یہاں پر نفرتوں نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں

موہن بھاگوت …2 ماں کی نئی منطق
اتراکھنڈ میں بی جے پی کو دھکا …پارلیمنٹ ہنگاموں کی نذر

رشیدالدین
مثل مشہور ہے کہ خالی برتن زیادہ آواز کرتا ہے۔ کچھ یہی حال آر ایس ایس اور اس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ہے جو وقت بے وقت کچھ نہ کچھ تنازعہ پیدا کرتے ہیں۔ عوام پر ان کے متنازعہ بیانات کا کوئی اثر ہو نہ ہو لیکن نفرت پیدا کرنے کی مہم کو بھاگوت نے جاری رکھا ہے۔ شہرت حاصل کرنے کیلئے اشتعال انگیز بیانات سنگھ پریوار کی عادت بن چکی ہے۔ موہن بھاگوت نے مدھیہ پردیش کے اجین میں منعقدہ تین روزہ وچار مہا کمبھ کے پہلے دن بھارت ماتا کے متنازعہ نعرہ پر چل رہی سیاست میں تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے ہر شخص کی دو ماں ہیں۔ ایک وہ جس نے جنم دیا اور دوسری بھارت ماتا۔ موہن بھاگوت اگر اس جملہ کا اطلاق صرف آر ایس ایس اور بی جے پی تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھالیکن اس دائرہ میں ہر ہندوستانی کو شامل کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ بھاگوت اپنے سیوم سیوکوں کیلئے دو سے زائد ماؤں کا دعویٰ کرتے ، تب بھی کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ سماج کو بانٹنے کیلئے حسب ضرورت ماں بھی تبدیل کرلی جاتی ہے۔ موہن بھاگوت کیا گائے کو ماتا تصور نہیں کرتے ؟ پھر کس طرح انہوں نے اپنی ماں کو فراموش کردیا۔ اس کے علاوہ کئی دیویوں اور حتیٰ کہ دریائے گنگا کیلئے بھی ماں کا تصور ہے لیکن نفرت کو پھیلانے کے جنون میں موہن بھاگوت اپنی کئی دوسری ماؤں کو بھول گئے۔ موہن بھاگوت کا عقیدہ بھلے ہی کچھ ہو لیکن اسلام جو دین فطرت ہے ، اس میں صرف جنم دینے والی خاتون ماں ہوتی ہے اور یہ درجہ کوئی اور حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے بتایا گیا ہے۔ موہن بھاگوت دراصل اس بات پر پریشان ہیں کہ ملک بھر میں بی جے پی اور نریندر مودی حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی میں اضافہ ہورہا ہے ، کل تک سنگھ پریوار کے نظریات کی تائید کرنے والی شیوسینا بھی اختلاف کرنے لگی ہے۔ شیوسینا نے بھارت ماتا سے متعلق نعرے پر سنگھ پریوار کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صرف نعرے لگانے سے غریب کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ ایسے میں آر ایس ایس کا حال خالی برتن جیسا ہوچکا ہے لہذا اس کا زیادہ شور کرنا فطری ہے۔

