راج دیپ سردیسائی
یہ پھر ایک بار اوپینین پولس کا سیزن آگیا ہے جس میں زور، زور سے اور پھولتی سانس کے ساتھ بولنے والے ٹی وی اینکرز اپنے حیران ناظرین کیلئے متعدد اعداد و شمار پیش کررہے ہوں گے اور یہ کام ایسے ٹھوس اعتماد کے ساتھ ہوگا جو بعض اوقات اوپینین پول پیش کرنے والے کئی اداروں کے داغ دار ٹریک ریکارڈ کو جھٹلاتا ہے۔ کم از کم 2019ء الیکشن کے زیادہ تر پیش قیاسیاں وسیع طور پر یکساں سمت میں نشاندہی کررہی ہیں جس میں اخذکردہ معلومات سے چھ نمایاں رجحانات اُبھر آرہے ہیں۔
پہلا، معلق پارلیمنٹ سب سے زیادہ ممکنہ فیصلہ ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا، بی جے پی ممکن نہیں کہ 2014ء کی اپنی غیرمعمولی 282 نشستوں کی اکثریت کا اعادہ کرنے کے کہیں قریب بھی آئے گی، لیکن ہنوز یہ معقول فرق کے ساتھ ہندوستان کی نمبر ایک پارٹی ہے۔ تیسرا، کانگریس نے گزشتہ سال کچھ قوت حاصل کی ہے لیکن یہ بہت حد تک حالیہ ٹسٹ سیریز میں آسٹریلیائی بیٹسمنوں کی کارکردگی کی مانند ہے، جو ہنوز سنچری کے نشانے کو عبور کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ چوتھا، بی جے پی اور کانگریس کے آپس میں لگ بھگ 300 نشستیں ہوں گی، جس میں بڑی گنجائش غیرکانگریس، غیربی جے پی پارٹیوں کیلئے کھلی ہوگی کہ مابعد چناؤ ترکیبوں میں کلیدی رول ادا کرسکیں۔ پانچواں، نریندر مودی اب بھی واضح طور پر ’نیتا‘ نمبر ون ہے، حالانکہ اُن کے اور راہول گاندھی کے درمیان فرق گھٹ رہا ہے کیونکہ مخالف حکمرانی عنصر کی وسعت بڑھتی جارہی ہے۔ چھٹا، 2019ء کا الیکشن بھلے ہی 543 نشستوں کیلئے لڑا جائے گا، لیکن اترپردیش (یو پی) کی 80 سیٹیں ایسی ہیں جو دہلی میں اقتدار کا در کھولنے کیلئے کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ اس لئے کہ یو پی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کی بظاہر بڑی ناکامی ہونے والی ہے: مختلف پولس کے مطابق وہ اوسطاً 40-50 نشستیں کھودے گی۔
نوتشکیل شدہ سماجوادی پارٹی (ایس پی)۔ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اتحاد سے بڑا فائدہ ہوگا۔ عملی طور پر جہاں ملک میں سب سے مقبول لیڈر کی حیثیت سے مودی کو ہوسکتا ہے کہ بدستور کچھ آسانی رہے گی، وہیں یو پی کے تناظر میں وسیع اتحاد کے خالص اعداد و شمار بی جے پی کیلئے پہاڑ جیسا چیلنج پیش کریں گے۔
پرینکا گاندھی وڈرا کا مشرقی یوپی کی انچارج کانگریس جنرل سکریٹری کی حیثیت سے داخلہ ہوا ہے۔ عملی سیاست میں اُن کی آمد کا پارٹی کے پُرجوش قائدین نے زبردست ہنگامہ کے ساتھ استقبال کیا ہے۔ نئے حوصلے کے ساتھ پُرجوش راہول گاندھی نے اس ماحول کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے مزید گرما دیا ہے کہ اُن کی بہن کا کلیدی انتخابی ریاست میں تقرر ثبوت ہے کہ کانگریس یہ الیکشن ’’پیش پیش رہتے ہوئے‘‘ لڑرہی ہے۔ یقینا، پرینکا گاندھی کے تقرر سے سیاسی پیام تو واضح ہے: کانگریس کا ماننا ہے کہ ڈسمبر کے اسمبلی انتخابات میں ’ہیٹ ٹرک‘ درج کرانے کے بعد وہ بڑے مقابلے میں واپس آچکی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ کوئی دو الیکشن یکساں نہیں ہوتے ہیں۔ اسمبلی چناؤ راست بی جے پی بمقابلہ کانگریس لڑائیوں کے طور پر اُن ہندی پٹی والی ریاستوں میں لڑے گئے جہاں طاقتور مخالف حکمرانی عنصر تھا اور کوئی ٹھوس تیسرا متبادل نہیں تھا۔
