واڑی مراکز یا کنٹراکٹ طریقہ تقرر پر کام ملنے کے دوسری کسی نوکری کی امید فضول تھی ۔ سجاتا دبلی پتلی دھان پان دراز قد سانولی سی بائیس تئیس سالہ لاڈ و پیار میں پلی قبول صورت لڑکی تھی ۔ باپ سرکاری دفتر میں چوکیدار تھا دو بھائی دوسرے شہر میں برسر روزگار تھے ۔ کوئی پریشانی و تنگ دستی نہ تھی ۔ باپ نے اپنے ساتھ ہی کام کرنے والے چپراسی کے بیٹے رمیش کے ساتھ اس کی شادی کردی تھی ۔ جو ایک خانگی کنسٹرکشن کمپنی میں Rod Bending کا کام کیا کرتا تھا ۔ اپنے کام میں ماہر تھا ۔ اس لئے گتہ دار کو جہاں کام ملتا وہاں اس لڑکے کو اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا ۔ اب چونکہ ناگرجنا ساگر ڈیم ایک اجڑا ہوا گلشن ہوگیا ہے ۔ یہاں نہ تعمیر کا کام ہو رہا ہے نہ تزئین کا ۔ نہ باغ باغیچے باقی ہیں نہ کہیں ہریالی و سبزہ دکھائی دیتا ہے ۔ نوجوان نسل کام کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے ۔

اس لئے سجاتا کا شوہر بھی پچھلے چار سال سے ہماچل پردیش میں کام کر رہا تھا ۔ عموماً کسی مذہبی تہوار یا خاندانی تقاریب میں شرکت کیلئے یا پھر بیوی بچی سے ملنے سال چھ ماہ میں ایک دو بار گھر آجایا کرتا تھا ۔ سجاتا اور بیٹی پورنیما کو بے انتہاء چاہتا تھا ۔ درجہ چہارم ملازمین کیلئے مختص کئے گئے چھوٹے گھروں میں سے ایک میں ان کا قیام تھام ان کے گھر کے آس پاس ہی میکہ و سسرال بھی تھے ۔ زندگی سکون و آرام سے گذر رہی تھی ۔ ایک دو بار سجاتا ہماچل پردیش ہو آئی تھی ۔ اکثر وہ وہاں کے سرد موسم کی تفصیل مجھے سنایا کرتی تھی ۔ پچھلے سال البتہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ رمیش کی صحت کچھ ٹھیک نہیں چل رہی ہے ۔ وہ اب سخت مندی و محنت کو برداشت نہیں کر پارہا ہے ۔ اس لئے وہاں سے ساگر واپس لوٹ آنا چاہ رہا ہے ۔ بس وہ دونوں ملکر کچھ کام تلاش کرنے کی فکر میں ہیں پھر ایک بار معلوم ہوا کہ رمیش نوکری چھوڑکر آگیا ہے ۔ بہت کمزور لگ رہا تھا ہمیشہ کی طرح وہ تجھ سے ملنے بھی نہیں آیا ۔ اگر کہیں اتفاقاً آمنا سامنا ہوگیا تو بھی وہ پہلے جیسے قصے نہیں سنارہا تھا ۔ اس کی زندہ دل آواز کی چہک کہیں گم ہوگئی تھی ۔مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کی نظریں میری طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھیں ۔ بار بار اس کی نظروں کا جھک جانا مجھے خدشات میں مبتلا کر رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی پچھتاوا اس کے دل کو مسوس رہا ہے گھر سے باہر بھی کم ہی نکلتا تھا ۔ ماں باپ اچھی غذا ، دوائیں ، ٹانک دلاتے رہے لیکن نہ اس کا بخار کم ہورہا تھا نہ کھانسی میں افاقہ ہو رہا تھا ۔ کبھی جلدی بیماریوں کا شکار ہوکر جسم پر لال چتے آجاتے تو کبھی سوجن آجاتی۔ کبھی اجابتیں بے حال کردیتیں ۔ اس کا وزن مسلسل گرتا جارہا تھا ۔ اتنا محنتی و جیوٹ لڑکا سست کاہل کمزور و لاغر ہوتا جارہا تھا ۔ مقامی ڈاکٹروں نے پہلے نمونیا بتایا ۔ اس کا علاج ہوتا رہا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا پھر ٹی بی یعنی تب دق قسم کی علامات دیکھ کر اس کا اندیشہ ظاہر ہوا دیہاتوں کے دواخانے مفروضات پر علاج کرتے ہیں ۔ اسی طرح وقت گذرتا گیا ایک بار کافی دنوں بعد میرا رمیش سے سامنا ہوا تو اس کی نقاہت، کمزوری ،اڑا اڑا سا بے رنگ مرجھایا چہرہ زرد آنکھیں پسینہ پسینہ ہوتا ہوا رمیش میرے سامنے تھا ۔ اس کے ہونٹوں کے اطراف واضح طور پر دکھائی دینے والے سفید دھبے دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا ،کیونکہ ہم کافی دنوں تک ایڈس کے بیداری پروگرام میں ٹریننگ کلاسیس میں حصہ لے چکے ہیں ۔ ہمارے ساگر والوں کی شومئی قسمت کہ یہاں کوئی قابل ڈاکٹر یا دواخانہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم نے سجاتا کو مشورہ دیا کہ وہ شہر جاکر مکمل طبی جانچ کرائے ۔ اس سے زیادہ کہنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہ تھے کہ

اُسے کیسے بتاؤ ںساتھ چھٹ جانا یقینی ہے
مسافر سے سفر کا حوصلہ چھینا نہیں جاتا
ہر قسم کے معائنوں کیلئے وہ دونوں شہر جاکر مکمل جانچ کروا آئے تھے سُناکہ تب ہی سے وہ گھر میں گویا نظر بند سے ہوگئے تھے ۔ ماں باپ کے دس بار آواز دینے پر باہر آتے اور بہ مشکل چند لقمے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھالیا کرتے تھے۔ نہ وہ پہلے جیسا ہنسنا، ہنسانا نہ ٹی وی دیکھنا ،نہ کھلی فضا میں ارتھ ڈیم کے ساتھ ساتھ والی نشیبی سڑک پر چہل قدمی کرنا نہ تین سالہ بیٹی کی شرارتوں پر مسرورو محظوظ ہونا سب کچھ گویا ختم سا ہوگیا تھا اور پھر ایک رات ان دونوں نے آپسی سمجھوتے سے یہ انتہائی قدم اٹھالیا ۔ سجاتا کا ایک خط ان تینوں کی خون کی تفصیلی رپورٹ کے ساتھ منسلک پایا گیا ،جس سے سب پر یہ راز فاش ہوگیا کہ رمیش اور سجاتا نہ صرف یہ کہ ایچ آئی وی Positive ہیں بلکہ مرض ایڈس سے متاثر ہیں جبکہ بچی صحتمند ہے ۔ اس لئے سجاتا جو شوہر کی ہماچل پردیش سے لائی ہوئی بیماری کا خود بھی شکار ہوگئی تھی نہ ماہانہ ہزاروں روپیوں کی دواؤں کا خرچ برداشت کرسکتی تھی نہ خاندان والوں کے طعنے سن سکتی تھی اور نہ ہی پاس پڑوس و سماج کی حقارت بھری نظروں کی تاب لاسکتی تھی ۔ شاید اس لئے دونوں نے خودکشی کرلینے پر ایک دوسرے کو راضی کرلیا ۔ اپنی بیٹی کو عتاب سے بچانے کیلئے دادا دادی کے حوالے کرکے نجات کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا ۔

ساگر جیسے جھوٹے سے مقام پر اتنی بڑی بات کا بوجھ اٹھاکر جینا ہر دو کے ماں باپ کیلئے بیحد تکلیف دہ اور مشکل تھا کہ سماج چین و سکون چھین لینے کے درپے ہوجاتا ہے ان دونوں کے سبھی افراد خاندان نے اس مقام سے ہجرت کی اب ایک ساتھ تین گھروں پر تالا دیکھ کر رمیش و سجاتا کی لٹکتی لاشیں نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہیں ۔ رمیش کوئی آوارہ ، بدمعاش ، شرابی ، جواری نوجوان نہیں تھا لیکن جانے کونسے کمزور لمحے نے ترغیب گناہ دی تھی ۔ دوستوں کی غلط صحبت و بڑھاوے نے شاید انکا راور مدافعت کی قوت و کاوشوں کو مغلوب کردیا تھا ۔ وہ شاید بھول گیا تھا کہ زندگی اور وہ بھی صحت مند جسم کے ساتھ ایک نعمت ہے ۔ اس کی حفاظت اس لئے ضروری ہے کہ ایک گھر ایک خاندان ہی نہیں بلکہ قوم ملک و سماج کو بہبود کیلئے بھی اہمیت رکھتی ہے نوجوانوں کی زندگی ان کی بقاء ان کی تندرستی خود ان کے ہاتھ میں ہے ۔اس لئے طبقی معاشی جذباتی اور اخلاقی غرض ہر شعبہ زندگی میں نوجوانوں کی رہنمائی ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ معاشرہ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ نفس پر قابو رکھنے کے جذبات پر غالب آنے کیلئے دماغ کو تخلیقی ، تفریحی ، بہترین کاموں میں مصروف رکھ کر ان خیالات سے دور کرنے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔ سب بلوغت کو پہونچنے والے بچوں کی صحیح رہنمائی ماں باپ اور استادوں کا فرض ہے ورنہ ان کا مذہب و سماج کے اصولوں کے مغائر کام کرنا خاندانی عزت وقار و ناموس کو سرِبازار نیلام کردیتا ہے نوجوانوں کو مضبوط ارادوں کے ساتھ جینا ہوگا۔ ایسا نہیں کہ کسی نے پلائی پی لی، کسی نے عیاشی کی طرف راغب کیا اور اس راہ پر چل پڑے۔ ہم انسان ہیں کچھ جسمانی ضروریات و خواہشات ہیں، لیکن اس کے ساتھ نفسیاتی تحفظ ،خود اعتمادی ہوتو معاشرہ میں عزت و رتبہ قائم رہ سکتا ہے ۔ ضروریات ،خواہشات و تعیشات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ مذہبی و سماجی اصولوں کی حد بندیوں پر عمل کرنے والا احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سرخرو ہوتا ہے جبکہ اس کے خلاف جانے میں نہ صرف موت بلکہ بدنامی، رسوائی اور ذلت کی موت ملتی ہے ۔

ایڈس دوسری بیماریوں کی طرح جانوروں، مکھی، مچھروں جیسے حشرات الارض سے نہیں پھیلتی کہ آپ سارا الزام ان کیڑے مکوڑوں کے سر ڈال دیں ۔ حضرت انسان ہی انسان کو متاثر کرتے ہیں ہوا پانی غذا سے بھی یہ جراثیم نہیں پھیلتے بلکہ متاثرہ انسان کے خون و رطوبت میں ان کی پروش ہوتی ہے اور اسی سے پھیلتے بھی ہیں اور انسانی جسم سے باہر نکل کر نہ پنپ سکتے ہیں نہ زندہ رہ سکتے ہیں ۔ عموماً بدکاری اس بیماری کی اصل وجہ ہوتی ہے ۔ اس لئے بجائے ہمدردی کے لوگ اس سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں اور نفرت انگیز نظروں سے دیکھتے بھی ہیں، جبکہ کبھی دواخانوں میں انجکشنوں کی سوئیوں سے خون کی تبدیلی کے دوران کوئی فرد اس سے متاثر بھی ہوجاتا ہے اور ڈاکٹروں و نرسوں کی لاپروائی کا خمیازہ معصوم لوگوں ک بھگتنا پڑتا ہے ۔ اس لئے حفظان صحت کے اصولوں میں تدارک بھی ایک اہم نکتہ ہے، کیونکہ خون کے خلیوں کے ذریعہ اپنی بقا قائم رکھنے والا یہ مرض کتنا موذی ہے ۔ اس کا علم چودہ پندرہ سال کی عمر ہی سے ہونا ضروری ہے ۔ اس لئے بیداری مہم چلانا اہم فریضہ ہے کیونکہ AEP یعنی Adolescence Eductation Programme بیحد اہمیت کا حامل ہے ۔