حالیہ عرصہ میں متنازعہ نعرے کے مسئلہ پر بہت کچھ کھیل کھیلا گیا اور مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے گئے۔ موہن بھاگوت نے خود کہا تھا کہ کسی کو اس نعرہ کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا لیکن کمبھ میلہ میں پھر اس تنازعہ کو ہوا دینا کسی مقصد سے خالی نہیں۔ تین روزہ اس وچار مہا کمبھ میں ملک بھر سے سنگھ پریوار کے قائدین نے شرکت کی  اور اس کی آڑ میں ہندو راشٹر کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ دنوں گجرات میں آر ایس ایس پروگرام میں بھاگوت نے صاف کردیا تھا کہ سنگھ کا واحد ایجنڈہ ہندو راشٹر ہے جسے ہیڈگیو نے پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کو پیش کرنے والے اور تائید کرنے والے ہندو راشٹر کے خواب کے ساتھ دنیا سے چلے گئے۔ اسی طرح کئی موہن بھاگوت بھی مل کر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل نہیں کرسکتے۔ بھاگوت اور انکے سیوم سیوک دراصل دن میں خواب دیکھ رہے ہیں اور بقول کسی دانشور وہ احمقوں کی جنت میں ہیں۔ ہندوستان کے خمیر میں نہیں ہے کہ ملک مذہبی بنیادوں پر چلایا جائے۔ یہ کوئی آزادی کے بعد پیدا ہونے والا جذبہ اور دستور سازوں کی مہربانی نہیں بلکہ صدیوں سے چلی آرہی روایت ہے۔ عوام میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش اور فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کو بانٹنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے ملک پر ایک ہزار برس تک حکمرانی کی لیکن کسی گوشہ میں ایک بھی غیر مسلم پر جبر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلم حکمرانوں کی رواداری کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نریندر مودی حکومت میں وزارت فروغ انسانی وسائل نے وزارت فروغ ہندو راشٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ ملک میں ہندو راجاؤں اور مسلم بادشاہوں نے حکومت کی۔ ایک طرف راجپوت تو دوسری طرف مغل تھے۔ شیواجی نے اپنی حکمرانی سے شہرت حاصل کی تو دوسری طرف ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی نیند حرام کردی تھی۔ رواداری کا یہ عالم تھا کہ شیواجی کی فوج میں مسلمان اور ٹیپو سلطان کی فوج میں ہندو کمانڈرس شامل تھے۔ اس تاریخ کو مٹاکر دونوں بادشاہوں کو ان کے مذہب تک محدود کرنے کی سازش کی گئی۔ اب تو فرقہ پرست طاقتوں کو ٹیپو سلطان کی یاد منانے پر بھی اعتراض ہے۔ اگر ان کے مخالفین کم از کم ٹیپو سلطان کی مزار کی زیارت کرلیں تو یقیناً ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ انگریز جو اپنے بچوں کو ٹیپو سلطان کا نام لیکر سلاتے تھے ، آج جب ان کی مزار پر حاضر ہوتے ہیں تو ان پر ہیبت طاری رہتی ہے کہ کہیں شیر میسور انگریزوں کو دیکھ کر جاگ نہ جائیں۔ الغرض کسی بھی حکمراں نے ہندوستان کو مذہبی مملکت نہیں بنایا۔ انگریز جب عوام کو مذہب کے نام پر بانٹنے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے قیام پاکستان کی سازش رچی لیکن آج اس مملکت خداداد کا حال دنیا کے سامنے ہیں۔ اب جبکہ بی جے پی اور نریندر مودی کا گراف ملک بھر میں تیزی سے گر رہا ہے تو غبارہ میں دوبارہ ہوا بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والے ہر فرد کی دو ماں کے جواب میں جب کوئی یہ کہے کہ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں تو اس پر اعتراض کیوں ؟ آپ کا کوئی مذہبی عقیدہ ہو تو اسے اپنی حد تک رکھیں اور دوسروں پر مسلط نہ کریں۔ کثرت میں وحدت اور مذہبی رواداری کی خوبی صرف ہندوستان میں ملے گی۔ ملک کی چار ریاستوں کے نتائج سے نریندر مودی حکومت کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوجائے گا۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کی مہم کے باوجود کسی بھی ریاست میں بی جے پی کے بہتر مظاہرہ کی امید نہیں ہے۔ نریندر مودی کے وعدوں کی تکمیل میں ناکامی اور مسائل میں اضافہ سے ہندو ووٹ بھی بی جے پی سے دور ہونے لگا ہے۔ آر ایس ایس کسی طرح ہندو ووٹ بینک کو بچانے کی فکر میں ہے۔

ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والوں نے جموں و کشمیر میں پی ڈی پی سے اتحاد کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کا سودا کرلیا۔ خود کو حب الوطن اور دوسروںکو ملک دشمن قرار دینے والے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے قائدین نے ایسی جماعت سے اتحاد کو کیسے قبول کرلیا جو علحدگی پسند تنظیموں کی کھلے طور پر ہمدرد ہے۔ جموں و کشمیر میں ہندو راشٹر کا ایجنڈہ یاد نہیں آیا جہاں قومی پرچم کے ساتھ کشمیر کا پرچم بھی لہرایا جاتا ہے ۔ وہاں کی حکومت ملک کے دستور کے بجائے کشمیر کے دستور پر حلف لیتی ہے۔ وہاں اقتدار کیلئے اصولوں سے سودے بازی لیکن ملک کے باقی حصوں میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر شبہ۔ سنگھ پریوار کشمیر میں اپنی حب الوطنی کو ثابت کرے اور بعد میں دوسروں پر انگشت نمائی کرے۔ آر ایس ایس اور اس کی تنظیمیں دراصل مسلمانوں کی نفسیات پر حملہ کرتے ہوئے حوصلوں کو پست کرنا چاہتے ہیں۔ مہا کمبھ کے ذریعہ ہندوتوا ایجنڈہ کو ہوا دینے کی حکمت عملی تیار کی گئی ۔ نومبر سے رام مندر کی تعمیر کیلئے تحریک کے آغاز کی تجویز ہے تاکہ اس مسئلہ پر اترپردیش میں ہندو ووٹ متحد کئے جاسکیں، جہاں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہیں۔ اقتدار کی بھوک سیاسی قائدین سے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کو اچانک دلتوں کی یاد ستانے لگی۔ اترپردیش میں دلتوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے امیت شاہ نے کمبھ میں لگے سادھوؤں کے ساتھ ڈپکی لگائی۔ تحفظات کے مسئلہ پر موہن بھاگوت کے موقف سے دلت ناراض ہیں۔ اس سے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ وزیراعظم نریندر مودی ناراضگی کو دورکرنے میں جٹ گئے ہیں اور کمبھ میلہ میں ان کی شرکت اسی کا حصہ ہے۔ دلتوں  کے لئے بی جے پی کے پاس کتنا احترام ہے ، اس کا ثبوت سابق صدر بنگارو لکشمن ہیں، جنہیں رقم حاصل کرتے ہوئے اسٹنگ آپریشن میں پھنسا کر اس قدر ذہنی اذیت دی گئی کہ اس غم نے ان کی جان لے لی۔ بی جے پی کو ایک دلت صدر بھی برداشت نہیں ہوا لیکن آج دلتوں سے جھوٹی محبت کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ بی جے پی دلت دوست ہو تو امیت شاہ کی جگہ کسی دلت کو صدر بناکر دکھائے۔

