رام پنیانی
اسمبلی الیکشن 2017ء کے نتائج کئی گوشوں کیلئے جھٹکہ ثابت ہوئے اور فرقہ پرست قوتوں کیلئے زبردست جشن کا معاملہ ہے۔ اگرچہ بی جے پی کے ووٹنگ تناسب میں 2014ء کے عام انتخابات سے قدرے کمی ہوئی، لیکن جتنی نشستیں اس نے چھین لئے تعجب خیز بات ہے۔ اس نے تقریباً 39 فیصد ووٹوں کے ساتھ زائد از 80% اسمبلی سیٹیں جیتے ہیں۔ جو لہر 2014ء الیکشن میں مودی کے نام پر پیدا کی گئی تھی اس نے انھیں 31% ووٹ اور لگ بھگ 60% پارلیمانی نشستیں دلائے۔ تب ’اچھے دن‘ کا نعرہ دیا گیا اور گجرات طرز کی ترقی کی دہائی دی گئی۔ زبردست کامیابی کے دو مضبوط ستون رہے، ایک ٹھوس کارپوریٹ تائید و حمایت اور دوسرے آر ایس ایس ورکرز۔ اس مرتبہ بھی تائید و حمایت وہی برقرار رہی جبکہ پروپگنڈہ کے نعرہ نے بہ یک وقت کئی مختلف نشانوں کا احاطہ کرلیا۔
خوفناک نوٹ بندی کو فرقہ وارانہ رنگ کی نذر کیا گیا۔ اُس نوٹ بندی نے دہشت گردوں کو اپنے کرنسی نوٹوں کو تلف کرنے پر مجبور کیا، زیادہ تر مسلمان تو بینکوں میں رقم رکھتے ہی نہیں، اس لئے انھیں بھی اپنے کرنسی نوٹوں کو جلا دینا پڑا … اس طرح کا پروپگنڈہ چلایا گیا۔ شروع شروع تو نریندر مودی نے فرقہ پرستانہ زبان کے استعمال سے گریز کیا، لیکن جلد ہی انھوں نے بہت خوفناک انتشار والے جملے استعمال کئے جب وہ قبرستان۔ شمشان اور دیوالی اور عید پر برقی سربراہی کی بات کرنے لگے۔ مودی کی وسیع مہم جو مشینری نے شروع سے آخر تک فرقہ پرستانہ زبان قائم رکھی، اور لو جہاد کے اپنے پروپگنڈے کو آگے بڑھاتے رے، اور ہندو لڑکیوں کو مسلم نوجوانوں سے بچانے کیلئے اینٹی رومیو اسکواڈ تشکیل دینے کا وعدہ کیا۔ دیرینہ رام مندر مسئلہ بھی شروع تا آخر انتخابی مہم میں استعمال کیا گیا۔
آر ایس ایس ورکرز اور ہمنواؤں کی بڑی تعداد دیہاتوں میں پھیل گئی۔ اُن کا دعویٰ رہا کہ ایس پی موافق مسلم ہے اور مایاوتی بھی مسلمانوں کی خوشامد کررہی ہے۔ بی جے پی کو واحد پارٹی کے طور پر پیش کیا گیا جو ہندوؤں کو بچا سکتی ہے۔ اعلیٰ سطح پر تو ترقیاتی مسائل کی بات کی جاتی رہی، بنیادی سطحوں پر آر ایس ایس ورکرز کی بڑی تعداد کی مدد کے ساتھ گہری فرقہ پرستی کئی غیریادو او بی سی اور غیرجاتوو دلت بی جے پی کے حق میں جھکنے میں کلیدی عنصر رہی۔ بی جے پی الیکشن مشین نے سب کچھ لگ بھگ اچھی طرح موافق بنایا، جس میں بنیاد فرقہ پرستانہ تقسیم پر رکھی گئی ، جس کیلئے مظفرنگر کا پس منظر ، گھر واپسی اور گاؤ تحفظ کے معاملوں نے بڑی مدد کی۔ بوتھ سطح پر منصوبہ بندی سے لے کر محروم طبقہ کی حمایت جٹانے تک تمام پہلوؤں پر توجہ دی گئی۔ چھوٹی ذاتوں کے گروپ جیسے کورمی اور راجبھر کے ساتھ بی جے پی کے اتحادوں نے انتخابی تائید کے کھاتے میں خاصا اضافہ کیا۔ ’دینک جاگرن ‘ کی اپنے شعبہ اشتہارات کے تیار کردہ اگزٹ پول نتائج کی اشاعت کا بھی بی جے پی کی کامیابی میں نمایاں رول ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کا معاملہ ہے سب سے بڑی ناکامی علاقائی انتخابی طاقتوں میں اتحاد قائم نہ کرپانا رہی ہے۔ اگر ہم ریاست بہار سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسی طرح کی صورتحال میں لالو پرساد اور نتیش کمار یکجا ہوئے اور بی جے پی کی پیش قدمی روک دی، جو 2014کے عام انتخابات کے بعد عمومی رجحان سمجھی جارہی تھی۔ اس کے برعکس آسام کا معاملہ ہوا۔ کانگریس کوئی اتحاد نہ کرسکی، بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ آسام میں کانگریس کا ووٹنگ میں حصہ پہلے سے کہیں بڑھ کر رہا اور بی جے پی کا ووٹنگ تناسب پہلے سے کم ہوا لیکن قطعی نتائج کانگریس پر کاری ضرب ثابت ہوئے۔ کئی قائدین عین انتخابات کے موقع پر بی جے پی کی طرف جارہے ہیں اور اس سے بی جے پی کی چابکدستی کو بڑھاوا ملتا ہے۔
