یوگا … ایک جائزہ

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

اسلام دین توحید ہے اور وہ ساری انسانیت کو توحید خالص کی طرف دعوت دیتا ہے، یہی توحید خالص وحدت انسانیت کی تعلیم دیتی ہے یعنی ساری کائنات کا خالق و مالک ایک اللہ ہے اور اسی نے ایک انسان حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ انسانوں کو وجود بخشااس نسبت سے سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اس کائنات ارضی پران کے رہنے بسنے کا انتظام کیا، انسان ہونیکے ناطے جو تہذیب و تمدن ان کیلئے ضروری تھا انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ متعین فرمایااور یہ تمدن اسلامی تمدن کہلاتا ہے جس کا رشتہ توحید خالص سے جڑا ہوا ہے اسلئے اس کے اثرات، اعتقادات، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق ہر ایک میں دیکھے جاتے ہیں۔
عقیدۂ توحید پر جو راسخ ہوگئے وہ اسلامی تہذیب و تمدن کا پیکر بنے رہے اور جنہوں نے عقیدۂ توحید سے رشتہ توڑا اور معبودان باطل کے پرستار ہوگئے وہ ایک ایسی تہذیب و تمدن کے بانی بن گئے جو شرکیات و کفریات سے آلودہ ہے، اسلئے ہر دو تہذیبوں کے درمیان ہمیشہ ٹکراؤ رہا ہے۔ اہل اسلام نے نہ کبھی اسلامی تہذیب سے اپنا رشتہ توڑا اور نہ ہی غیر اسلامی تہذیب کو گلے لگایا، یہ بات صحیح ہے کہ دین اسلام دلداری و دلدہی اور رواداری پر یقین رکھتا ہے اور توحید حق کی بے آمیز دعوت کو اسی مصلحت و حکمت کے ساتھ پیش کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ انسانیت، بھائی چارہ، ہمدردی و غمخواری، احسان و سلوک اسلامی تہذیب کے وہ عناصر ہیں جو انسانیت پر مبنی ہیں لیکن وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتی کہ ان عناصر کی وجہ عقیدۂ توحید سے مربوط اسلامی تہذیب پر مشرکانہ غیر اسلامی تہذیب کی چھاپ پڑجائے، خاص طور پر اعتقادات و عبادات کی انفرادی شان جو دیگر مذاہب سے اس کو ممتاز کرتی ہے، اسمیں کسی طرح کی آمیزش اسلام قبول نہیں کرسکتا، اب رہے وہ معاملات، معاشرت اور اخلاق جو اسلامی ہیں وہ بھی منفرد شان کے حامل ہیں، البتہ انمیں سے وہ جن کا تصادم اسلام کے بنیادی احکام و اعتقادات سے نہ ہو ان کو ایک حد تک گوارہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ ملی جلی معاشرت میںکاروبار زندگی انجام دینے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔
باطل طاقتوں نے ہر دور میں یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح اسلامی شناخت کومسخ کیا جائے، مختلف کوششوں سے اسلامی اعتقادات میں تزلزل پیدا کیا جائے اور اسلامی عبادات کی انفرادیت کو دھکا لگایا جائے اور ایسی کوششیں کی جائیں کہ جسکی وجہ اسلام سے مسلمانوں کا تعلق برائے نام رہ جائے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ’’یوگا‘‘ ہے، ہندو مذہب کے اسکالرس کی تحقیق کے مطابق یوگا روحانی و جسمانی تربیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور یہ ان کی فکر کے مطابق ’پرماتما‘ کی خوشنودی کیلئے کیا جانے والا عمل ہے، ان کی مذہبی کتابوں میں یوگا کو عبادت کا درجہ دیاگیا ہے جبکہ ساری کائنات کے خالق و مالک سے اس طریقہ یوگاکا عبادت ہونا ثابت نہیں اس لئے یہ خود شرک ہے، یوگا کے موقع پر جو اشلوک سنسکرت میںپڑھے جاتے ہیں وہ مشرکانہ افکار کے مظہر ہیں، لیکن اس وقت اس کی بنیادی مشرکانہ حیثیت پر پردہ ڈال کر ’’جسمانی ورزش‘‘ کے خوشنما عنوان کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں اسکوفروغ دینے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے اور ملت اسلامیہ غیر سنجیدہ انداز میں قبول کرنے کی طرف مائل نظر آرہی ہے۔ان مشرکانہ اشلوک کا التزام نہ کیا جائے لیکن ورزش ہی کی غرض سے کیوں نہ ہو یوگا کی ہیئت اختیار کی جائے تب بھی تشبہ بالکفر کی وجہ ناجائز ہی ٹھہرے گا۔ عام طور پر لوگ اس کے منافع اور افادیت کو نمایاں کرکے جواز کی راہ تلاش کرتے ہیں لیکن کسی شئے کے اختیار کرنے کیلئے صرف اس کا مفید اور منفعت بخش ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اسلام کے احکامات کی رو سے انکا جائز ہونا بھی ضروری ہے، اسلام نے تو مشتبہ چیزوں میں پڑنے سے بھی منع کیا ہے اور خاص طور پر جن کے ڈانڈے کفر و شرک سے ملتے ہیں ان پر تو شدید قدغن لگائی ہے۔

