ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہ دینا غلطی، مرکزی وزراء کا احساس، پارٹی کو شاید مسلمانوں پر بھروسہ نہیں ، بی جے پی ریاستی رکن عاملہ کا تاثر
لکھنو۔یکم مارچ (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش میں بی جے پی کے اقلیتی کارکنوں نے گزشتہ پانچ سال مسلمانوں کو پارٹی سے قریب کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی لیکن اس کے صلہ میں پارٹی نے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے موقع پر ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اترپردیش بی جے پی کے اقلیتی سیل نے رکنیت سازی مہم کا خاص اہتمام کیا تھا اور انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے تک رجوع ہوئی۔ بی جے پی کے شعلہ بیان لیڈر ونئے کٹیار کا یہ موقف ہے کہ مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس مرکزی وزراء راج ناتھ سنگھ، اوما بھارتی اور مختار عباس نقوی نے یہ احساس ظاہر کیا کہ پارٹی کو چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی۔ مرکزی وزیر آبی وسائل اوما بھارتی نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے اس موقف سے اتفاق کیا کہ بی جے پی کو یو پی اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینا چاہئے تھا۔ اوما بھارتی کا یہ احساس ہے کہ پارٹی نے مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دے کر غلطی کی ہے اور انہوں نے کہا کہ مسلم امیدوار نامزد نہ کرنے پر انہیں کافی افسوس ہے اور انہوں نے صدر بی جے پی امیت شاہ کے علاوہ ریاستی صدر کیشو پرساد میوریا سے اس ضمن میں بات کی۔ انہوں نے یہ جاننا چاہا کہ اسمبلی میں مسلمانوں کو کس طرح نمائندگی دی جاسکتی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینا چاہئے تھا۔ مختار عباس نقوی نے اس مسئلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ٹکٹ کا تعلق ہے اگر مسلم امیدواروں کو ٹھہرایا جاتا تو بہتر ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ریاست میں حکومت تشکیل دیں گے اس وقت اس مسئلہ کی یکسوئی کی جائے گی۔ بی جے پی ریاستی ایگزیکٹیو ممبر رومانہ صدیقی نے بتایا کہ پارٹی اقلیتی سل نے خصوصی پروگرامس منعقد کئے اور مہم چلائی۔ اس کے نتیجہ میں پارٹی ارکان کی تعداد 2 لاکھ سے متجاوز ہوگئی تھی۔ یہ ایک خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اقلیتیں اب بی جے پی کو سیاسی اچھوت نہیں سمجھتیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی ہدایت پر خود انہوں نے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا لیکن بعض مسائل کی وجہ سے انہیں درمیان میں ہی یہ مہم روک دینا پڑی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پارٹی نے مسلمانوں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا۔ رومانہ صدیقی نے کہا وہ سمجھتی ہیں کہ مختلف انتخابات کے لیے مسلم امیدواروں کو قطعیت دینے پارٹی کو وقت درکار ہوگا۔ شاید پارٹی کو مسلم امیدواروں پر اب بھی پورا بھروسہ نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر بی جے پی حکومت تشکیل دیتی ہے کہ تو کیا ایسی صورت میں مسلم پارٹی کارکنوں کو سرکاری عہدے یا وزارتی قلمدان کا وعدہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے پارٹی کے لیے جو رول ادا کیا اس کا پارٹی قیادت کو اندازہ ہے اور یقیناً وہ ہمارے مفادات کو ملحوظ رکھیں گے۔ تاہم انہوں نے عہدوں کی نوعیت کے بارے میں تبصرے سے انکار کیا۔ مسلم راشٹریہ منچ (آر ایس ایس ملحقہ تنظیم) کے معاون کنوینر مردواج سنگھ چنڈل نے کہا کہ اگر مسلم پارٹی کارکن انتخابی میدان میں کامیابی کی صلاحیت رکھتے ہیں تو انہیں اس کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے۔ انوہں نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے مسلم پارٹی کارکن بی جے پی کے ساتھ سرگرم ہیں۔ لیکن ٹکٹ دینے کے بارے میں فیصلے کا اختیار پارٹی قیادت کو ہی ہے۔ تاہم مثالی کارکردگی پیش کرنے والوں کو اس کا صلہ بھی ملنا چاہئے۔