ظفر آغا
مودی لہر ، مودی لہر ، مودی لہر ۔ ٹی وی پر جب یہ سنتے سنتے کان پک گئے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ چلیں خود دیکھیں کہ آخر مودی لہر کہاں ہے ۔ چنانچہ اس ارادے سے ہم نے اپنے ایک صحافی دوست کو ساتھ لیا اور دہلی سے نزدیک 24 اپریل کو ہونے والے انتخاب کے روز اترپردیش کا رخ کیا ۔ اترپردیش کا انتخاب خصوصاً اس لئے کیا کہ ایک تو یہ میرا آبائی صوبہ ہے اور پھر ٹی وی سروے اترپردیش کے متعلق یہ کہہ رہے ہیں کہ 45 سے 50 تک سیٹیں وہاں بی جے پی کو ملنے کا امکان ہے ۔ ظاہر ہے کہ یو پی میں ’مودی لہر‘ ہی نہیں بلکہ بقول مودی کے مشیر خاص امیت شاہ کے وہاں تو ’’مودی سونامی‘‘ یعنی مودی کی آندھی ہونی چاہئے ۔ اس لئے ہم پچھلے ہفتے پولنگ والے روز خود مودی آندھی کا سامنا کرنے اترپردیش کے تاریخی شہر متھرا ، آگرہ اور فتح پور سیکری پہنچ گئے ۔ متھرا ٹھہری کرشن جنم بھومی ۔ اس برج بھومی پر ہی کرشن جی نے رادھا سے ٹوٹ کر عشق کیا اور یہیں پلے بڑھے ۔ ظاہر ہے کہ ہندو سماج کے لئے متھرا نہ صرف مقدس شہر ہے بلکہ اس شہر پر ہندو رنگ بھی ہونا چاہئے ۔ اسی خیال سے سوچا کہ متھرا میں تو مودی جی نے قیامت اٹھا رکھی ہوگی ۔ لیکن افسوس ہم کو متھرا میں مودی لہر تو درکنا رمودی گاجی کے جادو کا ایسا کوئی اثر نظر نہیں آیا جس سے یہ محسوس ہو کہ متھرا میں بی جے پی کی نمائندہ اورمشہور فلم اداکار ہیما مالنی یہاں سو فیصد چناؤ جیت رہی ہیں ۔ اس کے برخلاف متھرا میں راشٹر لوک دل کے لیڈر اجیت سنگھ کے بیٹے جینت کا رنگ چڑھا ہوا تھا ۔ ہاں متھرا شہر اور ورنداون کے علماء میں اکثریت بی جے پی کو ووٹ ڈال رہی تھی ۔ لیکن دیہی علاقوں میں جاٹ بھی اپنے لیڈر جینت کو ہی ووٹ ڈال رہے تھے ۔ اسکے علاوہ بہوجن سماج پارٹی کے نمائندے کو یہاں دلت ووٹ پڑرہا تھا ۔ مجھ کو متھرا میں ایک بات جو سن کر حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ اس کرشن بھومی پر بھی تقریباً ایک لاکھ ووٹر مسلمان ہیں ۔ کم از کم مجھ کو سیاسی کارکنان نے یہی بتایا اور وہ مسلم ووٹر تقریباً متحدہ طور پر جینت کو ووٹ ڈال رہے تھے ، جس سے بھی پوچھا زیادہ تر نے یہی کہا کہ متھرا میں کانگریس اور آر ایل ڈی کے متحدہ نمائندے جینت ہی چناؤ جیت رہے ہیں ۔ ویسے جینت پچھلی لوک سبھا میں بھی متھرا ہی سے چناؤ جیتے تھے ۔
یہ تو رہا متھرا کا حال ! اب ذرا سنئے مغل بادشاہ شاہجہاں کے شہر آگرہ کی داستان ۔ اس حسن و محبت کے شہر اور تاج نگری کا تو عجب حال تھا ۔ اس سے پہلے کہ ہم آگرہ کے حدود میں داخل ہوتے ہم کو پڑوس میں متھرا ہی میں لوگوں نے بتانا شروع کردیا کہ آگرہ میں تو ہاتھی یعنی مایاوتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی کا بول بالا ہے ۔ اصل میں آگرہ میں چمڑے کی فیکٹریوں کا کام بہت ہے اور یہاں جوتا بنانے کے کارخانے بڑی تعداد میں ہیں ۔ اس کام کو کرنے والوں کی اکثریت مسلمان اور دلت جاٹوں کی ہے ۔ جاٹ یہاں بہت ساری فیکٹریوں کے مالک بھی ہیں اور اچھے پیسے والے بااثر لوگ ہیں اور تعداد میں یہی زیادہ ہیں ۔ جاٹ ووٹر مایاوتی کا ووٹر ہے چنانچہ وہ آگرہ میں جم کر بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ ڈالتا ہوا ملا ۔ مسلمان تو اسٹریٹیجک ووٹنگ کا بادشاہ ٹھہرا ۔ اس نے جب دیکھا کہ شہر کا سب سے بڑا جاٹ ووٹ ہاتھی کو جارہا ہے تو اس نے بھی جم کر ہاتھی کی سواری کرنی شروع کردی ۔ آگرہ کے تقریباً دو لاکھ سے زیادہ مسلم ووٹر کی کثیر تر تعداد نے آگرہ میں مایاوتی کی ہاتھی کی سواری کرڈالی ۔ کیونکہ پولنگ بوتھ پر جس مسلم عورت مرد کو دیکھا وہ ہاتھی ہاتھی ہی کرتا نظر آیا ۔ چنانچہ آگرہ میں جس سے پوچھا سب نے ہاتھی کے جیتنے کی امید جتائی جبکہ کنول کا پھول یعنی بی جے پی کا نشان آگرہ میں اونچا دکھائی دے رہا تھا ۔ ہاں شہر کے ایک علاقے جہاں بنیوں اور پنجابیوں کی کثیر تعداد ہے جو کاروں میں سوار ہو کر بہترین کپڑوں میں ملبوس ووٹنگ بوتھ پر آرہے تھے وہ مودی کے مداح بھی تھے اور ان کی ہی پارٹی کو ووٹ ڈال رہے تھے ۔ الغرض شہر تاج آگرہ میں بھی بی جے پی کی لہر تو درکنار بی جے پی نمائندے کے جیتنے کے کوئی آثار نہیں تھے ۔
