تہران، 19 مئی (سیاست ڈاٹ کام) مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یہود مخالفت کے بارے میں ایک عالمی تنظیم کے حالیہ جائزے سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ یہود مخالفت میں ایرانی سب سے پیچھے ہیں۔ اس نتیجے کو عام تصور کے برخلاف اور حیران کن تصور کیا جا رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ کے مطابق اینٹی ڈیفیمیشن لیگ (اے ڈی ایل) ہتک مخالف لیگ کے اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ صرف 56 فیصد ایرانی یہودیوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں جبکہ ترکی میں اس رائے کا تناسب 69 فیصد اور فلسطینی علاقوں میں 93 فیصد ہے۔ سرکاری طور پر قدامت پسند ایران خود کو یہودی مخالف قرار دینے کی بجائے اسرائیل مخالف کہتا ہے۔ اگرچہ ایران کے بیشتر ادارے جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھیوں کے ماتحت ہیں یہودی مخالف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے روایت پسند ادارے مرگِ انبوہ یا ہولوکوسٹ کو گھٹا کر ہی پیش کرتے ہیں، دنیا کو درپیش بیشتر مسائل کا ذمے دار ’با اثر‘ یہودیوں کو قرار دیتے ہیں اور ان کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو یہود مخالفت پر مبنی ہوتی ہے۔ ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی کے پیشرو محمد احمدی نژاد مرگ انبوہ کو اسرائیل کے خلاف سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ وہ اسرائیل کو ایران کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اسرائیل ایران کو عالمی ہمدردیاں بٹورنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ ایرانی نوجوان جو ایرانی سخت گیروں کے حامی نہیں ہیں گزشتہ سال اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے اس تبصرے کا مذاق اڑانے میں پیچھے نہیں رہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایرانیوں کو جینس پہننے یا مغربی موسیقی سننے کی اجازت نہیں۔ ایرانی نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر جینس میں اپنی تصویریں لگائیں اور نتن یاہو کے بارے میں کہا کہ وہ ایسے معاملے پر بھی تبصرے کرتے ہیں جس کے بارے میں انھیں بہ خوبی معلوم بھی نہیں ہے۔