پرافل بدوائی
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے سیتارام یچوری کا انتخاب کم از کم نوٹ کرنے کے قابل ہے کیونکہ دس لاکھ ارکان کے ساتھ سی پی آئی (ایم) دنیا کی دوسری سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی (چینی کمیونسٹ پارٹی کے بعد) ، صرف اس وجہ سے نہیں بلکہ ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے نوے طویل برسوں کی وجہ سے اپنی بحران زدہ پارٹی کا انحطاط یچوری کیسے روک سکیں گے ، اس میں نئی جان ڈال سکیں گے اور اس کو توانائی عطا کرسکیں گے اس کا ہندوستان میں کمیونسٹوں کے مستقبل پر گہرا اثر مرتب ہوگا جب ملک کی جمہوریت کی صحت سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں ۔ 62 سالہ یچوری ایک برجستہ طنز و مزاح کے قائد ہیں ۔ ذہین رکن پارلیمنٹ ہیں ، وہ کثیر لسانی روابطہ کار ہیں ۔ پورے سیاسی طیف میں انہیں قبول کیا جاتا ہے اور ان کے وسیع روابط ہیں ۔ انھیں پرکاش کرب کا فطری جانشین سمجھا جارہا ہے ، جن کی بحیثیت جنرل سکریٹری سی پی آئی (ایم) تین میعادیں مکمل ہوچکی ہیں ۔ یہ اعظم ترین تعداد ہے جو دستور میں ترمیم کے ذریعہ مقرر کی گئی ہے (سوائے ہنگامی حالات کے) ۔ اس کے باوجود یچوری کو نسبتاً غیر معروف 77 سالہ رامچندرن پلے سے اعصابی جنگ کرنی پڑی جنھیں اکثریت کی تائید حاصل تھی ۔ بے شک پولیٹ بیورو میں یہ اکثریت بہت کم تھی جس کا سہرا پرکاش کرت اور خاص طور پر اس کے حال ہی میں طویل مدت سے خدمت کرنے کے بعد سبکدوش ہونے والے ریاستی سکریٹری پینارائی وجین کے سر ہے ۔
یچوری کو مغربی بنگال اور تریپورہ کی شاخوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ انھوں نے نئی مرکزی کمیٹی میں جو جنرل سکریٹری کا انتخاب کرتی ہے ، خفیہ رائے دہی کی دھمکی دے کر کامیابی حاصل کی ۔ ان کے حریف رائے دہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ اس سے خود پارٹی کی کیرالا شاخ کے منقسم ہونے کا انکشاف ہوجاتا ۔ علاوہ ازیں اس کے اور مغربی بنگال کے درمیان اختلافات بھی ظاہر ہوجاتے۔ وجین کو اس کی وجہ سے بڑی پریشانی تھی ۔ یچوری کو مغربی بنگال اور تریپورہ کی شاخوں کی بھرپور تائید حاصل تھی ۔ آخرکار یچوری کو متفقہ طور پر منتخب کرلیا گیا ۔ لیکن اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پارٹی میں داخلی اختلافات ہیں اور اس کی قیادت خود کو متحد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار ظاہر کرنے کے لئے بے چین ہے ۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کمیونسٹوں کے پاس بیشتر ہندوستانی سیاسی پارٹیوں سے کہیں زیادہ جمہوری تنظیمی نظام موجود ہیں ۔
یچوری نے ایک ایسے وقت سی پی آئی (ایم) کی ذمہ داری سنبھالی ہے جبکہ لوک سبھا میں سی پی آئی (ایم) کی نشستیں (صرف 9) پست ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں ۔ پارٹی 1964 ء میں تشکیل پائی تھی ۔ اس وقت سے اب تک اسکی اتنی کم نشستیں کبھی نہیں تھیں ۔ مغربی بنگال میں اسے شرمناک شکست ہوئی اور 2011ء میں یہ کیرالا میں اقتدار سے محروم ہوگئی ۔ یہ اب صرف ننھی منی ریاست تریپورہ میں برسراقتدار ہے ۔ 2004ء میں سی پی آئی ایم کے ارکان اسمبلی 13 ریاستی اسمبلیوں میں موجود تھے ۔ آج پارٹی کی نمائندگی صرف 8 ریاستی اسمبلیوں میں ہے ۔ ان میں سے 4 ریاستوں میں تو اس کی صرف ایک ایک نشست ہے ۔
