یمن میں تشکیل حکومت‘ القاعدہ کے ہاتھوں کئی افراد ہلاک

صنعاء۔ 9؍نومبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ القاعدہ نے آج دعویٰ کیا کہ اس کے عسکریت پسندوں نے کئی باغیوں کو ہلاک کردیا ہے اور امریکہ کے سفیر کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جب کہ خانۂ جنگی کے شکار ملک میں نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا گیا۔ کابینہ تشکیل دی گئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بارسوخ سابق صدر علی عبداللہ صالح اور دو کمانڈرس پر امن کے لئے خطرہ بننے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے تحدیدات کا اعلان کیا تھا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد نئی کابینہ تشکیل دی گئی اور آج نئی حکومت قائم ہونے کا اعلان کیا گیا۔ ردعمل کے طور پر صالح کی جنرل پیپلز کانگریس پارٹی نے صدر یمن عبدالرب منصور ہادی کو صدارت اور پارٹی کی قیادت سے برطرف کردیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے سودوں کی منظوری دی تھی۔ یمن فروری 2012ء میں بہار عرب اِنقلاب کے بعد سے جب کہ صدر صالح کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا، باغیوں اور القاعدہ نے اقتدار کے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کی، عدم استحکام پھیلا ہوا ہے۔ تازہ ترین تشدد میں القاعدہ نے دعویٰ کیا کہ آج علی الصبح دو سلسلہ وار حملے کئے گئے جن میں کئی حوتی باغی وسطی علاقے رادا میں ہلاک کردیئے گئے جب کہ جہادیوں نے تیز رفتار علاقائی پیشرفت روک دی۔ انتشار کی صورتِ حال میں اضافہ سے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ جزیرہ نمائے عرب کا یہ ملک جس کے پڑوس میں تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب واقع ہے

اور یمن خلیجی ممالک کے لئے نہر سوئز کے راستہ میں اہم مقام پر واقع ہے، حالانکہ خانۂ جنگی کے نتیجہ میں ایک ناکام ملک بن گیا ہے۔ القاعدہ نے بھی کہا کہ اس نے امریکی سفیر برائے یمن میتھیو ٹیلر کو ہلاک کردینے کی کوشش کی تھی، لیکن دو بم مقررہ وقت سے قبل ایک کے بعد ایک پھٹ پڑے۔ ان بموں کو جمعرات کے دن صدر عبدالرب منصور ہادی کی قیامگاہ کے باہر نصب کیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے شعبہ نے جو القاعدہ کی یمن شاخ ہے، اپنے ایک بیان میں جو ٹوئٹر پر شائع کیا گیا، اطلاع دی کہ سرکاری طور پر اس ناکام سازش کی توثیق نہیں ہوسکی۔ امریکہ جو ہادی کو القاعدہ کے خلاف جنگ میں کلیدی حلیف سمجھتا ہے، نئی 36 رکنی کابینہ کا خیرمقدم کررہا ہے۔ اس کثیر جماعتی کابینہ کو یمنی اتحاد کی طاقت کا نمائندہ ہونا چاہئے۔ امریکہ نے کہا کہ انفرادی اور یکطرفہ مفادات پر قومی مفادات کو غلبہ ہونا چاہئے اور قوم کو اس سلسلہ میں گمراہ نہیں ہونا چاہئے۔ امریکی سلامتی کونسل کی ترجمان برناڈیٹ میہان نے کہا کہ نئی حکومت اقوام متحدہ کی ثالثی سے طئے شدہ امن معاہدہ کے تحت قائم ہوئی ہے۔

اس معاہدہ کے تحت حوتیوں کو دارالحکومت صنعاء سے تخلیہ کردینا چاہئے جس پر انھوں نے ستمبر میں قبضہ کرلیا ہے، حالانکہ حوتی ایک عرصہ تک انصاراللہ کے نام سے شہرت رکھتے ہیں، نئی حکومت میں ان کی راست نمائندگی نہیں رکھتے۔ کابینہ کے 6 ارکان سمجھا جاتا ہے کہ شورش پسندوں سے گہرے روابط رکھتے ہیں۔ یکم نومبر کو اہم پارٹیوں نے اقوام متحدہ کی سفیر برائے یمن جمال بینومار کی ثالثی سے ایک معاہدہ پر دستخط کئے تھے جس کے تحت ٹکنوکریٹس پر مشتمل ایک نئی حکومت تشکیل دی جانی تھی۔ الاصلاح اسلامی پارٹی نے صدر ہادی کو حکومت تشکیل دینے کا اختیار دیا تھا اور اس کی تائید کا تیقن بھی دیا تھا۔ نئے معاہدہ کی روشنی میں بینومار نے ایک انٹرویو میں انتباہ دیا کہ تیزی سے حکومت تشکیل دینے کے نتیجہ میں امکان ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوجائے گا اور ملک شدید بحران کی گرفت میں آجائے گا۔ یمن ایک پسماندہ ملک ہے، لیکن ایک عرصہ سے یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کی بناء پر خانۂ جنگی جاری ہے۔ سابق صدر عبداللہ علی صالح سابق سوویت یونین کے حلیف تھے اور اقتدار سے بے دخل ہونے سے پہلے تک بھی انھیں روس کی حمایت حاصل تھی۔