ہندوستان کے بہت سے سادہ لوح مسلمان ورزش کے خوشنما عنوان سے دھوکہ کھارہے ہیں اور صحت جسمانی کے خیال سے یوگا اختیار کرکے کفریہ و شرکیہ اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں، ہندوستان وغیرہ جیسے تکثیری مذاہب پر مشتمل سماج و معاشرہ کہ جس میں اہل اسلام کا اہل باطل سے خلاملا ہے اور جن سے رات و دن کا ساتھ ہے وہ یوگا کے خوشنما عنوان ’’ورزش‘‘ کے نام سے دھوکہ کھائیں تو اس پر کیا تعجب جبکہ خالص اسلامی ممالک جن میں رہنے بسنے والے خالص اسلامی تہذیب و تمدن کے پروردہ ہیں وہ بھی اس خوشنما عنوان سے فریب کا شکار ہیں۔ چنانچہ ایک کتاب ’’یوگا شریعت اسلامی کی روشنی میں‘‘ اس کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یوگا کے فلسفہ پر لکھی جانے والی قدیم کتاب جو سنسکرت میں ہے کا عربی میں ترجمہ کیاگیا ہے۔اس میں لکھا ہے کہ عربوں کی بڑی تعداد یوگا کی خصوصی تربیت کیلئے ہندوستان کے یوگا سنٹرس پر آرہی ہے، یہ بھی کہ عرب حکمرانوں اور شاہی خاندان کے بڑے بڑے تجار و صنعتکاروں کے بعض خاندانوں کو یوگا کی تربیت دینے کیلئے ہندوستان سے خصوصی طیاروں کے ذریعہ یوگی گروؤں کو بلا کر تربیت کا اہتمام کیا جارہا ہے اور عرب دنیا میں اب الہند کو ’’الارض یوجا‘‘ کے نام سے جانا جارہا ہے اور ایک افسوسناک اطلاع یہ بھی رقم کی ہے کہ قطر ایرویز کی جانب سے مسافرین کی صحت و تندرستی و آرام دہ پرسکون سفر کیلئے ’’صحتمند اُڑان، فِٹ اُڑان‘‘ کے نام سے پروجیکٹ انچارج دیپک چوپڑا نے یوگا کی ایک خصوصی گائیڈ جاری کی ہے، دیپک نے اپنی گائیڈ میں یوگا کے آسان و مؤثر طریقے بتائے ہیں اور اس کے فوائد گناکر ا س کو اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے، غیر اسلامی یوگا کی اشاعت میں ایک خالص عربی اور اسلامی ملک کی حصہ داری کس قدر افسوسناک اور تعجب خیز ہے۔(العیاذباللہ)

عیسائی اور یہودی دنیا میں باوجود یہ کہ با طل پر قائم ہے لیکن کسی نہ کسی درجہ میں ان کے ہاں آسمانی روشنی موجود ہونے کی وجہ انہوں نے بھی یوگا کو ناپسند کیا ہے اور اپنے پیرؤوں کو یوگا اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور یہ صراحت کردی ہے کہ یوگا ہندو مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے۔
موجودہ دور کے مسلم نوجوان تو اس وقت کھیل کود اور ورزش کے دیوانے ہیں اور اس کا بھوت ان کے سروں پرایسے سوار ہے کہ اسلام کے اعلیٰ مقاصد کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہے، اسلئے یوگا کو ایک ورزش بتا کر مسلم نوجوانوں تک پہنچنا آسان ہوگیا ہے لیکن ان کو ان حقائق سے آگہی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ کتاب گہری بصیرت کے ساتھ پڑھنے کی ہے تاکہ حقائق تک پہنچنے میں آسانی ہو اور غیر محسوس طریقہ پر دبے پاؤں مشرکانہ تہذیب جو مسلم کلچر کا حصہ بننے جارہی ہے اس کا سد باب ہو۔ جئے پور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے اجلاس میں یوگا و دیگر غیر اسلامی طور طریق کی پابندی کوحکومت کی طرف سے ملک کے سارے باشندوں کیلئے لازم کئے جانے کی مذمت کی گئی ہے۔