یو پی میں مایاوتی۔ اکھلیش یادو اتحاد کی صورت میں واضح اور مضبوط متبادل موجود ہے، جس کے پاس ذات پر مبنی اعداد ہیں اور تنظیمی قوت بھی کہ بی جے پی کی ہندوتوا تحریک کا مقابلہ کرسکیں۔ کانگریس کے پاس ان میں سے کچھ نہیں ہے۔ بلکہ پارٹی ووٹروں کی طرف سے جذباتی خیرسگالی پر انحصار کررہی ہے۔ بے شک، کرشماتی پرینکا گاندھی کو میڈیا کی توجہ حاصل ہوگی اور کانگریس ورکرز کا جوش و خروش بڑھے گا، لیکن کیا وہ ووٹوں کو بدل سکتی ہیں؟ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہیں تو کانگریس کس کے ووٹ حاصل کرنے جارہی ہے؟ 2014ء میں ’سی ایس ڈی ایس‘ کے مابعد چناؤ سروے میں ظاہر ہوا تھا کہ بی جے پی نے سارے یو پی میں اونچی ذات کے 72% ووٹ جیتے جبکہ ایس پی اور بی ایس پی کو ملا کر دیکھیں تو انھیں 75% حاصل ہوئے۔ مشرقی یو پی میں جہاں اونچی ذاتوں اور مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے، کانگریس (جس نے 2014ء میں وہاں بمشکل 6% ووٹ لئے) کے ووٹوں میں کچھ بھی اضافہ دیگر دونوں بڑے اتحادوں کو نقصان کی صورت میں ہوسکتا ہے، جو لازماً انتخابی مساوات کو نئی تحریک دے گا۔ اس سے اہم سوال پیدا ہوتا ہے: کیا 2019ء کا الیکشن اپوزیشن بالخصوص کانگریس کیلئے کانگریس کی طاقت بڑھانے سے متعلق ہے یا بی جے پی کی قوت گھٹانا ہے؟ زیادہ جارحانہ رُخ اختیار کرنے کی کوشش میں آیا کانگریس مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم کرتے ہوئے بی جے پی کی بالواسطہ آلہ کار بن جانے کا جوکھم مول لے رہی ہے؟
آسٹریلین کرکٹ ٹور سے دوبارہ مشابہت کا عنصر دیکھتے ہیں کہ چتیشور پجارا سب سے کامیاب ہندوستانی بیٹسمن رہے کیونکہ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ کس گیند کو کھیلیں اور کسے چھوڑ دیں۔ اترپردیش شاید ایسا باؤنسر ہے جسے کانگریس کو جھک کر چھوڑ دینے کی ضرورت ہے، نہ کہ مابعد چناؤ ممکنہ حلیفوں کے ساتھ مسابقت کی سعی کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کو جلد ہی بڑا فیصلہ کرنا ہوگا: آیا 2019ء کی لڑائی راہول گاندھی کو وزیراعظم بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہے یا ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ اتحاد قائم کرتے ہوئے نریندر مودی کو شکست دی جائے، چاہے اس میں وزارت عظمیٰ کے عزائم پر مفاہمت کیوں نہ کرنا پڑے؟ ایک اور اوپینین پول پر غور کیجئے: ’انڈیا ٹوڈے موڈ آف دی نیشن‘ پول کے مطابق یو پی میں ایس پی۔ بی ایس پی۔ کانگریس اتحاد ریاست میں بی جے پی کو محض پانچ نشستوں تک گھٹا سکتا ہے۔ عملاً، 2019ء اختصار میں کہیں تو مودی کے عوام سے تال میل بمقابلہ گٹ بندھن کے اعداد میں تبدیل ہورہا ہے۔ بہرحال سخت مقابلہ متوقع ہے!
اختتامی تبصرہ : میں ہمارے اوپینین پول پروگرام کے دوران ایک رفیق کار کی عمدہ یک سطری بات کو استعاراً یہاں پیش کررہا ہوں۔ یہ پوچھنے پر کہ پرینکا گاندھی کا داخلہ کیا اثر ڈالے گا، کہنہ مشق تجزیہ نگار نے معنی خیز ریمارک کیا، ’’یہ الگ بات ہے کہ آپ اپنی بہن کا تعاون حاصل کریں، لیکن راہول گاندھی کو واقعی ’بہن جی‘ (مایاوتی) کا ساتھ درکار ہے!‘‘
rajdeepsardesai52@gmail.com