کئی عوامل کا بی جے پی نے اچھی طرح استعمال کرلیا، اور شکست کے منہ سے کامیابی چھین لی۔ سرجیکل اسٹرائک، اس کی سچائی چاہے کچھ ہو، اس کا بڑی فتح کے طور پر ڈھول پیٹا گیا اور یہ کہ پاکستان کو سبق سکھا دیا گیا ، نیز یہ کہ دہشت گردوں کی حرکتیں کم ہوگئیں، پروپگنڈہ کا حصہ رہا۔
یو پی میں ذات پات کے اعداد و شمار کی جگہ فرقہ وارانہ حساب نے لے لی ہے۔ یوں تو ذات پات کی مساواتیں اور مسائل برقرار ہیں، لیکن بی جے پی نے مذہب کا زیادہ بڑا خط فاصل کھینچ دیا ہے تاکہ ذات پات پر مبنی مفادات، امنگوں اور وفاداریوں کو پس پشت ڈالا جاسکے۔ غیربی جے پی پارٹیاں صحیح جذبہ کے ساتھ اتحاد کرنے میں بری طرح ناکام ہوئیں۔ یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی میں متعدد اختلافات ہیں کہ وہ یکجا نہیں ہوسکتے۔ بہار کا تجربہ دیکھنے کے بعد اور زیادہ خصوصیت سے 2014ء کے عام انتخابات میں اپنا حشر دیکھنے کے بعد یہ دونوں پارٹیوں کیلئے واحد متبادل اتحاد قائم کرنا تھا جسے دونوں نے کھو دیا۔
اس مرتبہ مسلم ایم ایل ایز کی تعداد گزشتہ اسمبلی میں 86 سے گھٹ کر محض 24 ہوچکی ہے۔ یہ استدلال کہ کئی مسلم خواتین نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ اس نے طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اٹھایا، کچھ عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ تین طلاق کا مسئلہ مسلم خواتین کیلئے کافی اہمیت کا معاملہ ہے، لیکن وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گی کیونکہ مظفرنگر تشدد اور دیگر پُرتشدد کارروائیاں جن میں مسلمانوں؍ مسلم خواتین کو بڑا شکار بنایا گیا، اُن کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ یہ ایک اور ’’بار بار دہرا کر یقین دلاؤ‘‘ والا معاملہ اور زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ بی جے پی نے اس مرتبہ کسی بھی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا۔ مسلمان کو ایک بھی سیٹ نہ دیتے ہوئے بی جے پی یہ جتانا چاہتی ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کے بغیر انتخابات جیت سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم ووٹوں کو تو تقسیم کردینا کافی ہوگا جیسا کہ یو پی میں ہوا۔ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان مسلمانوں میں گہری اُلجھن رہی، وہ فرقہ پرست قوتوں کی کامیابی میں جزوی حصہ ادا کرگئے اور اب نہایت افسردہ ہے۔ہندوؤں سے ناانصافی ہورہی ہے اور صرف بی جے پی اسے دور کرسکتی ہے، یہ بڑا پروپگنڈہ کامیابی سے چلایا گیا۔ نتیجتاً کٹر یادو ووٹ ایس پی کو ملے، جاتوو طبقہ نے بی ایس پی کی تائید کی اور دیگر ہندو ووٹوں کی اکثریت کو بی جے پی کی طرف کھینچ لیا گیا۔ یوں انتخابی میدان میں مسلم برادری کو حاشیہ پر کردینا پوری طرح اکمل معلوم ہوتا ہے۔
بی جے پی قائدین اپنے کالموں میں یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ یہ ترقیاتی ایجنڈہ، جن دھن یوجنا، اُجوالا یوجنا وغیرہ کی فتح ہے۔ سچائی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس بار مذہب کے خطوط پر تقسیم گہری ہوئی اور ترقی کا پروپگنڈہ بھی مساوی طور پر طاقتور رہا۔ یہ سماج کو فرقہ وارانہ رنگ میں ڈھالنے کی حد ہوگئی، جسے انتخابی میدان پر آزمایا گیا۔