نویں دسویں کے طلباء و طالبات کو Learn to respect your body کا درس دیا جانا چاہئے اپنے سن بلوغت کی جذباتی و جسمانی تبدیلیاں و تغیرات سے بچے تنہائی پسند ہوجاتے ہیں ۔ اپنیں درپیش مسائل سے آگہی ضروری ہے ۔ RTK یعنی Right to Know یہ ان کا حق ہے ۔وہ کئی مسائل تجربات و مشاہدوں سے گذرتے ہیں۔ اس لئے موجودہ ماحول میں ان کی صحیح رہنمائی وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔ انہیں ایسی جگہ ایسے لوگ ملیں جہاں وہ بے جھجک اپنے خدشات دور کرسکیں ۔ بحث مباحثہ ہو انہیں تشفی بخش جواب ملے۔
چند سال پہلے اسکولوں میں نویں اور دسویں جماعت کے لڑکے لڑکیوں کیلئے جنسی تعلیم کا پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس کی بے انتہائی مخالفت کے بعد اسے ختم کردیا گیا ۔ اس تعلیمی پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے کئی دنوں تک مرد و خواتین اساتذہ کو باضابطہ ٹریننگ دی گئی تھی ۔ ہر دو صنف کیلئے علحدہ کلاسیس ہوا کرتی تھیں ۔ اسی مناسبت سے لڑکے لڑکیوں کے لئے بھی علحدہ جماعتوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔ پھر دوسرے دیہاتوں و منڈلوں کے اساتذہ کو ایک دوسرے کے اسکولوں میں بھیجا جاتا تھا ۔ کیونکہ کئی برس اسی اسکول میں پڑھنے سے بچے معلومات حاصل کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں اور خائف بھی رہتے ہیں۔ شروع شروع میں یہی سمجھتے رہے کہ اتنی معصوم صورت والے کم سن چودہ پندرہ سال کے غریب لڑکے لڑکیاں جو اطراف کے تانڈوں ، قصبوں اور دیہاتوں سے آکر سرکاری ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کیلئے ابھی سے یہ جنسی تعلیم کا پروگرام رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔ ہمارے وقت اور گورنمنٹ کے پیسے کی بربادی ہے ۔ کلاس شروع ہونے سے پہلے ٹیچرس کی میٹنگ رکھی جاتی تھی اور ہم میں سے بہت سوں کا خیال تھا کہ ایسی باتیں بچوں کے علم و فہم سے باہر ہیں ،لیکن کلاسیس کے آغاز پر معلوم ہوا کہ بچوں کا تجسس اور معلومات ہمارے فہم و گماں اور خدشات سے بہت آگے انہیں لے جاچکے ہیں ۔ اس وقت تو ہم بیحد حیران بلکہ پریشان بھی ہوئے ۔ٹریننگ کے مطابق کلاسیس کے اختتام پر ایک ڈبہ میز پر لاکر رکھ دیا جاتا تھا اور ہر لڑکے اور لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ وہ ایک کاغذ پر اپنا نام اور کلاس لکھے بناء وہ سوالات لکھ دیں جن کے جوابات انہیں اس کلاس میں نہیں مل سکے یا وہ پوری کلاس کے سامنے پوچھتے ہوئے شرماتے یا جھجھکتے رہے ۔ ان جٹھیوں کو ڈبے میں ڈال دینے کی ہدایت کی جاتی تھی پھر پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جاتا تھا ۔ اس درمیان میں ٹیچرس ہر سوال کو پڑھ کر ان کے جواب دینے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرلیا کرتے تھے اور خاص طور پر اس بات کی طمانیت حاصل کی گئی تھی کہ تشریح ڈھکے چھپے الفاظ میں ہو ،غلط یا عامیانہ الفاظ اور جملوں کا استعمال نہ ہو ۔ جب جٹھیاں کھولی گئیں تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ ایسے ایسے سوالات ان میں درج تھے کہ درمیانی عمر کے نہ صرف خواتین ٹیچرس بلکہ مرد اساتذہ کے بھی پسینے چھوٹ گئے ۔

اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل کی نسل کی بے راہ روی صرف ٹی وی ، انٹرنیٹ اور شہری زندگی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ موجودہ معاشرہ کی بے شرمی اور غلط طریقوں سے معلومات حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ ظاہر ہوتی ہے جس میں صحت کے نقصانات کا ذکر کم اور لطف و انبساط کے جذبات و احساسات کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ اس میں کسی مخصوص مذہب طبقے یا امیر غریب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا مذہب کی انتہاء پسندی اب شیطانیت اور عفریت کا روپ لے کر نفرت کی آگ چار سو پھیلا رہی ہے ۔ تعمیری کام نہ کے برابر ہے ۔ اس لئے آپ اور ہمارا ورثہ سب جل کر بھسم ہو رہے ہیں ۔ سرسبز و شاداب صحت مند معاشرہ بنانے کیلئے ماحول کو سازگار بنانے میں برائیوں کو مٹانے کیلئے اپنے لب و لہجے میں مٹھاس اور دینی فکر و نظر میں ہم کو وسعت پیدا کرنی ہوگی ۔ تنگ نظری سے قطع نظر و سیع النظری سے موجودہ حالات کا جائزہ لینا ہوگا ہر ایک چیلنج کو قبول کرنا ہوگا جو وقت کی پکار ہے لڑکیاں عصمت ریزی کا شکار ہو رہی ہیں تو معصوم لڑکے غیر فطری عمل سے ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں ۔یہ سب کچھ آپ کے ہمارے اطراف ہو رہا ہے۔ محلوں، اسکولوں کالجوں، ہاسٹلوں میں ہو رہا ہے اور ہم ان باتوں پر لعنت بھیج کر چشم پوشی اختیار کرلیتے ہیں ۔یہ ایک سماجی ناسور ہے اور عمل جراحی سے اس ناسور کے رستے زخموں کا علاج کرنا ہوگا ۔ انہیں مندمل کرنا ہوگا ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان حالات میں مرد اپنی غلطیوں سے خائف ہوکر خون کا معائنہ کرواکر تشفی حاصل کر لینا چاہتے ہیں اور رپورٹ میں لفظ Negative دیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ مہینوں بعد بھی ایسی ہی رپورٹ آتی رہتی ہے جبکہ وہ HIV سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں ، کیونکہ زندگی کا ابتدائی دور شروع کا دور Window Period ہوتا ہے اور بیویاں بیچاری اس بات سے قطعی لاعلم رہتی ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق اب ہر سال ایک لاکھ بچے HIV Positive لیکر پیدا ہوتے ہیں ان کا آخر کیا قصور ہے ۔ ہر ایک شخص کا فرض بنتا ہے کہ اپنے خیالات و جذبات کو صحیح راہ دے کر اپنی صحت و جسمانی نشوونماں کی حفاظت کریں ۔ شریک حیات سے وفاداری نبھائیں ۔ کیا بیوی کی ایسی کسی غلطی کو وہ معاف کرسکتے ہیں؟ ایڈس ایک منفرد شخص کی صحت و بیماری نہیں بلکہ معصوم و بے گناہ افراد خاندان کو بھی موت کے منہ میں ڈھکیلنے کی سمت پیش قدمی ہے ۔ ان دنوں بچے اسکول کالج یا پھر گھر آنے کے بعد بھی کھیل کود ، اسپورٹس ،تیراکی ،چہل قدمی جیسی کوئی ورزش کی طرف مائل نہیں ہوتے جس سے کہ تناؤ اور دباؤ سے نجات پاسکیں ۔ صنف مخالف سے لگاؤ اور کشش محسوس کرنا قدرتی بات ہے لیکن نفس کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے کیلئے دماغ کو تعمیری و تخلیقی کاموں میں مصروف رکھنا اور بہکتے خیالات کا لگام دینا بھی ضروری ہے ۔ A.P State aids control society foundation for a rural & social development کے مطابق آندھراپردیش ایڈس سے متاثرہ اسٹیٹس میں چھٹویں مقام پر ہے ۔ اس میں High Way Sex workers اور ٹرک ڈرائیور اس مرض کو پھیلانے کے زیادہ ذمہ دار ہیں جسم فروش عورتیں روزانہ اوسطاً تین تا چار افراد کو اس مرض سے متاثر کرتی ہیں ۔ یہ اتنی غریب ہوتی ہیں کہ دس روپئے سے پچاس روپئے ان کا دام ہوتا ہے ۔ کھمم اور گنٹور ہائی وے پر متاثرہ عورتوں کی بہتات ہے ۔ تلگو چیانل پر ان عورتوں کا انٹرویو دیکھ کر شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہوگی جو اشکبار نہ ہوئی ہو ۔ یہ عورتیں گویا کہہ رہی تھیں۔

دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل ہیں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ایڈس کی بیماری اکثر ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کو بھی متاثر کرتی ہے اور کچھ لوگ تو اندھے پن کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ہر وقت ہر بار جنسی بے راہ روی ہی اس بیماری کی وجہ نہیں ہوتی ۔مرض اور اس کی شدت و نقصان کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے غفلت کا شکار ہونے والوں میں دیہاتی غریب غرباء ، ان پڑھ، جاہل لوگ زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ دیہاتوں میں دواخانوں کی ابتر حالت ہوتی ہے ۔ آر ایم پی ڈاکٹروں کی بہتات ہے ایک ہی سوئی کئی مریضوں کو انجکشن لگانے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ کچے گھروں کی ناٹوں سے بوتلوں کو باندھ کر ہر مرض کیلئے گلوکوز چڑھایا جاتا ہے ۔ اس طرح معصوم لوگ بھی اس مہلک مرض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایسے میں ایک باشعور شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی معلومات سے اس کا تدارک کریں ۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ ہوگا۔ پچھلے دنوں ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے کہ آج کل کے ماحول میں پنپنے والے جرم، زنا کاری ، عصمت ریزی بدکاری کی وجہ صحیح عمر میں لڑکے لڑکیوں کی شادی نہ کرنا ہے۔ سن بلوعت کو پہونچتے ہی اپنے بچوں کی شادی کردیجئے یہ نہ سوچئپے کہ لڑکے کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی ہے ۔ اس کی معقول تنخواہ نہیں ہے ۔ شادی کیلئے لڑکوں کا برسر روزگار ہونا ضروری نہیں ہے ۔ رزق دینے والا اللہ ہے ۔ بے شک اللہ کا وعدہ ہے کہ تم محنت کرو میں اس کا صلہ دینے والا ہوں لیکن اخبار کی اطلاعیں بتاتی ہیں کہ ایک چودہ سال کا لڑکا اور بارہ سال کی لڑکی ایک بچی کے ماں باپ بن گئے ہیں ۔ اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا یہ عمر سن بلوغت کے دائرے میں آتی ہے ۔کیا اس عمر میں آپ اور ہم اپنے بچوں کی شادی کرنے تیار ہیں ؟ کیا قبل از وقت شادی ہی اس بے راہ روی کا واحد حل ہے آخر ہم کب تک چشم پوشی کرتے رہیں گے ؟؟؟۔