سی پی آئی (ایم) کی رپورٹ کے مسودے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پارٹی پیشرفت سے قاصر ہے ۔ اس کے سیاسی اثر و رسوخ میں توسیع نہیں ہورہی ہے ۔ اس کی تنظیمی طاقت میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔ یہ عوام میںاپنا مقام بنانے سے قاصر ہے ۔ خاص طور پر بنیادی طبقات میں ۔ یہ صرف مختصر تعداد میں ارکان رکھتی ہے ۔ اس نے وسیع تر طبقات تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کافی کوشش نہیں کی ۔ مغربی بنگال میں 2011ء سے تقریباً 40 ہزار ارکان سی پی آئی (ایم) سے ترک تعلق کرچکے ہیں ۔ پارٹی رکنیت فرسودہ ہورہی ہے ۔ اسکا نصف حصہ 32 تا 50 سال عمر کے زمرہ کا ہے ۔ صرف 20 فیصد ارکان 31 سال سے کم عمر کے ہیں ۔ 27 فیصد 50 سے 70 سال عمر کے زمرے میں ہیں ۔
سی پی آئی (ایم) کے مسائل اس کثیر رخی بحران کا حصہ ہیں جو بائیں بازو پر مسلط ہے ، بحیثیت مجموعی نظریاتی ، حکمت عملی ، پروگرام کے اعتبار سے اور تنظیمی اعتبار سے ۔ بائیں بازؤ کو ان سب کی اچھی طرح یکسوئی کرنا چاہئے اور خود احتسابی جذبہ کے ساتھ کرنی چاہئے اگر وہ اپنا انحطاط روکنا چاہتی ہے اپنے آپ میں نئی جان ڈالنا چاہتی ہے اور ایک ایسی طاقت بننا چاہتی ہے جو صاف ستھری، اصولی سیاست کی علامت ہے تو غریبوں اور محروم افراد پر توجہ مرکوز کرتی ہے ۔ یہ افراد ہندوستان کی آبادی کی اکثریت ہیں لیکن ان کے مفادات کی اصل دھارے کی سیاسی پارٹیاں بہت کم نمائندگی ہیں ۔ ہندوستان کو جمہوریت کی ایک ایسی طاقت کی شدید ضرورت ہے جو معاشی مساوات ، توسیع شدہ شہری اور سیاسی حقوق اور سماجی یکجہتی بلالحاظ ذات پات ، صنف اور نسلی تقسیم کی علمبردار ہو ۔ صرف ایسا ایجنڈہ ہی ایک عصری ، تکثیری ،باشعور ، سوشلسٹ نظام قائم کرسکتا ہے جو ماحولیاتی اعتبار سے مستحکم ہو اور تمام افراد کے لئے انسانی وقار کے ساتھ زندگی یقینی بناسکے ۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسا نہیں کرسکتا ۔
طویل عرصے سے بایاں بازو ایسی باشعور بصیرت اور تصور رکھتا ہے ۔ اس اعتبار سے یہ دیگر پارٹیوں سے آگے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی قابل ، باصلاحیت ، ذہین اور مخلص ذی علم حضرات ، تخلیقی صلاحیت رکھنے والے فنکار ، ادیب ، فلم اور تھیٹر کے افراد اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بایاں بازو کئی بحرانوں جن میں سے بعض کی جڑیں خود اس کی اپنی غلطیوں میں پیوست تھیں ، کے بعد دوبارہ ابھرا ہے ۔ ’’ہندوستان چھوڑدو‘‘ تحریک کی مخالفت ، آزادی کو ’’جعلی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت اور 1948 سے 1950ء تک مسلح جد و جہد ایسی ہی غلطیاں تھیں ۔ یہ منفرد کشش حال ہی میں مدھم پڑچکی ہے ۔ بایاں بازو خاص طور پر سی پی آئی (ایم) کو داخلی طور پر بہت کچھ کرنا ہے ۔اسے دریافت کرنا چاہئے کہ اس کی بنیادی حکمت عملی یعنی بایاں بازؤ اور جمہوری محاذ کے نظریہ کے سلسلہ میں اس سے کیا غلطی ہوئی ؟ کیا جن پروگراموں کی یہ علمبردار تھی عوامی ضروریات کے مطابق اور کافی بنیادی تھے ؟ اچھا آغاز یہ دریافت کرنا ہوگا کہ 34 سال کے مسلسل اقتدار کے بعد ، جو بجائے خود ایک عالمی ریکارڈ ہے ، یہ اقتدار کیوں کھوبیٹھی؟ اسکا جواب ترنمول ’’دہشت‘‘ سچر کمیٹی رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کی تائید سے محرومی ، اور نہ سنگور ۔ نندی گرام میں یا حکمت عملی کی غلطیوں میں مضمر نہیں ہے ۔ بایاں محاذ مغربی بنگال اس لئے کھو بیٹھا کہ یہ کافی بنیاد پرست نہیں تھا اس کی اعتدال پسند اراضی اصلاحات کرایہ داروں اور حصہ داروں کے اندراج اور تحفظ کے بعد رک گئیں ۔اس نے انھیں ملکیت کے حقوق منتقل نہیں کئے ۔ اس نے دولت مند اور اوسط طبقہ کے کسانوں سے سمجھوتہ کرلیا اور بے زمین زرعی مزدوروں کو منظم کرنے سے قاصر رہی ۔ سی پی آئی (ایم) نے ٹریڈ یونینوں کو بنیاد پرستی سے آزاد کردیا اور اس کے اہم ترین مزدور طبقہ کے کارکن جاتے رہے ۔ اس نے پنچایت راج کی راہیں کھولیں لیکن اسے سرپرستی پر مبنی نظام بنادیا ۔ اس نے تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو سیاسی رنگ دے کر ان کی اہمیت کم کردی ۔ اس نے کولکتہ کے باہر ایک شہری ڈراؤنا خواب تخلیق کیا۔ راجرپاٹ جیسے نئے صنعتی علاقوں کے اطراف بھی ایسا ہی کیا یہ صنف اور ذات پات کے بارے میں بے حس تھا ۔ یہ اپنے مخالفین کے خلاف تشدد بھی استعمال کرتی تھی ۔اس نے اشرافیہ کی ترقی کے رویے اختیار کئے ۔ خوانچہ فروشوں کو بے سہارا کرکے شہروں کو خوبصورت بنایا ۔ 1990 کی دہائی میں اس نے بڑے کاروباریوں کو خوش کرکے اور کثیر قومی شکاری درندوں جیسے والمارٹ کو مدعو کرکے بہر قیمت صنعتیانے کی پالیسی اختیار کی ۔ اس نے سادہ لوحی سے یہ سمجھ لیا کہ اس سے ’’پیداواری طاقتوں‘‘ کو فروغ حاصل ہوگا ۔ اس نے زبردستی زمین حاصل کی جس سے کاشتکار گہرے درد و غم کا شکار ہوگئے ۔
سنگور اور نندی گرام کے واقعات وجوہات نہیں تھیں بلکہ گہری رسوائی کے اثرات و علامات تھے ۔ نوفراخدل نظام پر عمل آوری تھی ۔ جس کو پارٹی کی مرکزی قیادت اختیار کررہی تھی ۔ سی پی آئی (ایم) نے ایک طاقتور اونچی ذات کی بھدرالوک قیادت ذات پات ، صنف اور مسلم دشمن تعصب کے خلاف جد وجہد سے قاصر رہی ۔ یہ صرف دیکھ بھال کرنے والے تخیل سے محروم افراد کی پارٹی بن گئی ۔ اس نے اپنے چھوٹے شراکت داروں کے ساتھ غرور اور تکبر کا رویہ اختیار کیا ۔
کیرالا میں بائیں بازو کو پارٹیاں ہمیشہ زیادہ گہرے سکڑنے کے عمل کا غریبو ںکے درمیان شکار رہیں ۔ وجین کی قدامت پرستی اور سی پی آئی (ایم) میں گروپ بندی کی وجہ سے ان کے حامیوں کی تعداد انحطاط پذیر رہی لیکن پھر بھی اس کی تائید ٹھوس ہے ۔ انھوں نے بعض اختراعی پروگرام جیسے ’’عوام کا منصوبہ‘‘ شروع کئے جس کے تحت ریاستی بجٹ کا 40 فیصد بنیادی سطح کے افراد کی ترقی کے لئے مختص کیا گیا ۔ لیکن ان پروگراموں کا تسلسل برقرار نہیں رہا ۔ کیرالا میں بائیں بازو کو حال ہی میں دھکا لگا کیونکہ سی پی آئی (ایم) نے سیاسی حریف ٹی پی چندر شیکھرن کے قتل پر اکسایا ، سماجی اور صنفی مسائل کو نظر انداز کیا ۔ مغربی گھاٹ کے تحفظ کی بھرپور مخالفت کی اور ناجائز قبضے کرنے والوں کی تائید کی بایاں بازو کیرالا میں اب بھی واپس آسکتا ہے بشرطیکہ یہ اپنے بنیادی ایجنڈہ کے سلسلہ میں لوگوں کومتحرک کرے ۔ مغربی بنگال میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدھادیب بھٹاچارجی اور بمن بوس کی قیادت میں یہ صلاحیت ختم ہوچکی تھی ۔
