یوپی میں لا اینڈ آرڈر مسئلہ

حکمرانی کے امور میں اگر بچکانہ عوامل سر چڑھ کر بولنے لگیں تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس سے سارا نظم و نسق ٹھپ ہوجاتا ہے۔ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی حکومت میں آئے دن عوام کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مظفرنگر فسادات کے بعد سے اکھیلیش یادو حکومت ایسا معلوم ہوتا ہیکہ امن و امان کی برقراری کا فریضہ ہی فراموش کرچکی ہے۔ فساد متاثرین کو یوں ہی لاچار چھوڑ دیا گیا تو ریاست کے ماباقی دیگر علاقوں میں غنڈہ گردی، قتل، اغواء، عصمت ریزی کے واقعات کا آئے دن وقوع ہونا ایک بدترین حکمرانی کی افسوسناک مثال ہے۔ اترپردیش میں عوام کے اندر حکومت کے خلاف غم و غصہ بھڑک رہا ہے۔ خراب حکمرانی کے خلاف احتجاج اکھیلیش یادو حکومت کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ شدید برقی قلت سے پریشان عوام نے حکومت کی نااہلی پر اپنی برہمی ظاہر کی ہے۔ اب قتل و عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات نے عوام کو مضطرب کردیا ہے۔

ایک ہفتہ سے اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ اور برقی قلت سے دوچار عوام نے یو پی حکومت کی تمام خرابیوں کو ناقابل برداشت قراردیا ہے۔ روزانہ 16 گھنٹے برقی منقطع کی جارہی ہے تو عوام کا غم و غصہ لازمی ہے۔ یو پی پاور کارپوریشن لمیٹیڈ کے ایک جونیر انجینئر کو یرغمال بنانے اور پاور اسٹیشنوں پر حملے کرنے کے واقعات حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی اور حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی کی ہزیمت کے بعد سے یو پی کا نظم و نسق مزید ابتر ہوگیا۔ بی جے پی کے رکن شیام دیورائے چودھری نے وارانسی میں چار دن سے بھوک ہڑتال بھی کی ہے۔ لوک سبھا کی 80 نشستوں کے منجملہ 71 حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی ریاست میں موجودہ حالات کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اکھیلیش یادو حکومت کو مزید کمزور کرتے ہوئے وسط مدتی انتخابات کی کیفیت کو ہوا دے سکتی ہے۔ آنے والے چند دنوں میں اگر اکھیلیش یادو نے اپنی حکمرانی کی ذمہ داریوں کو سختی سے روبہ عمل نہیں لایا تو اقتدار بھی چلا جائے گا۔ مرکز میں جب وزیرداخلہ کی حیثیت سے راجناتھ سنگھ طاقتور قلمدان رکھتے ہیں تو یو پی حکومت کے پیروں تلے زمین کھسکنے کا سارا انتظام بھی آسان ہوسکتا ہے۔

یو پی کی سیاست کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ عوام کی طاقتور لابی رکھنے کے باوجود سیاسی طاقت کے ساتھ مرکز تک پہنچنے والی پارٹی یو پی کے اقتدار کو حاصل کرنے کوشش کرے گی۔ اس ریاست سے آنے والی خراب اور بری خبروں سے ظاہر ہورہا ہیکہ اکھیلیش یادو چیف منسٹر کی کرسی پر زیادہ دن تک بیٹھے رہنے کی اہلیت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ایٹاوہ میں عصمت ریزی کے مجرموں کی جانب سے متاثرہ لڑکی کی والدہ اور دو بہنوں پر حملوں کے بعد سارے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے والوں نے اس کی ماں اور بہنوں پر حملہ کیا۔ اس واقعہ میں پولیس ملازمین بھی ملوث ہیں۔ ایک پولیس جوان کو حراست میں لیا گیا۔ حکومت نے اگرچیکہ 2 پولیس کانسٹیبلوں کو برطرف کردیا ہے لیکن علاقہ بدایوں میں ہونے والا یہ واقعہ حکومت کی سطح پر سنگین لاپرواہی اور نظم و نسق میں کمزوری کو واضح کرتا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے اپنے فرزند کی غلطیوں کو نظرانداز کرنے کی غلطی کی ہے تو پھر یو پی میں ان کی پارٹی کے صفایہ کیلئے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ قومی کمیشن برائے خواتین نے یو پی حکومت سے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے۔ یہاں اکھیلیش یادو کی انتظامی صلاحیتو ںپر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ انہیں اپنے کام پر توجہ دینی چاہئے تھی لیکن اب واقعات کے تسلسل سے معلوم ہوتا ہیکہ ان کی حکومت کو سنبھالنے کا موقع نہیں ملے گا کیونکہ اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ جتنی خرابیاں پیدا ہوکر ایک مضبوط چٹان بن گئی ہیں تو یہ چٹان اکھیلیش یادو حکومت کو کچل کر رکھ دے گی۔

ملائم سنگھ یادو کو اپنے فرزند کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے انہیں فوری سرگرم سیاست سے ہٹا کر حکمرانی کی باگ ڈور خود سنبھال لیں تو سرکاری نظم و نسق کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگا۔ یوپی میں غنڈہ راج کو ختم کرنے کیلئے لا اینڈ آرڈر پر توجہ دینی چاہئے۔ پولیس ملازمین نے عصمت ریزی کا ارتکاب کیا ہے تو ان کے خلاف کارروائی کرنے سے کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ پولیس میں اصلاحات لانا ضروری ہے۔ بہوجن سماج پارٹی صدر مایاوتی نے ریاست میں جنگل راج ہونے کا ادعا کرتے ہوئے یو پی حکومت کو فوری برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران ریاست میں لا اینڈ آرڈر کو مضبوط بنانے اور اجتماعی عصمت ریزی کے خاطیوں کو سخت سزا دینے کیلئے قانون لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب انہیں اپنی ریاست کی موجودہ کیفیت کے پیش نظر سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مظفرنگر فساد متاثرین اور عصمت ریزی کا شکار مسلم خواتین سے انصاف کرنا ریاست میں نظم و نسق کو بہتر بنانے کی سمت ایک پہلا اور مثبت قدم متصور ہوگا۔ اکھیلیش حکومت نے جس طرح کی بچکانہ غلطیاں کی ہیں ان کو سدھارنے کیلئے دانشمندانہ حکمرانی کے فرائض انجام دینا ضروری ہے۔