قومی صدر توکجا حالیہ عرصہ میں اترپردیش بی جے پی صدر کا تقرر ہوا جو غیر دلت ہیں۔ بی جے پی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے اور مخالفین پر حملہ کیلئے نریندر مودی نے سبرامنیم سوامی کو راجیہ سبھا میں داخلہ دیا۔ پہلے ہی دن سے سبرامنیم سوامی نے ہیلی کاپٹر اسکام کے مسئلہ پر سونیا گاندھی اور ان کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا۔ بی جے پی اور وزیراعظم کے دل میں اس وقت لڈو پھوٹ رہے تھے جب سبرامنیم سوامی سونیا گاندھی کو نشانہ بنارہے تھے لیکن توقع کے عین مطابق سبرامنیم سوامی نے اپنا حقیقی رنگ دکھانا شروع کردیا ہے ۔  سبرامنیم سوامی عدم استحکام کی طاقت ہے اور انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں محسنوں کے ساتھ محسن کشی کی۔ وزیراعظم نریندر مودی شاید یہ سوچ کر انہیں راجیہ سبھا میں لے آئے کہ اپوزیشن پر حملہ کیلئے یہ اہم ہتھیار ہوگا لیکن راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی کے ایک ہفتہ بعد ہی سبرامنیم سوامی نے آر بی آئی گورنر کی برخواستگی کا مطالبہ کردیا۔ اس طرح حکومت کے لئے نئی مشکل کھڑی کردی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سبرامنیم سوامی کو وزیر فینانس بننے کی عین خواہش ہے اور اٹل بہاری واجپائی حکومت میں بھی انہوں نے اس عہدہ کے حصول کیلئے کافی کوشش کی۔ ناکامی کے بعد وہ نہ صرف واجپائی کے خلاف ہوگئے بلکہ انہوں نے کانگریس اور انا ڈی ایم کے کی دوستی کے ذریعہ واجپائی حکومت کو گرانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ حکومت نے ہیلی کاپٹر معاملہ میں کانگریس کو نشانہ بنایا لیکن اسی وقت اتراکھنڈ میں اسے زبردست جھٹکا لگا۔ عوامی منتخب حکومت کو زوال کا شکار کرنے کیلئے جو سازش کی گئی تھی، اسے سپریم کورٹ نے ناکام کردیا اس طرح ہیلی کاپٹر اسکام کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا اور بی جے پی کو اتراکھنڈ معاملہ میں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ عدلیہ نے اپنی برتری کو ثابت کرتے ہوئے ہریش راوت حکومت کے ساتھ انصاف کیا اور یہ ثابت کردیا کہ ہندوستان میں عدلیہ ابھی آزاد ہے۔ پارلیمنٹ کا سیشن تنازعات کی نذر ہوگیا اور حکومت راجیہ سبھامیں جی ایس ٹی بل کی منظوری میں ناکام رہی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان عوامی مسائل سے زیادہ سیاسی مسائل پر حاوی رہے اور اس سیشن سے عوام کو کوئی راحت نہیں ملی۔ نفرت کے موجودہ ماحول پر منور رانا نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا  ؎
یہاں پر نفرتوں نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں
لُٹی عصمت بتا دے گی ڈوپٹہ بول سکتا ہے