یونیورسٹیز کے مسائل اور حکومت کی نااہلی

غضنفر علی خان
پچھلے دو ڈھائی ماہ سے حیدرآباد یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (دہلی) میں جو واقعات ہوئے اور ان سے نمٹنے میں مرکزی حکومت نے جس اناڑی پن کا ثبوت فراہم کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں دلت طالب علم روہت ویمولا کی خودکشی کا واقعہ انتہائی دردناک تھا ۔ اس کی تمام تر وجوہات بھی سامنے آچکی ہیں ۔ دو مرکزی وزرا کے دباؤ میں آکر یونیورسٹی کے حالات کو ابتر کردیا گیا ۔ دو وزراء میں سمرتی ایرانی (وزیر فروغ انسانی وسائل) اور دتاتریہ مملکتی وزیر مرکزی کابینہ ہیں ۔ جو سکندرآباد پارلیمانی حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ دتاتریہ نے مرکزی وزیر کی حیثیت سے سمرتی ایرانی کو مکتوبات روانہ کئے جس میں ایک طرفہ شکایت کی گئی تھی کہ حیدرآباد یونیورسٹی میں قوم دشمن سرگرمیاں ہیں ۔ حالانکہ اس یونیورسٹی میں بی جے پی کے طلبہ یونین اے بی وی پی اپنی اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں۔  بات طلبہ یونینوں کی نہیں تھی مسئلہ یہ تھا کہ یونیورسٹی میں دلت طلبہ کے ساتھ حد درجہ امتیازی سلوک کیا جارہا تھا جو آج بھی جاری ہے ۔ سمرتی ایرانی نے حیدرآباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اپاراؤ پر دباؤ ڈالا کہ وہ خاطی طلبہ کے خلاف کارروائی کریں ۔ دلت طالب علم روہیت کی اسکالرشپ روز دی گئی تھی ۔ وہ ایک غریب خاندان کا فرد تھا جس کے لئے یہ اسکالرشپ ہی زندہ رہنے کے لئے ضروری تھی ۔ اب کسی شخص کی سانس ہی روک دی جائے اس کے دل کی دھڑکن کو ختم کردیا جائے تو اس کے لئے خودکشی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہتا ۔ چنانچہ یہی ہوا ۔ دتاتریہ اور سمرتی ایرانی کی بیجا مداخلت اور وائس چانسلر کے معاندانہ رویہ کی وجہ سے روہت کو جان کی قربانی دینی پڑی ۔ یہ ایک نہایت واضح اور کھلا ہوا ثبوت تھا کہ آنجہانی روہت مرکزی وزراء اور مرکزی حکومت کی زیادتی کے شکار ہوئے ہیں ۔ سیدھی سی بات تھی کہ دونوں وزراء کو کابینہ سے نکال دیا جاتا ۔

اگر حکومت نے فوراؒ یہ اقدام کیا ہوتا تو مسئلہ پہلے ہی دن ختم ہوجاتا ۔ لیکن وزراء کی برطرفی تو مودی حکومت نے وقار کا مسئلہ بنالیا اور بضد ہوگئی کہ وہ اپنے کسی وزیر کو کابینہ سے نہیں نکالے گی ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے مسئلہ کو کم و بیش بین الاقوامی نوعیت اختیار کرلی ہے ۔ دنیا کی مختلف یونیورسٹیز کے علاوہ ملک کے اعلی تعلیمی اداروں اور مختلف ممالک کے ماہرین تعلیم اس بات پر اعتراض کررہے ہیں کہ یونیورسٹی کے معاملہ سے نمٹنے میں حکومت نے انتہائی سخت رویہ اختیار کیا ہے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی بات الگ ہے ۔ ان کا ذکر اس لئے بھی مناسب نہیں کہ مرکزی حکومت یہ کہہ کر دامن بچا سکتی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ حکومت پر اعتراضات کرے حالانکہ اپوزیشن اس وقت وہی کچھ کررہی ہے جو بی جے پی نے ماضی میں جبکہ اپوزیشن  میںتھی کیا تھا ۔ اپوزیشن کے طرز عمل کو اگر غلط بھی کہا جائے تو اس سوال کا موجودہ حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ دنیا بھر کے ممالک ان کی حکومتیں  ان کی طلبہ برادری اور ان کے ماہرین تعلیم نہ صرف حیدرآباد یونیورسٹی کے معاملہ میں حکومت کے طریقہ کار پر اعتراض کررہے ہیں بلکہ پرزور مطالبہ کررہے ہیں کہ یونیورسٹی کیمپس میں پولیس نے جو کارروائی کی تھی جس طرح طلبہ اور اساتذہ کو گرفتار کرکے انھیں جیل بھجوادیا تھا اس کی تحقیقات کی جانی چاہئے اور فوراً وائس چانسلر کو عہدہ سے ہٹادیا جانا چاہئے ۔ وزیراعظم مودی پر ہی نہیں بلکہ صدر جمہوریہ ہند سے بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ ان معاملات میں فوراً مداخلت کریں کیونکہ مودی سے بین الاقوامی برادری کو یہ امید نہیں کہ وہ کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گے اور طلبہ برادری کے ساتھ انصاف کریں گے  ۔ اپنی عوامی مقبولیت پر نازاں نریندر مودی کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کابینہ کے دو وزراء ان کے اتنے عزیز ہوگئے ہیں کہ دنیا بھر میں ہمارے تعلیمی اداروں کی رسوائی ہورہی ہے ۔ ہمارے تعلیمی نظام کی افادیت کے بارے میں بحث ہورہی ہے ۔ لیکن وزیراعظم ہیں کہ اپنے  دو رفقاء کابینہ کو بچانے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں ۔ ہندوستانی عوام ان سے سوال کرسکتے ہیں کہ کیوں سمرتی ایران اور دتاتریہ مودی کو ملک کی عزت اور وقار سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں ۔