ان تمام واقعات سے بائیں بازو کو یہ سبق ملتا ہے کہ اسے اپنی پیشرفت کی حکمت عملی کو حالات کے تقاضوں کے مطابق اور بہتر بنانا ہوگا ۔ قومی سطح پر اس نے سرمایہ دارانہ نظام یا بورژوائی جمہوریت کا بھرپور تجزیہ نہیں کیا ہے ۔ اس میں ’’ہندوستانی خصوصیات‘‘ ہونی چاہئیں ۔ اس نے سوشلزم کی سمت منتقلی کی حکمت عملی تیار نہیں کی اور نہ اس نے پارلیمانی اور عسکریت پسند غیر پارلیمانی سرگرمی کو تدبر کے ساتھ یکجا کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے تیسرے محاذ کے انداز کے اتحاد اپنے دیوالیہ پن کے باوجود جاری رکھے جس کا ثبوت 2009 میں مل چکا تھا ۔ 2004 میں لوک سبھا کی 61 نشستوں کے ساتھ بایاں بازؤ کو کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت میں زبردست اثر و رسوخ حاصل تھا ۔ یہ ایک بنیادی مشترکہ پروگرام بنا سکتا تھا اور یو پی اے کے ساتھ سخت سودے بازی کرسکتا تھا ، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ۔ اس نے یو پی اے کی تائید سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ یہ اقدام ایک تنگ نظر انا پر مبنی مسئلہ (امریکہ ۔ ہند نیوکلیئر معاہدہ) پر کیا گیا ۔ جس کا عوام پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا ۔ چنانچہ 2008ء میں اسے خط اعتماد حاصل نہ ہوسکا ۔
بائیں بازو کو سوویت یونین کے زوال کو یاد رکھنا چاہئے ۔ جس کی وجہ جمہوریت کا فقدان ، انتہاء درجہ کی دفتر شاہی ، اور ناقص معاشی منصوبہ بندی تھی ۔ اسے درست سبق سیکھنا چاہئے اور عیب دار سوویت و چینی نمونہ برائے سوشلزم سے ترک تعلق کرکے ایک نیا نمونہ تیار کرنا چاہئے جس کی بنیاد ، بنیاد پرست جمہوریت اور ایک انوکھی انقلابی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والے تعلقات پر ہو جو فطرت ، پیداوار اور صرف کے درمیان قائم ہوں ۔ بائیں بازو کو ذات پات ، صنف ، نسلی اورلسانی مسائل کے بارے میں مثبت کارروائی کرنا چاہئے اور شناختی سیاسی پر توجہ نہیں دینا چاہئے ۔ اسے خود کو مزدور طبقہ کی تحریک کا ’’فطری‘‘ رہنما تصور نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ایک متوازن رشتہ استوار کرنا چاہئے جو باہمی تفہیم پر مبنی ہو ۔ سی پی آئی (ایم) کو دوسری بائیں بازؤ کی پارٹیوں کا بڑا بھائی بننا ترک کردینا چاہئے ۔ بائیں بازؤ کو چاہئے کہ جمہوری مرکزیت کا احترام کرے ۔ تنظیمی نظریہ جس کے بموجب ارکان پارٹی کو کانگریسیوں میں مباحث کرنے کے لئے آزاد ہیں لیکن انھیں اجتماعی فیصلوں کا پابند رہنا چاہئے ۔ برسرعام اختلافات کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ۔ بائیں بازو کو چاہئے کہ پارٹی کے داخلی رجحانات کی تشکیل کی اجازت دیں ۔ حکمت عملی اور اس پر عمل آوری کے بارے میں آزادانہ بحث کی اجازت دیں ۔ اتحاد کے نام غلطیوں کی پردہ پوشی اور ان کا تسلسل نامناسب ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ بائیں بازؤ کو اپنی بنیادوں پر واپس جانا چاہئے ۔ عوام کی فلاح و بہبود کے پروگرام پر عمل کرنا چاہئے۔ حفظان صحت ، غذا اور پانی کا تحفظ ، روزگار اچھی اجرتیں ، مشترکہ اسکول جو تعلیم کی بنیاد پر ہوں ، غریب دوست مکانوں کی تعمیر ، شہری ٹرانسپورٹ عوام کے سامنے جوابدہی وغیرہ اس میں شامل ہیں ۔ اسے اراضی ، جنگلات اور پانی کے مسائل پر خود اختیار عوامی تحریکوں سے مساوات کی بنیاد پر تعاون سیکھنا چاہئے ۔ ہندوستان کی غیر روایتی سیاست میں عام آدمی پارٹی اپنا ایک مقام بناسکتی ہے ۔ چنانچہ بایاں بازؤ بھی بناسکتا ہے بلکہ زیادہ بنیادی طور پر بناسکتا ہے ۔ سی پی آئی (ایم) سیتارام یچوری کی قیادت میں ابھرنے کی ایسی امید رکھی جاسکتی ہے اس کے باوجود کہ وہ مغربی بنگال سی پی آئی (ایم) سے قربت اور پارلیمانی کام سے تعصب رکھتے ہیں ۔ امید ہے کہ اس چیلنج کا سامنا کریں گے اور اس سے نمٹیں گے ۔