خیر آگرہ کے بعد ہم نے سوچا پڑوس میں شہنشاہ اکبر اور حضرت شیخ سلیم چشتی ؒکے شہر فتح پور سیکری کا رخ کیوں نہ کریں ۔ آگرہ سے بمشکل تمام 40 کیلومیٹر دور فتح پور سیکری ہم جلد ہی پہنچ گئے ۔ لیکن جب ہم فتح پور سیکری پہونچے تو پولنگ ختم ہونے کا وقت ہورہا تھا ۔ ایک پولنگ اسٹیشن کا جائزہ لیتے لیتے ووٹنگ ختم ہوگئی ۔ اس پولنگ اسٹیشن پر ہم کو لگا کہ مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان بٹ رہا ہے ۔ خیر پولنگ ختم ہوچکی تھی پھر بھی ہم نے شہر میں لوگوں سے بات کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ فتح پور سیکری میں بھی مایاوتی کے ہاتھی کا پلڑا بھاری ہے ۔ بس اسکے بعد ہم نے حضرت شیخ سلیمؒ کے مزار پر حاضری دی اور واپس دہلی کا رخ کیا ۔ واپس دہلی آتے وقت ہم نے اپنے صحافی دوست کے ساتھ اپنے دورہ کے متعلق گفتگو شروع کی تو ہم حسب ذیل نتیجے پر پہونچے ۔
۱ ۔ اترپردیش کے زیادہ تر علاقوں میں کوئی مودی لہر نظر نہیں آرہی ہے ۔ یہاں ہر شہری حلقوں میں (خصوصاً بڑے شہروں میں) اعلی ذات کے افراد میں مودی کا گہرا اثر ہے ۔ لیکن ان کا ووٹ اکیلے کارگر نہیں ۔ یعنی آر ایس ایس اور بی جے پی کی مودی کے نام پر متحدہ ہندو ووٹ بینک بنانے کی کوشش کوئی بڑی کارگر نظر نہیں آرہی ہے ۔
۲ ۔ اترپردیش میں اس انتخاب میں بھی ہندو ووٹر ذات کی بنا پر ہی ووٹ دے رہا ہے ۔ یعنی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اس چناؤ میں بھی اترپردیش کے اہم کھلاڑی ہیں ۔ مسلمان کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے اس سیکولر پارٹی کو ووٹ ڈال رہا ہے جو بی جے پی کو ہراسکتا ہے ۔
۳ ۔ مسلم حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لئے بی جے پی نے خود ساختہ مسلم لیڈران میں پیسہ بانٹا ہے جس کا مقصد مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کرنا ہے ۔ اس حکمت عملی میں اس جگہ پر کامیابی نہیں ہورہی ہے جہاں ہندو ووٹر جم کر ایک سیکولر پارٹی کو ووٹ دے رہا ہے ۔ مثلاً متھرا میں ہندو اکثریت جینت کے ساتھ تھی تو وہاں مسلمان بھی ان کو ہی ووٹ دے رہے تھے ۔ آگرہ میں ہندو اکثریت بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دے رہی تھی تو وہاں مسلم اکثریت بھی بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ ڈال رہی تھی لیکن فتح پور سیکری میں مسلم ووٹر میں کچھ انتشار تھا کیونکہ ہندو ووٹر بھی بٹ رہا تھا اور اس انتشار کو بڑھانے میں خود ساختہ مسلم لیڈروں کا ہی ہاتھ تھا ۔
الغرض کم از کم مودی لہر راقم الحروف کو اترپردیش اور اس سے قبل دہلی جہاں راقم الحروف مقیم ہے کہیں نظر نہ آئی ۔ بقول منموہن سنگھ مودی لہر محض میڈیا نے خلق کی ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ یہ زمینی حقیقت ہے ۔ ہندو ووٹر متحد نہیں ہے ، آرایس ایس کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہندو ووٹر ذات پات یا علاقائی پارٹیوں کے گروہ میں بڑی تعداد میں بٹا ہوا ہے ۔ اور خطرناک بات یہ ہے کہ ابھی بھی یو پی میں بالخصوص مسلم ووٹر میں انتشار پیدا کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے جس میں خود ساختہ لیڈر میر جعفر و میر صادق کا رول ادا کررہے ہیں ۔ اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ ایک بات طے ہے وہ یہ ہے کہ مودی لہر محض ایک فریب ہے اور کچھ نہیں !