اگر وزیراعظم نے ان دونوں وزراء کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو مسئلہ نے اتنی شدت اختیار نہیں کی ہوتی ۔ ملک و قوم کی کسی درسگاہ کے بارے میں دنیا بھر سے شکایتیں وصول ہورہی ہیں اور حکومت یا وزیراعظم کے کان پر جوں نہیں رینگی تو اس سے زیادہ المناک اور کیا بات ہوسکتی ۔ اگر دونوں کو برطرف کرنے میں وزیراعظم کا وقار حائل ہے اور برطرفی کو Prestige issue سمجھتے ہیں تو انھیں کسی اور عہدے پر فائز کیا جاسکتا تھا ۔ کابینہ میں رد و بدل تو عام بات ہے اس میں کسی وزیراعظم کے وقار کے متاثر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر کم از کم دونوں کو دوسرے قلمدان دئے گئے ہوتے تو طلبہ کا یہ احتجاج ختم نہ ہوتا تو کمزور ضرور پڑجاتا تھا ۔ ابھی فی الحال حیدرآباد یونیورسٹی کے حالات بہتر ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ دوسری طرف ریاستی حکومت کا رویہ بھی کسی جواز کا مستحق نہیں ہے جس انداز میں ریاستی پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں اپنی بیجا طاقت کا استعمال کیا اور من مانی گرفتاریاں کی اس کی ذمہ داری تو ریاستی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ پولیس نے اپنے ہی ملک کی یونیورسٹی کو غذا اور پانی سے محروم کردیا۔ ہاسٹلس بند کردئے گئے ۔ گویا یہ ہمارے اپنے طلبہ نہیں تھے بلکہ کسی بیرونی دشمن ملک کے باشندے تھے ۔

پولیس نے جس brute force جس ظالمانہ طاقت کا استعمال کیا وہ قابل مذمت ہے ۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے کیمپس میں کنہیا کمار کے داخلہ کو روک دینا بھی سخت اناڑی پن کا مظاہرہ تھا ۔ کنہیا کمار کی یہاں کی طلبہ برادری سے اظہار یگانگت کے لئے آئے تھے ۔ وہ  پی ایچ ڈی اسکالر ہیں ملک سے غداری اور بغاوت کے الزام کے تحت گرفتار ہونے کے بعد بہت مشکل سے انھیں ضمانت ملی تھی وہ بھی عارضی ضمانت ہے تو کیا کنہیا کمار سے یہ خوف پولیس کا درست ہوسکتا ہے کہ وہ حیدرآباد یونیورسٹی کے طلبہ میں کوئی قوم دشمن تقریر کریں گے ۔ پھر کیا وجہ تھی کہ انھیں حیدرآباد کے طلبہ برادری سے ملنے نہ دیا گیا ۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے باب الداخلہ پر پولیس نے انھیں روک دیا گویا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر نہ ہوئے بلکہ کوئی عادی مجرم تھے جن کے احاطہ یونیورسٹی ممیں داخل ہونے سے ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ۔ یہاں بھی ریاستی پولیس اور مرکزی حکومت نے نااہلی کا ثبوت دیا ۔ ایک بیجا خوف کے تحت کنہیا پر پابندی لگادی گئی ۔ اگر انھیں حیدرآباد یونیورسٹی میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تو اس سے کیا فرق پیدا ہونے والا تھا کیوں یہاں پر بھی یونیورسٹیز کے معاملات سے نمٹنے میں اناڑی پن کا مظاہرہ کیا گیا ۔ طلبہ برادری ہر دور اور ہر ملک میں ایک زبردست طاقت ہوتی ہے ۔ انھیں اس طرح سے چھیڑ کر حکومت کوئی نفع بخش سودا نہیں کررہی ۔ اگر سارے ملک کی یونیورسٹیز کے طلبہ میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے ان کے بنیادی حقوق چھینے جارہے ہیں تو پھر ہم کو نئے خطرات کے لئے تیاررہنا چاہئے ۔