یو پی کی سیاست ‘ امر سنگھ کی واپسی

ملک کی حساس ترین ریاست اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی نے آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے اپنے طور پر تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ اس ریاست کے اسمبلی انتخابات تقریبا سبھی جماعتوں کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے بی جے پی کو انتخابی میدان میں ملے جلے نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ پہلے دہلی میں بدترین شکست ہوئی تھی اور پھر بہار میں بھی نتیش کمار نے بی جے پی کو ہزیمت سے دوچار کردیا تھا ۔ تاہم گذشتہ دنوں آئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میںبی جے پی کو قدرے راحت صرف آسام سے نصیب ہوئی ہے ۔ بی جے پی نے کیرالا اور مغربی بنگال میں بھی اپنے سیاسی وجود کو منوانے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ یہاں بے شمار دولت خرچ کی گئی اور متنازعہ مسائل کو موضوع بناتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی ۔ آسام میں بھی بی جے پی کو کامیابی سے زیادہ کانگریس کی شکست نے اس کے حق میں کام کیا ہے ۔ یہاں ترون گوگوئی کی قیادت میں کانگریس حکومت نے تین معیادیں مکمل کرلی تھیں۔ ایسے میں بی جے پی کی کامیابی زیادہ موثر نہیں کہی جاسکتی ۔ تاہم اب بی جے پی نے اتر پردیش پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی ریاست میں اپنے اقتدار کو بچانے کی تگ و دو شروع کردی ہے ۔ اب تک سماجوادی پارٹی کی ریاستی حکومت کا جو ریکارڈ ہے وہ زیادہ کچھ متاثر کن نہیں کہا جاسکتا ۔ جس وقت ریاست میں اکھیلیش یادو نے نوجوان چیف منسٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی اس وقت ان سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوسکی ہیں اور عوام میں پارٹی کے تعلق سے اطمینان نہیں ہے ۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی اپنے طور پر حالات کو زیادہ بگڑنے سے بچانے کی فکر میں جٹ گئی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پارٹی سے خارج کردہ لیڈرامر سنگھ کو ایک بار پھر پارٹی کی صفوں میں شامل کرلیا گیا ہے اور انہیں راجیہ سبھا کیلئے بھی نامزد کردیا گیا ہے ۔امر سنگھ اتر پردیش کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ فی الحال ان کا کرشماتی اثر شائد باقی نہ رہا ہو لیکن سماجوادی پارٹی ضرور ان سے توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے ۔
اتر پردیش میں امر سنگھ کو توڑ جوڑ کا ماہر کہا جاتا ہے اور وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں اختلافات پیدا کرنے یا موجودہ اختلافات کو ختم کروانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا انہیں اتر پردیش میں ماورائے قانون اتھاریٹی جیسا موقف حاصل تھا تاہم سماجودای پارٹی سے اختلافات نے ان کے اس اثر کو نسبتا کم کردیا ہے ۔ اب بھی سماجوادی پارٹی میں ان کی واپسی کا سبھی گوشوں کی جانب سے خیر مقدم نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کا مسلم چہرہ ریاستی وزیر اعظم خان اور امر سنگھ کے اختلافات بہت واضح ہیں ۔ اعظم خان اور امر سنگھ نے ایک دوسرے کے خلاف کھلے عام تبصرے بھی کئے تھے ۔ جب امر سنگھ کو پارٹی نے دوبارہ راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا تو اعظم خان اپنی ناراضگی کو چھپا نہیں سکے اور انہوں نے اسے افسوسناک قرار دیدیا تھا ۔ امر سنگھ فی الحال اس بحث میں الجھنے سے گریز کر رہے ہیں اور وہ اعظم خان کے تبصروں پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ امر سنگھ بتدریج اپنے اثر و رسوخ کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور فی الحال کسی تنازعہ میں الجھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ پارٹی کی قیادت کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور قیادت کو ان سے جو امیدیں ہیں وہ زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اتر پردیش کا جو سیاسی منظر نامہ ہے وہ بھی فی الحال امر سنگھ کیلئے سازگار نہیں کہا جاسکتا ۔ فی الحال یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پارٹی قیادت امر سنگھ اور اعظم خان کے مابین اختلافات کو کس حد تک ختم کروانے یا کم کروانے میں کامیاب ہوتی ہے کیونکہ پارٹی اقلیتوں کو بھی ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔
اتر پردیش میں جہاں بی جے پی کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے وہیں بہوجن سماج پارٹی بھی اقتدار پر واپسی کیلئے پر تول رہی ہے ایسے میں امر سنگھ اپنی پارٹی کیلئے کس حد تک کارگر ثابت ہوسکتے ہیں یہ ابھی سے کہنا مشکل ہی ہوگا ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امر سنگھ کبھی عوامی سطح کے سیاستدان نہیں رہے اور نہ وہ انتخابی سیاست کا حصہ رہے ہیں۔ وہ نامزد عہدوں پر برسر کار رہتے ہوئے سیاسی حلقوں میں اپنی جوڑ توڑ کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن اسمبلی انتخابات میں یہ مہارت زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی تاثر ہے کہ سماجوادی پارٹی نے امر سنگھ کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرتے ہوئے تنکے کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے اور یہ سہارا اسمبلی انتخابات میں اس کیلئے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا ۔